اگر آپ سمجھنا چاہیں کہ کورونا وائرس کتنا متعدی ہے اور کتنی خاموشی سے کتنا دور تک پھیل سکتا ہے تو ان دنوں لاہور شہر کے مضافات میں کے متمول علاقے بحریہ ٹاؤن کی طرف ایک نظر کافی ہے۔
دو روز قبل تک وہاں بھی باقی شہر جیسے لاک ڈاؤن کے حالات تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ لاہور کے مضافات میں واقع اس وسیع و عریض علاقے کے داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس تعینات ہے اور کسی بھی غیر رہائشی شخص کا داخلہ بند ہے۔
اس صورتحال کی وجہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے ملازمین کے کورونا ٹیسٹ ہیں۔
ملک ریاض نے اپنے چند ملازمین کے کورونا ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا تھا اور صوبائی محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے مطابق ان کے 48 ملازمین کے نمونے لے کر شوکت خانم لیبارٹری بھجوائے گئے اور بدھ کے روز تک ان میں سے 28 افراد میں کورونا کی تصدیق ہو چکی تھی جبکہ کئی کے نتائج آنا باقی تھے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور دانش افضل کے مطابق متاثرہ افراد میں ‘سکیورٹی گارڈز، مالی، ڈرائیور اور دیگر ملازمین شامل تھے۔‘
متاثرہ افراد کو لاہور کے ایکسپو سنٹر میں قائم فیلڈ ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا جبکہ جن کے نتائج آنا باقی تھے انہیں بحریہ ہی میں آرچرڈ ہسپتال میں قرنطینہ میں رکھا گیا تھا۔
لاہور کے علاقے صدر کے سپرنٹینڈنٹ آف پولیس غضنفر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان ملازمین کے علاوہ دو گلیاں جہاں دو سے تین گھروں میں کورونا کے مریض سامنے آئے تھے انہیں بھی بند کیا گیا ہے۔ اس کے بعد حکام یہ معلوم کرنے کے کوشش کر رہے ہیں کہ ایک ہی جگہ پر اتنے زیادہ افراد تک وائرس کیسے پہنچا۔
ڈپٹی کمشنر لاہور کے مطابق اس کا پتہ چلانے کے لیے کونٹیکٹ ٹریسنگ اور متاثرہ افراد سے انٹرویوز کیے جا رہے ہیں۔ کونٹیکٹ ٹریسنگ وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے متاثرہ شخص کے ساتھ گذشتہ 14 روز کے دوران میل جول کرنے والے افراد کا پتہ چلایا جاتا ہے۔
اس طرح یہ معلوم کیا جائے گا کہ کیا ان متاثرہ افراد کی کورونا کے کسی مصدقہ مریض سے ملاقات ہوئی اور اس کے ذریعے وائرس ایک سے دوسرے اور اس طرح آگے چلتا گیا۔ کیا وہ شخص بیرونِ ملک سے لوٹا تھا یا پھر از خود کسی مصدقہ مریض کا کانٹیکٹ تھا۔
لاہور میں زیادہ مریض کن علاقوں سے سامنے آ رہے ہیں؟
تاہم بحریہ ٹاؤن لاہور کی وہ واحد متمول آبادی نہیں جہاں کورونا کے مریض بڑی تعداد میں سامنے آئے ہیں۔ حکام کے مطابق صوبہ پنجاب میں کورونا کے مریضوں کے سب سے بڑی تعداد لاہور میں ہے اور لاہور میں کورونا کے متاثرین کا بڑا حصہ پوش علاقوں پر مشتمل ہے۔
آفات کی روک تھام کے صوبائی منتظم ادارے پی ڈی ایم اے پنجاب کے ڈائریکٹر نثار احمد نی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور میں کورونا کے مریضوں کے سب سے بڑی تعداد بحریہ ٹاؤن میں ہے جو ان کا دعوٰی ہے کہ 50 کے قریب ہے۔
انھوں نے بتایا کہ بحریہ کے بعد ‘سب سے زیادہ مریض ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹی، کینٹ اور گلبرک کے علاقوں میں سامنے آئے ہیں۔’ پولیس سے ملنے والی معلومات کے مطابق بھی اعداد و شمار اس سے ملتے جلتے ہیں جن میں ڈیفینس کے فیز چار اور پانچ کے علاوہ امامیہ کالونی، راوی ٹاون اور گلشنِ اقبال شامل ہیں۔
پوش علاقے کیوں زیادہ متاثر ہو رہے ہیں؟
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر نثار احمد کے مطابق اس کے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں کے رہائشی بیرونِ ملک زیادہ سفر کرتے ہیں۔
حکام کا ماننا ہے کہ بیرونِ ملک سے واپس آنے والے ایسے علاقوں کے رہائشی کورونا وائرس اپنے ساتھ لے کر آئے اور مقامی طور پر اسے پھیلانے کا باعث بنے۔
نثار احمد کے مطابق کورونا کی وبا کے آغاز سے اب تک کے گذشتہ چند دنوں میں بیرونِ ملک سے صوبہ پنجاب میں آنے والے افراد کی مجموعی تعداد 150000 ہے جن میں سے تاحال 70000 کا سراغ لگایا جا سکا ہے۔
‘بااثر اور مالدار افراد ہوائی اڈوں پر پیسے دے دلا کر نکل گئے اور پھر غائب ہو گئے جنھیں تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن انھیں ڈھونڈا جا رہا ہے۔‘
‘پارٹیز چل رہی ہیں، کھانوں کی دعوتیں ہو رہی ہیں‘
تاہم نثار احمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاہور کے پوش علاقوں میں کورونا کے مریض زیادہ ہونے کے یہی واحد وجہ نہیں ہے۔
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر کے مطابق بیرونِ ملک سے آنے والے افراد کے بعد کورونا وائرس کی پوش علاقوں میں پھیلاؤ کے ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں تمام لوگ سماجی فاصلے کی تجاویز اور احکامات پر مکمل طور پر عمل نہیں کر رہے تھے۔
‘ان علاقوں میں ابھی بھی گھروں پر بیٹھکیں اور سماجی اجتماعات نہیں رک رہے۔ پارٹیز چل رہی ہیں، پچاس، پچاس لوگوں کی کھانوں کے دعوتیں ہو رہی ہیں۔ اس طرح بہت سے ایسے لوگ جن میں بظاہر کورونا کے علامات نہیں ہوتیں مگر ان میں وائرس موجود ہوتا ہے، وہ دوسرے افراد کو متاثر کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔’
یاد رہے کہ ملک کے باقی صوبوں کے طرح پنجاب بھی گزشتہ کئی روز سے لاک ڈاؤن کی صورتحال میں ہے جس دوران ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔ لاہور میں متمول علاقوں ہی میں زیادہ سختی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے جہاں لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس کے ساتھ ساتھ فوج کے جوان بھی تعینات ہیں۔
لاہور کا کون سا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہے؟
یوں تو پنجاب بھر میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کے تعداد بدھ کے روز تک 2166 تھی تاہم ان میں جن افراد کو ‘عام شہریوں’ کے طور پر گنا جا رہا ہے ان کی تعداد محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے اعداد و شمار کے مطابق 756 بتائی گئی ہے۔
ان میں 340 زیادہ افراد لاہور میں ہیں۔ تاہم جو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ضلع لاہور میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 1000 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ تو یہ باقی افراد کون اور کہاں ہیں؟
کورونا کے مریضوں کی سب سے بڑی تعداد لاہور میں رائے ونڈ کے تبلیغی جماعت کے مرکز میں سامنے آ رہی ہے جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ بدھ کے روز تک 657 ہو چکی تھی۔ تاحال مزید ٹیسٹس کے تنائج آنا باقی ہے اور رائیونڈ کے علاقے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
ایس پی صدر لاہور غضنفر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وائرس تاحال تبلیغی مرکز سے باہر رائیونڈ کے مقامی آبادی میں نہیں پایا گیا۔ ‘وہاں جن لوگوں کے ٹیسٹ کروائے گئے تھے ان میں وائرس کے تصدیق نہیں ہوئی۔’
لاہور میں پوش علاقوں سے باہر کورونا کے مریض کہاں ہیں؟
رائیونڈ تبلیغی مرکز لاہور کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی کسی ایک مقام پر کورونا کے مصدقہ مریضوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
اس کے بعد سب سے بڑی تعداد ان زائرین کی ہے جنہیں پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے دو قرنطینہ مراکز میں رکھا گیا ہے۔ یہ تعداد بدھ کے روز تک مجموعی طور پر 695 تھی۔
پنجاب اور لاہور میں جو تیسرا بڑا گروہ جسے ‘عام شہریوں’ کے ساتھ ملا کر نہیں گنا جا رہا وہ جیل میں موجود قیدیوں کا ہے جن کے تعداد بدھ کے روز تک 58 ہو چکی تھی۔
محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب کے مطابق پنجاب میں کورونا سے اموات کے تعداد 17 ہو چکی ہے جن میں اب سب زیادہ نو افراد لاہور سے ہیں۔