یہ نو اپریل سنہ 1951 ہے۔ لندن کے لینڈس ڈاؤن کلب میں موجود شائقین کی نظریں اپنے سامنے موجود دو کھلاڑیوں پر مرکوز ہیں، جو کچھ دیر میں برٹش اوپن کا فائنل کھیلنے والے ہیں۔ ان میں سے ایک مصر کے محمود الکریم ہیں جو پچھلے دو سال سے یہ چیمپئن شپ جیت رہے ہیں۔ دوسری جانب ان کے مقابلے پر پاکستان کے ہاشم خان ہیں، جنھوں نے اپنی پہچان کرانے کے لیے پہلی بار ملک سے باہر کا سفر اختیار کیا ہے۔
شائقین ان دونوں کے درمیان دلچسپ مقابلے کی توقع کررہے ہیں۔
اس فائنل سے ایک ہفتے پہلے یہ دونوں ایڈنبرا اسکاٹش اوپن کا فائنل کھیلے تھے، جس میں ہاشم خان نے 9 صفر۔ 9صفر اور10۔ 8 کے اسکور سے کامیابی حاصلی کی اس کے باوجود سب کو پتا ہے کہ محمود الکریم برٹش اوپن کا ٹائٹل آسانی سے اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے لیکن جو کچھ ہوا وہ سب کے لیے حیران کن تھا۔
ہاشم خان نے پہلی گیم 9-5 کے اسکور سے جیتی۔ جس کے بعد ایسا لگا کہ سکواش کورٹ میں صرف ہاشم خان ہی کھیل رہے ہیں اور ان کے سامنے کوئی نہیں۔
انھوں نے اگلی دو گیمز 9 ۔ صفر اور 9 ۔ صفر سے جیت لی تھیں۔ یہ میچ محض 33 منٹ جاری رہا۔ دوسرے لفظوں میں ایک نئی تاریخ محض آدھے گھنٹے میں رقم ہوگئی۔
اگلے روز برطانوی اخبارات نے ہاشم خان کی کامیابی کو نمایاں طور پر شائع کیا۔
ٹیلیگراف میں جان اولیف نے لکھا کہ ہاشم خان اتنے تیز تھے کہ ان کے لیے گیند تک پہنچنا مشکل نہیں تھا۔
دی ٹائمز کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ان کی رفتار کمال کی تھی اور ان کے اسٹروکس پرفیکٹ تھے۔ انھوں نے کراس کورٹ شاٹس اس قوت سے کھیلے کہ ان کے حریف کے پاس ان کا جواب نہ تھا۔
یہ بین الاقوامی اسکواش میں پاکستان کا پہلا تعارف تھا۔
اس زمانے میں برٹش اوپن کو ایک طرح سے ورلڈ چیمپئن شپ کی حیثیت حاصل تھی لہٰذا ہاشم خان اس لحاظ سے اسکواش کے پہلے پاکستانی فاتح عالم قرار پائے۔
خواب حقیقت کیسے بنا؟
ہاشم خان کے لیے برطانیہ جاکر وہاں کے اسکواش مقابلوں میں حصہ لینا ایک دیرینہ خواب تھا۔ ممبئی میں مقیم ان کے دور کے رشتےدار عبدالباری کوبرطانیہ میں کھیلتا دیکھ کر ان کی خواہش مزید شدت اختیار کرگئی تھی۔
وہ عبدالباری کو ممبئی میں ہونے والے اسکواش ٹورنامنٹ میں ہراچکے تھے اور انھیں یقین تھا کہ اگر عبدالباری برطانیہ جاکر کھیل سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں؟
یہ بات اس لیے بھی سچ ثابت ہوئی کہ ہاشم خان نے برٹش اوپن سے قبل کھیلی گئی برٹش پروفیشنل چیمپئن شپ کے فائنل میں عبدالباری کو پانچ گیمز کے سخت مقابلے میں شکست دی۔
عبدالباری کو ممبئی کلب نے برطانیہ بھیجا تھا۔ اس کلب کے پاس متمول ممبرز تھے اس لیے عبدالباری کے مالی اخراجات آسانی سے اٹھالیے گئےتھے لیکن ہاشم خان کی مدد کون کرے گا؟
یہ اہم سوال تھا۔
ہاشم خان کو برطانیہ بھیجنے کا بیڑا پاکستان ائرفورس نے اٹھایا۔ ان کے سفر کے لیے پیسہ اکٹھا کیا گیا اور انھیں ایک خصوصی جہاز سے برطانیہ روانہ کیا گیا لیکن اس سے پہلے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے، جو ہاشم خان کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث بنے تھے۔
ایسے میں پاکستان ائر فورس کے گروپ کیپٹن رضا نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔
ہاشم خان کو پشاور کلب میں کھیلتا دیکھ کر متاثر ہونے والے ایک ریٹائرڈ افسر بریگیڈئر ایف ایچ بی انگال نے لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر رحمت اللہ سے کہا کہ ہاشم خان یقینی طور پر ورلڈ چیمپئن ہیں لہٰذا انھیں کھیلنے کا موقع دیا جائے، جس پر ہائی کمشنر نے حکومت پاکستان کو خط لکھا جو مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا پاکستان ائرفورس تک پہنچا۔
ہاشم خان کو پرکھنے کے لیے ٹرائلز کرائے گئے اگرچہ انھوں نے تمام کھلاڑیوں کوشکست دی لیکن اعلیٰ افسران ہاشم خان کے کھیل سے متاثر نہیں ہوئے کہ ان کا کھیل بین الاقوامی معیار کا معلوم نہیں ہوتا۔ تاہم گروپ کیپٹن رضا انھیں قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
انھوں نے ہی ہاشم خان کے ذہن سے یہ بات بھی نکالی کہ وہ برٹش اوپن کھیلنے کے لیے عمر رسیدہ ہوچکے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاشم خان نے برٹش اوپن میں اپنا نام درج کرانے کے لیے اپنی عمر تین سال کم بتائی تھی کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ زیادہ عمر کی وجہ سے کہیں انھیں برٹش اوپن میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے۔
برٹش اوپن جیت کر ہاشم خان جب وطن واپس لوٹے تو ان کا کراچی اور پشاور میں ہیرو کی طرح استقبال ہوا تھا۔
انھیں خوش آمدید کہنے والوں میں گورنر جنرل بھی شامل تھے۔ انھیں سونے کی گھڑی تحفے میں پیش کی گئی۔ پاکستان ائرفورس نے انھیں باقاعدہ گزیٹڈ افسر بنادیا اور انھیں لیفٹننٹ انسٹرکٹر کا رینک دیا گیا۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ ہفتے میں دو دن رسالپور میں واقع پی اے ایف اسکول کے کیڈٹس کو اسکواش سکھائیں گے۔
ہاشم خان برٹش اوپن جیت کر واپس آئے تو ان کے پاس نئی اسکوٹر بھی آچکی تھی۔ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ پہلی بار برٹش اوپن جیتنے پرہاشم خان کو پچاس پاؤنڈ کی انعامی رقم ملی تھی، جو اس زمانے میں پاکستانی ساڑھے چھ سو روپے بنتی تھی۔