Site icon DUNYA PAKISTAN

کرونا… ڈرنا، لڑنا اور بچنا!!

Share

معمول کے برعکس آج میرے کالم کا موضوع کوئی فلسفیانہ گنجلک ہے اورنہ تصوف کی کوئی نکتہ آفرینی، بلکہ مفادِ عامہ پر سیدھی سی چند باتیں ہیں جو ایک ڈاکٹر ہونے کے ناتے نوکِ قلم سے ٹپکنا چاہتی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بنی آدم پر جب کوئی افتاد آن پڑتی ہے تو موقع پرست کاروباری اور سیاست دان میڈیا کی مدد سے اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں ہر دوسرا بندہ ڈاکٹر ہے جو مفت طبی مشورے دینا “صدقہ جاریہ” سمجھتا ہے، اس طرح ہر تیسرا بندہ بز عمِ خویش دانشور ہے اور ہر ملکی اور غیر ملکی صورتحال پر ماہرانہ تجزیہ پیش کرنا اپنا قومی فریضہ جانتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یوٹیوب نے کچھ ڈالروں کی جھلکی دکھا کر کم و بیش ہر شخص کو جس کے ہاتھ میں موبائل فون ہے‘ اپنا یوٹیوب چینل کھولنے پر “مجبور” کر دیا ہے۔ لالچ سے بڑی مجبوری کیا ہو سکتی ہے۔ اپنا چینل کلک کروانے کیلئے سنسنی خیز تجزیے اب معاشی مجبوری بھی بن چکے ہیں۔ ہم جھوٹ کے اس جھکڑ سے بچ سکتے تھے اگر ہادیٔ عالمﷺ کی اس ہدایت پر عمل پیرا ہوتے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بغیر تحقیق کیے آگے سنا دے۔
دورِ حاضر کی کرونا وائرس کی وبا بھی ہمارے میڈیائی ہنرمندوں کے ہاتھوں تختہ مشق بن چکی ہے۔ سائینسی اور زمینی حقائق پیچھے رہ گئے ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک سازشی تھیوری ایک لوری کی طرح ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا کے ’’تجزیہ کار‘‘ اسے ایک عالمی سازش قرار دے رہے ہیں ‘ جسے ملکی اور غیرملکی اسٹیبلشمنٹ میڈیا کی مدد سے اپنے خفیہ مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہے، کچھ لوگ اسے ون ورلڈ کی تشکیل کا عالمی ایجنڈا قرار دیتے ہیں، کچھ’’سائنسی‘‘ اپچ رکھنے والے لوگ اسے5G نیٹ ورک بچھانے کی تدبیر سمجھتے ہیں۔ ایک مخصوص مذہبی مائنڈ سیٹ کے نزدیک یہ بھی پولیو ویکسین کی طرح ایک یہودی سازش ہے جو مسلمانوں کے مقدس مقامات کو ویران کرنے کیلئے تیار کی گئی ہے۔ ایسے بھی ’’راسخ العقیدہ‘‘ لوگوں کی کمی نہیں جو توکل اورتقدیرکو علاج اور احتیاط کا متبادل قرار دیتے ہیں۔ خیر سے ‘باہر کی دنیا میں کوئی ایسی بھی شر کی آتش نمرود نہیں بھڑک رہی کہ ہمارے اندربراہیمی ایمان پیدا ہونے سے سرد ہو جائے گی ۔ اِس لئے ‘دوا اور احتیاطی تدابیر کی سنت اختیار کرنے والوں کے ایمان پر شک کرنا مناسب نہیں۔
ایسی دورازکار قیاس آرائیوں کے طومار میں لازم سمجھا گیا کہ بحیثیت ایک فیملی فزیشن اپنی طبی معلومات قارئین کے سامنے پیش کروں تاکہ عوام الناس چند اہم سائینسی حقائق سے آگاہ ہو سکیں۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے سب سے پہلے اس کے متعلق سائینسی معلومات کا حصول از حد ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کے تشخیص اور پھر اُپائے کی طرف کوئی بھی ٹھوس قدم اٹھایا جا سکے۔ کرونا وائرس نیا ہرگز نہیں، اس کے نام اور کام میں کچھ بھی نیا نہیں۔ ہماری مائکروبیالوجی کی نصابی کتابوں میں اس کے کرتوت پہلے سے درج ہیں۔ دراصل کرونا ایک گروپ آف وائرس ہے، یعنی یہ وائرس کا ایک پورا قبیلہ ہے، اس قماش کے وائرس فلو قسم کی کچھ خرافات پیدا کرتے ہیں، عام طور پر بخار، کھانسی اور نزلہ وغیرہ کی ہلکی پھلکی شکایات پیدا کرتے ہوئے ہفتے عشرے میں خود ہی دفان ہو جاتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات اسی قبیلے کے کچھ وائرس بگڑ جاتے ہیں، یہ اپنی جون تبدیل کر لیتے ہیں‘ ان میں mutation ہو جاتی ہے، وائرس کا اس قسم کا یہ بگڑا ہوا خاندان سرکشی اختیار کرتے ہوئے فلو کی حدوں کو پھلانگتا ہوا نمونیہ کی علامتیں پیدا کردیتا ہے۔ یہ موجودہ کووڈ 19 بھی ایسا ہی سرکش وائرس ہے جو انسانی پھپھڑوں پر جان لیوا حملہ کرتا ہے، سانس کی نالیوں میں یہ ایسا گاڑھا لیس دار مادہ پیدا کر دیتا ہے کہ پھپھڑوں کے پھول جیسے ٹشو کی طرف ہوا کا راستہ ہی بند ہو جاتا ہے۔ ٹھیک ایک سو برس قبل ایسا ہی فلو کا ایک وائرس سپین میں وارد ہوا تھا اور یورپ میں پانچ کروڑ انسان لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اس زمانے میں ہوائی سفر ابھی مستعمل نہ تھا، اس لئے یہ وبا یورپ تک محدود رہی۔ کرونا وائرس انسانوں اور ممالیہ جانوروں میں نمو پاتا ہے، چمگاڈر بھی ممالیہ ہے، مائیکروبیالوجسٹس نے تقریبًا پندرہ برس قبل یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ چمگادڑوں میں موجود یہ وائرس کہیں چینیوں میں منتقل نہ ہو جائے، کیونکہ ہمارے چینی بھائی ہر حرکت کرنے والی چیز کو کھا جانا اپنا قومی نشان سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ محض افسانہ نہیں کہ ووہان شہر کی چمگادڑ مارکیٹ ہی سے یہ پھیلنا شروع ہوا۔ اس سے قبل پھیلنے والے سارس، ایبولا اور کانگو وائرس کی طرح ممکن تھا کہ یہ اتنی شہرت نہ پاتا لیکن اس کی شہرت ایک دہشت بن کرجنگل میں آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی، اس کے خوفناک ہونے کی اصل وجہ اِس کے پھیلاؤ infectivity کی خوفناک شرح ہے، اِس کے پھیلاؤ کی شرح سادہ حسابی ضربی نہیں بلکہ exponential ہے، یعنی 2 اور 2 یہاں 4 ہونے کے بعد پھر 8 نہیں ہوتے بلکہ 16 ہو جاتے ہیں اور 16 کے بعد 32 نہیں بلکہ 256 ہو جاتے ہیں، یہ مثال ابھی بھی ناکافی ہے، کیونکہ اس کیس میں اوسطاً ایک بندہ اپنے ساتھ تین بندوں کو لے ڈوبتا ہے ، یعنی 3 کے بعد 9 اور پھر81 اور اگلے ہلے میں 729 لوگ اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں، اگرچہ اس کے مہلک ہونے کی شرح fatality صرف دو فیصد ہے، لیکن اس کے پھیلاو کی شرح اپنا پھن پھیلائے ایک بہت بڑی تعداد کو نگلنے کیلئے ہر وقت تیار کھڑی ہے۔ اس خون آشام پھیلاؤ میں مضبوط قوتِ مدافت رکھنے والے بچ جاتے ہیں لیکن بوڑھے اور خاص طور پر دل کے مریض اس کا ہلکا سا وار بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ ابھی تک اس کی کوئی خاص دوا ایجاد نہیں ہو سکی، ڈاکٹر لوگ بھی ٹوٹکوں پر گذارہ کر رہے ہیں۔ اس کی ویکسین بھی تاحال نہیں بن سکی، جو ویکیسن بنائے گا‘ ظاہر ہے منافع بھی کمائے گا۔ پھر یہ سازشی تھیوری گردش کرے گی کہ ویکسین بیچنے کیلئے اسے پھیلایا گیا ہے۔ کرونا کے حیاتیاتی ہتھیار ہونے کی تھیوری اس وجہ سے بھی قابلِ توجہ نہیں کہ جن پر شک کیا جاتا ہے وہ سب سے زیادہ اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، برطانیہ کا وزیر اعظم بھی آئی سی یو میں داخل ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار کے طور جب کسی وائرس کو استعمال کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کی ویکسین بنائی جاتی ہے تاکہ خود بچ سکیں۔
ہوائی سفر کی بدولت یہ وائرس دنیا میں ہر جگہ پر لگا کر پہنچ چکا ہے۔ اس وبائے بلاخیز کو اپنے پھیلاؤ کیلئے بس انسانوں کا جمگھٹا چاہیے۔ اس سے بچاؤ کا واحد طریقہ اب تک انسانی دانش نے یہی اختیار کیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ لمس میں نہ آئیں، چینی اس نکتے پر جلد پہنچ گئے، انہوں نے ووہان شہر میں 28 دن کیلئے لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا، انہوں نے جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کے راگ نہیں الاپے، دو کروڑ لوگوں کو مکمل کرفیو میں ڈال دیا۔ ان اٹھائیس دنوں جن مریضوں نے مرنا تھا مر گئے، جنہوں نے صحت یاب ہونا تھا وہ سب ٹھیک ہو گئے۔ باقی ملک محفوظ رہا۔ چنانچہ پورے شہر کو قرنطینہ بنانے کے اسلامی اصول کے مطابق عمل کرتے ہوئے وہ اس بلائے جان سے نکل آئے۔
اب سوال یہ کہ ووہان سے اٹلی تک یہ وبا کیسے پہنچی؟ اٹلی میں چمڑے کی صنعت زوروں پر ہے، اور وہاں اس کے سرمایہ کار ووہان کے چینی لوگ ہیں، ووہان سے ہزاروں چینی تاجر روزانہ اٹلی کی طرف عازم سفر ہوتے ہیں۔ جب یہ وائرس اٹلی میں پھیلنا شروع ہوا تو وہاں بھی حکومت نے لاک ڈاون کیا، لیکن اٹلی نے جمہوریت کا بھرپور فائدہ اٹھایا، “میرا جسم میری مرضی” کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے ان لوگوں نے اسے سیر سپاٹے کرنے کا سنہری موقع سمجھ لیا۔ اُن کی آنکھ اس وقت کھلی جب اُن کے ہسپتالوں میں لوگوں کی آنکھیں بند ہونے لگیں، آئی سی یو میں وینٹی لینٹر ناکافی پڑ گئے، اَموات کی تعداد قبرستانوں میں قبروں کی جگہ سے تجاوز کر گئی۔ یورپی یونین کے بارڈر ایک دوسرے کیلئے بہت نرم ہیں ‘ بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں… کاش اسلامی ملکوں کی بھی کوئی ایسی یونین ہوتی جہاں دلوں اور سرحدوں کو ایک دوسرے کیلئے نرم کر دیا جاتا… قصہ مختصر اٹلی سے پورا یورپ لپیٹ میں آ گیا، اور عین توقع کے مطابق امریکہ بھی۔ میرا برادرِ نسبتی کئی عشروں سے ہیوسٹن میں مقیم ہے، کسی زمانے میں وہاں ائیرپورٹ پر کام کرتا تھا، اس کے بیان کے مطابق اس کی چھوٹی سے ایئرکمپنی کے درجنوں جہاز گھنٹوں نہیں بلکہ منٹوں کے حساب سے روم ، پیرس اور میڈرڈ کیلئے نکلتے تھے، یعنی یورپ کی طرف روزانہ لاکھوں کی تعداد میں امریکی بغرضِ سیاحت نکلتے ہیں۔ وہ بتا رہا تھا کہ یہاں سکول اور کالج والے ویک اینڈ ٹرپ پر اپنے سٹوڈنٹس کو اس طرح یورپ لے کر جارہے ہوتے ہیں جیسے آپ کے ہاں بچے جلوپارک کی سیر کیلیے جاتے ہیں۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے میرے درجنوں کلاس فیلوز اس وقت امریکہ کے ہسپتالوں میں فرائض سرانجام دے رہے، وہ سب لوگ مریضوں کی تعداد اور حالتِ زار دیکھ کر دکھ اور تشویش میں ہیں۔ سب سے ابتر حالت نیویارک کے ہسپتالوں کی ہے، اُن کے مردہ خانوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے، وہاں ہسپتالوں کے کاریڈور میں لاشوں کے بیگ بکھرے پڑے ہیں۔ پینٹاگون کو ایک لاکھ تابوت بنانے کا حکم دیا جا چکا ہے، مقامِ عبرت ہے‘ دوسروں کیلئے میزائل بنانے اور برسانے میں مصروف اب اپنے لوگوں کیلئے تابوت بنا رہے ہیں۔ اہلِ وطن! اگر اس وبا کو ایک عذاب سمجھتے ہیں تو عذاب سے ڈرنا چاہیے، عذاب سے لڑنا نہیں بلکہ بچنا چاہیے۔ خدارا! اسے بیماری سمجھیں‘ سازش یا سیاست نہ سمجھیں۔ حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تمام حکومتی ہدایات پر عمل کریں۔ اپنے ’’توکل‘‘ کا مظاہرہ کرنے کیلئے لیے دوسروں کی جان سے نہ کھیلیں۔ ممکن ہے‘ آپ کی قوتِ مدافعت مضبوط ہو، آپ کرونا کا حملہ کچھ دنوں کیلئے کھانس اور کھنگار سے سنبھال لیں اور صحت کے ساحل پر ہی لنگر انداز رہیں، لیکن کیا ضمانت ہے کہ آپ کی بہادری کی زد میں آنے والوں کی کشتی کسی طوفان کا شکار نہ ہوگی۔ خدا کیلئے‘ اپنے لیے نہیں تو خلقِ خدا کیلئے ہی حفاظتی تدابیر اختیار کریں۔ انسان کی عمومی دانش کا مذاق نہ اڑائیں۔ اسے یہودی سازش شمار نہ کریں، کرونا کو عبرانی زبان کا کوئی خفیہ کوڈ ورڈ نہ سمجھیں، نوشتہ دیوار دیکھیں، دُور کی کوڑی نہ لائیں۔ یہودی ربی (مولوی) بھی یہی نعرہ لگا رہے تھے کہ یہ عذاب ہمارے لیے نہیں بلکہ ’’گوئم‘‘ (غیر یہودیوں) کیلئے ہے، اور اِس زعم کا شکار بھی کرونا کا شکار ہو چکے ہیں۔ بیماری مذہب نہیں دیکھتی۔ یہ اسباب کا جہان ہے، آگ کا کام جلانا ہے، اپنے ساتھ کھیلنے والوں کو بھی جلا دے گی۔ ظاہر سے اعراض تو روا ہے لیکن اعتراض کی روش خلافِ فطرت ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم فطرت اور دین ِ فطرت کے تقاضوں کے مطابق چلیں، اور آفت سے نکل کر عافیت میں جگہ پائیں۔ تازہ تحقیق میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ کرونا کا پھیلاؤ گرمی میں کم پڑ جاتا ہے، ہم ایسے گرم مزاج لوگوں کیلئے بڑھتی ہوئی گرمی امید کی کرن ہے۔ بھلے وقت کی اُمید رکھیں لیکن حفاظتی تدابیر اور تیاری دینی فریضہ سمجھ کر مکمل رکھیں۔ دین کو دنیا کے مقابلے میں کھڑا نہ کریں۔ دین انسانوں کی دنیا کو ایک عافیت کدہ بنانے کی تعلیم بھی دیتا ہے۔

Exit mobile version