سائنس

کورونا وائرس: بیماری کے خوف سے کیسے نمٹیں؟

Share

کورونا وائرس نے دنیا کو غیر یقینی کی صورتِ حال میں ڈال دیا ہے اور اس وبا کے متعلق مسلسل خبریں بڑی بے رحم لگ سکتی ہیں۔ یہ سب لوگوں کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہو سکتی ہے، خصوصاً ان افراد کی صحت پر جن میں پہلے ہی اضطراب پایہ جاتا ہے یا انھیں او سی ڈی ہے۔ سو ہم کس طرح اپنی ضہنی صحت کا تحفظ کر سکتے ہیں۔

خبروں کے متعلق پرتشویش رہنا سمجھ میں آتا ہے، لیکن کئی لوگوں میں یہ پہلے سے جاری مسائل کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔

اس لیے جب عالمی ادارۂ صحت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران ذہنی صحت کے تحفظ کے متعلق کہا تو سوشل میڈیا پر اس کو بڑی پذیرائی ملی۔

اینگزائیٹی یوکے کی نکی لِڈبیٹر کہتی ہیں کہ غیر یقینی کی صورتِ حال کے آؤٹ آف کنٹرول یا اسے برداشت نہ کرنے کا خوف اضطرابی بے ترتیبی کی عام علامات میں سے ایک ہیں۔ سو یہ سمجھ آتا ہے کہ جو لوگ پہلے سے اس بیماری میں مبتلا ہیں ان کو اس وقت مزید چییلنجز کا سامنا ہے۔

ذہنی صحت کی فلاحی تنظیم مائنڈ کی ترجمان روزی ویتھرلیے کہتی ہیں کہ ’بہت سی اضطرابی کیفیت نامعلوم کے خوف اور کسی چیز کے ہونے کے انتظار خوف میں پنہاں ہوتی ہے، کورونا وائرس بھی وہ ایک بڑے سکیل پر ہے۔‘

سو ہم کس طرح اپنی ذہنی صحت کا تحفظ کر سکتے ہیں؟

کینٹ کے رہائشی اور دو بچوں کے باپ نک کو، جو کہ پہلے انگزائیٹی یا اضطرابی کیفیت کا شکار رہتے ہیں، کوروناوائرس کی بہت زیادہ خبریں پڑھنے کی وجہ ’پینک اٹیک‘ (گھبراہٹ کے دورے) پڑ رہے ہیں۔

’جب میں مضطرب ہوتا ہوں تو میری سوچیں آپے سے باہر ہو جاتی ہیں اور میں تباہ کن نتائج کے متعلق سوچنے لگ جاتا ہوں۔‘ آج کل نک اپنے والدین اور جن لوگوں کو وہ جانتے ہیں ان کے متعلق پریشان ہیں۔

’عام طور پر جب میں کوئی تکلیف برداشت کرتا ہوں تو میں اس صورتِ حال سے دور چلا جاتا ہوں۔ یہ میرے بس میں نہیں۔‘

نیوز ویب سائٹس اور سوشل میڈیا سے زیادہ دیر کے لیے دور رہنے سے ان کو اضطرابی کیفیت کو سنبھالنے میں مدد ملی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ذہنی صحت کے حوالے سے فلاحی اداری اینگزائٹی یوکے کی مدد کے لیے بنائی گئی ہیلپ لائنز بھی کافی کارآمد ہیں۔

جو ویب سائٹس دیکھ کر آپ بہتر محسوس نہیں کرتے ان کو پڑھنے یا دیکھنے کا وقت محدود کر دیں۔

۔ بہت سی غلط معلومات گردش کر رہی ہیں، درست معلومات جاننے کے قابلِ بھروسہ ذرائع کو استعال کریں جیسا کہ حکومت اور این ایچ ایس ویب سائٹس۔

ایک فن پارہ

سوشل میڈیا سے بریک لیں اور ان چیزوں کو بند کر دیں جو اضطراب میں اضافہ کرتی ہیں۔

مانچسٹر سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ ایلیسن کو ہیلتھ اینگزائیٹی ہے اور ہر وقت معلومات حاصل کرتی اور ریسرچ کرتی رہتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ سوشل میڈیا اس میں اضافہ کر سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: ’ایک ماہ پہلے میں ہیش ٹیگس پر کلک کر رہی تھی اور تمام غیر مصدقہ سازشی بکواس دیکھ رہی تھی اور یہ مجھے یقیناً پریشان کر رہی تھی اور میں نا امید محسوس کرتی اور رو پڑتی تھی۔‘

اب وہ محتاط ہے کہ کس اکاؤنٹ کو دیکھیں اور کورونا وائرس ہیش ٹیگ کو کلک کرنے سے پرہیز کر رہی ہیں۔ وہ اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں کہ سوشل میڈیا سے دور رہیں اور اس کے بجائے ٹی وی دیکھیں اور کتابیں پڑھیں۔

۔ ٹوئٹر پر ان ’کی ورڈز‘ کو میوٹ کریں جو زیادہ اضطراب پھیلاتے ہیں اور اکاؤنٹس کو ’ان فولو‘ کریں

۔ ان واٹس ایپ گروپس کو میوٹ کریں اور فیس بک پوسٹس کو چھپا دیں جو زیادہ غالب آ جاتی ہیں

ایک فن پارہ

ہاتھ دھوئیں لیکن بہت زیادہ بھی نہیں

او سی ڈی ایکشن کے پاس ان افراد کی طرف سے بہت سی درخواستیں آئی ہیں جن کے خدشات کورونا وائرس کی وبا پر مرکوز ہیں۔

ان لوگوں کے لیے جنھیں او سی ڈی اور مخصوص قسم کی اینگزائٹی ہے متواتر یہ کہتے رہنا ہے کہ ہاتھ دھوتے رہیں سننا مشکل ہو جاتا ہے۔

او سی ڈی کے زندگی پر مبنی کتاب ’بیکاز وی آر بیڈ‘ کی مصنفہ للی بیئلی کہتی ہیں کہ آلودگی کا ڈر ان کے ’آبسیسو کمپلسیو ڈس آرڈر‘ کا ایک پہلو ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہاتھ دھونے کے متعلق کہنا ان لوگوں میں یہ دوبارہ متحرک کر سکتا ہے جو اس سے بحال ہو چکے ہیں۔

بیئلی کہتی ہیں کہ ’یہ یقیناً مشکل ہے کیونکہ اب مجھے وہ کچھ رویے اختیار کرنا ہیں جن سے میں پرہیز کر رہی تھی۔ میں پوری سختی سے ہدایت پر عمل کر رہی ہوں لیکن یہ مشکل ہے، کیونکہ اگر دیکھیں تو میرے لیے صابن اور اور سینیٹائیزر ایک لت کی طرح ہوا کرتے تھے۔‘

فلاحی ادارہ او سی ڈی ایکشن کہتا ہے جو چیز دیکھنے والی ہے وہ اس کا طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر کیا کسی مخصوص تجویز کردہ وقت تک ہاتھ دھونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کیا گیا ہے یا یہ کسی خاص ترتیب میں رسمی طور پر ’ٹھیک محسوس‘ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘

بیلی کہتی ہیں کہ او سی ڈی والے اکثر افراد کے لیے ٹھیک ہونے کا مطلب گھر سے نکلنے کے قابل ہونا ہے، اس لیے سیلف آئسولیٹنگ ایک اور چیلنج پیدا کر سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہمیں گھر کے اندر رہنے پر مجبور کیا جائے، ہمارے پاس بہت زیادہ وقت ہو، تو بوریت او سی ڈی کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔‘

لوگوں سے رابطے میں رہیں

زیادہ سے زیادہ لوگ اب سیلف آئسولیشن میں رہیں گے اس لیے اب وقت ہے کہ ان لوگوں کے درست فون نمبر اور ای میل ایڈرس لے لیں جن کی آپ قدر کرتے ہیں۔

’ویئتھرلیے کہتی ہیں کہ باقاعدہ چیک اِن ٹائمز پر متفق ہوں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ رابط رکھیں۔

اگر آپ سیلف آئسولیشن میں ہیں تو باقاعدہ معمول میں ایک توازن رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر دن کچھ خاص مختلف ہو۔

ہو سکتا ہے کہ یہ بھی لگے کہ یہ دو ہفتے کافی مفید تھے۔ آپ اپنی ’ٹو ڈو‘ لسٹ مکمل کر لیں اور وہ کتاب پڑھ لیں جو آپ پڑھنا چاہتے تھے۔

بس ضرورت سے زیادہ کچھ نہ کریں

کورونا وائرس کی وبا اور اس کا اثر کئی ہفتے اور مہینے رہے گا، اس لیے یہ ضروری ہے کہ بیکار وقت بھی گزارا جائے یا کچھ نہ بھی کیا جائے۔ مائنڈ تجویز کرتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو قدرت کا نظارہ کریں اور سورج کی روشنی میں بیٹھیں۔ ورزش کریں، اچھی غذا کھائیں اور پانی پیتے رہیں۔