کیا یہ جہانگیر ترین صاحب کی سیاسی زندگی کا آخری باب تھا جو تمام ہوا؟
عمران خان صاحب کی سیاسی کامیابیوں کا سب سے زیادہ خراج، ترین صاحب نے ادا کیا۔ روپیہ پانی کی طرح بہایا۔ نواز شریف کی نااہلی کا تاوان بھی تاحیات نااہلی کی صورت میں بھرا۔ اب خان صاحب کی نظر التفات بھی گئی۔ دامن جھاڑ کر، وہ ایک طرف کھڑے ہیں۔ اگر کچھ باقی بچا ہے تو ان واقعات کے چہروں سے نقاب کشائی، جن کے وہ عینی شاہد تھے۔ اس کا آغاز انہوں نے کر دیا ہے۔ اگر وہ خان صاحب کے ساتھ ہجرووصال کی داستان، سچائی کے ساتھ لکھ دیں تو تہلکہ مچ جائے۔ ریحام خان کی کتاب سے زیادہ ہنگامہ خیز ثابت ہو۔ اب وہ اس قوم کی یہی خدمت کر سکتے ہیں۔
اس بار انہوں نے کوئی جرم کیا یا نہیں، ابھی طے ہونا ہے۔ اب تک جو کچھ سامنے ہے، اس کے مطابق وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے فیصلوں سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک ہیں۔ قانون کی نظر میں یہ کوئی جرم نہیں، الا یہ کہ وہ قانون سازی کے عمل پر اثر انداز ہوئے ہوں اور اس کی شہادت موجود ہو۔ عوام کی نظر میں مگر وہ مجرم بنا دیے گئے ہیں۔ ‘پوسٹ ٹرتھ‘ کے دور میں یہی ہوتا ہے۔
یہ اقتدار کا بے رحم کھیل ہے جو انسان کی معلوم تاریخ میں اسی طرح سے جاری ہے۔ قدیم یونان کی سیاسی بساط پر کھیلے جانے والے ڈرامے ہوں یا عصرِ حاضر کے سیاسی واقعات، ان میں ایک ہی روح جاری و ساری ہے: سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہاں کوئی کسی کا رشتہ دار نہیں ہوتا۔ ہر آدمی اپنی ذات کا اسیر ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ کبھی اقتدار تک نہ پہنچے۔ تاریخ میں صرف ان کا استثنا ہے جنہیں عالم کے پروردگار نے اپنی رحمت سے یہ نعمت بخشی جیسے حضرت سلیمانؑ یا جنہیں ‘قانونِ اتمامِ حجت‘ کے تحت حکومت ملی جیسے اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ اور آپ کے صحابہؓ۔
عمر بن عبدالعزیز کا اقتدار بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اسی طرح کے الہامی وعدے کی تکمیل ہے۔ وہ کبھی اس کے امیدوار نہ تھے۔ اگر یہ روایت درست ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد، قیامت سے پہلے اللہ نے ایک بار پھر خلافت علی منہاج النبوت قائم کرنی ہے تو عمر بن عبدالعزیز کی صورت میں یہ پیش گوئی ہو چکی۔ ہمارے بعض قدیم مورخ اور اہلِ علم یہی کہتے ہیں۔ اس کے سوا پوری تاریخ میں، اقتدار کے کھیل میں خود غرضی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہلِ اقتدار میں کوئی خوبی یا نیکی نہیں ہوتی۔ وہ دونوں کا مجموعہ ہوتے ہیں؛ تاہم ایک بات طے ہے۔ اگر وہ جذبات اور اصولوں کے اسیر بن جائیں تو کبھی اقتدار تک نہ پہنچ پائیں۔ عمران خان صاحب اقتدار تک کیسے پہنچے؟ یہ کوئی راز نہیں۔ سیاست پر سرسری نظر رکھنے والا بھی جانتا ہے مگر جہانگیر ترین صاحب نے تو گویا معاملے کو حق الیقین تک پہنچا دیا۔
انہوں نے اپنے انکشافات کا آغاز اسی سے کیا ہے کہ عمران خان وزیر اعظم کیسے بنے؟ بتایا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی۔ اگر ہوئی تو محض چند سیٹوں پر اور دنیا کا کوئی الیکشن اس سے خالی نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنی شکست کی وجہ بھی بتائی کہ تحریکِ انصاف کے امیدواروں میں جیتنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ ساٹھ فیصد نشستوں پر تو وہ دوسرے یا تیسرے نمبر پر بھی نہیں تھے۔
ان کے اپنے الفاظ میں، انہوں نے خان صاحب کو باور کرایا کہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے اصول ضابطے نہیں، زمینی حقائق اہم ہوتے ہے۔ ان کی بات مان لی گئی۔ پھر الیکٹ ایبلز کا بازار لگا اور تحریک انصاف سب سے بڑی خریدار بن گئی۔ منڈی کے اصل بیوپاری نے بھی سرپرستی کی۔ یوں عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ 2014ء کے دھرنے کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں تھی۔
خان صاحب کا یہی محسن یا یوں کہیے، فکر ساز، اب زیرِ عتاب ہے۔ کل عمران خان صاحب کی سیاست کو ان کے پیسے کی ضرورت تھی تو ان کا پیسہ استعمال ہوا۔ آج خان صاحب کی اخلاقی ساکھ کے لیے جہانگیر ترین کی ساکھ کی ضرورت پڑ گئی تو ان کی ساکھ خان صاحب کی سیاست کا ایندھن بن گئی۔ پیسے کا خسارہ تو شاید انہوں نے پورا کر لیا ہو، ساکھ کا خسارہ کم ہی پورا ہوتا ہے۔ اگر 25 اپریل کے بعد یہ ثابت ہو بھی جائے کہ وہ بے گناہ تھے تو یہ ثبوت اب ان کے کسی کام کا نہیں۔
جہانگیر ترین بھی جس طرح کہنی مار کر آگے بڑھے، وہ ہم سب کا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ 2011ء میں شامل ہوئے اور سب پچھلوں سے آگے نکل گئے۔ ظاہر ہے سرمایے کی بنیاد پر۔ اسد عمر جیسے پس منظر میں چلے گئے۔ اب مخالفین کو موقع ملا تو وہ کیوں پیچھے رہتے۔ انہوں نے اپنا حساب برابر کر دیا۔ سیاست میں یہی ہوتا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے گلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔
اگر سب سیاست اور اقتدار کے لیے ہوتا ہے تو کیا خان صاحب کو اب جہانگیر ترین کی ضرورت نہیں رہی؟ کیا انہوں نے ایک خطرہ مول نہیں لیا؟ جہانگیر ترین اگر جواباً بروئے کار آتے ہیں تو کیا ان کے لیے مسائل نہیں پیدا کریں گے؟ اس سوال کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔ ایک میرے ذہن میں بھی ہے جو ظاہر ہے کہ قیاس ہی ہے۔
خان صاحب کی سیاست کو دو بحرانوں کا سامنا ہے۔ ایک اخلاقی اور دوسرا انتظامی۔ احتساب کا عمل اپنی اخلاقی ساکھ کھو چکا۔ بالخصوص رانا ثنا اللہ اور شاہد خاقان عباسی کے معاملات میں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔ احتساب عمران خان کی سیاست کا عمود ہے۔ اگر یہ عمود گر جائے تو سیاست کی چھت کھڑی نہیں رہ سکتی تھی۔ اس کو قائم رکھنے کی ایک ہی صورت تھی کہ دوسری طرف سے جہانگیر ترین سطح کا کوئی آدمی قربان کیا جائے۔ تحریک انصاف کی پروپیگنڈا مشینری نے جس طرح، اس رپورٹ سے سیاسی فائدہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے۔ انہوں نے اپنے تئیں ثابت کر دیا کہ انسانی تاریخ میں ‘پہلی بار‘ اس طرح کا کوئی حکمران آیا ہے جس نے عدلِ نوشیروان کو بھی شرما دیا۔
تو کیا جہانگیر ترین اس پر کسی ردِ عمل کا اظہار کریں گے؟ میرا خیال ہے ان کا سیاسی دامن خالی ہو چکا۔ انہوں نے بیٹے کو سامنے لانے کی کوشش کی لیکن اندازہ ہوا کہ وہ اس دنیا کا آدمی نہیں ہے۔ وہ اب انکشافات کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کا کوئی سیاسی اثر‘ رسوخ ہے نہ کوئی سیاسی عصبیت۔ صرف ایک صورت باقی ہے کہ انہیں مقتدر حلقے کی سرپرستی میسر آ جائے۔ اب وہ حلقہ ایسے آدمی کی سرپرستی کیوں کرے گا جو سیاست کی ناگزیر ضرورت نہیں رہا؟
رہا انتظامی بحران تو اس کا کوئی حل خان صاحب ابھی تک تلاش نہیں کر سکے۔ کورونا بحران نے انہیں ایک مہلت دے دی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اس دوران میں اس بحران کا کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ان کی سیاست بچ جائے گی۔ لیکن اگر یہ بھی نہ ہو سکا تو ان کے پاس ایک راستہ باقی ہے: وہ صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا کہہ دیں۔ اس صورت میں وہ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ اپنے ان اقدامات کو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنائیں اور عوام کو باور کرائیں کہ وہ قوم کو روایتی سیاست سے نجات دلانا چاہتے تھے، اس لیے ان کا راستہ روکا گیا۔
اگلے عام انتخابات میں وہ صرف علی محمد اور سعید مراد جیسوں پر جوا کھیل سکتے ہیں‘ جن کا اوّل و آخر خان صاحب ہیں۔ اس طرح اس مطلق العنان اقتدار کی طرف پیش رفت ممکن ہوگی، جس کا وہ خواب دیکھتے ہیں۔ یوں وہ سیاست کو حسبِ منشا دو گروہوں، روایتی اور غیر روایتی میں تقسیم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کی سیاست اسی ڈگر پہ آگے بڑھ سکتی ہے۔
یہ میرا تجزیہ ہے جس کی اساس کسی خبر پر نہیں۔ یہ میں نے واقعات کی پیش رفت سے کشید کیا ہے۔ اس میں غلطی کا اتنا ہی امکان ہے جتنا صحت کا۔