’’مَت ماری گئی‘‘
میرے ہم دم، میرے ہم نفس، تم ناراض ہو گے، مجھ سے خفا ہو گے مگر میں تمہارا اور اپنا مسئلہ صاف بیان کیے دیتا ہوں ’’ہماری مت ماری گئی ہے‘‘۔ مت پنجابی کا لفظ ہے پلاک پنجابی لغت کے مطابق اس کا مطلب عقل ہے اور ’’مت ماری جاون‘‘ کا ترجمہ ہے کہ عقل ماری جائے۔ ہمارا اجتماعی مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ ہماری مت ماری جا چکی ہے ہم کنفیوژڈ ہیں۔
ہماری قوتِ فیصلہ کھو چکی ہے، کنفیوژن اس بنیادی بات پر ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟ ہم میں سے نصف جس کو بالکل صحیح سمجھتے ہیں باقی نصف اس کو بالکل غلط گردانتے ہیں، تضادستان کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم صحیح اور غلط کی پہچان ہی کھو چکے ہیں۔
ریاست، قوم یا فرد کا زوال اسی وقت ہوتا ہے جب قوتِ فیصلہ کمزور ہو جائے یا ختم ہو جائے۔ تاریخ پر نظر دوڑا لیں، دلّی دربار سو سال تک کمپنی حکومت کے زیرِ نگین رہا۔
دربار میں مشاعرے، جانوروں کی لڑائیوں اور آداب و تعلیمات کی بھرمار رہی لیکن پورے سو سال میں یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ کمپنی کی حکومت سے خودمختاری کیسے حاصل کرنی ہے؟ جرمنی میں کیا ہوا، ساری کی ساری آبادی ہی قوتِ فیصلہ کھو گئی، پوری جرمن قوم فاشزم کا شکار ہو گئی۔
سب کی مت ماری گئی اور پھر نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلا۔ 1971ء میں ہمیں کیا ہوا تھا، حکمران اور قوم سبھی اپنے بنگالی بھائیوں سے جان چھڑانے پر تل گئے تھے، ہماری قوتِ فیصلہ صحیح اور غلط کی تمیز کھو بیٹھی تھی، ہماری مت ماری گئی اور یوں المیہ مشرقی پاکستان وقوع پذیر ہو کر رہا۔
مودی کے بھارت میں آج یہی ہو رہا ہے، ہندو انتہا پسندی کے ذریعے سے خود بدامنی پھیلائی جا رہی ہے اس کا نتیجہ بھی برا ہی نکلے گا۔
اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں، ہم بھی تو قوتِ فیصلہ کے بحران کا شکار ہیں۔ کورونا پوری شدومد سے حملہ آور ہے اور ہم طے نہیں کر پا رہے کہ لاک ڈائون کرنا ہے یا نہیں۔ یہ فیصلہ صوبے کریں گے یا مرکز کو کرنا چاہئے۔
آٹا اور چینی اسکینڈل کی طرف آجائیں، سبسڈی دینے کا فیصلہ پنجاب کابینہ نے کیا، چینی برآمد کرنے کا فیصلہ وفاقی کابینہ کی اقتصادی کمیٹی نے اسد عمر کی سربراہی میں کیا، اگر یہ فیصلے بالکل صحیح تھے تو اس سے فائدے لینے والے غلط کیسے ہو گئے؟
مت ماری جاتی ہے تو فیصلے انصاف اور میرٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد اور مخالف کے نقصان کی بنیاد پر ہوتے ہیں، قوموں اور افراد کا زوال اسی سے آتا ہے۔
سیاست پر نظر دوڑا لیں وہاں بھی مت ماری ہوئی نظر آئے گی۔ نون لیگ اپوزیشن کی بڑی پارٹی ہے، وہ کنفیوژڈ ہے کہ حکومت سے لڑے یا چپ رہے۔ بلاول بھٹو سندھ میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں مگر پنجاب کی حکمت عملی کے بارے میں ان کی مت ماری ہوئی ہے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ ایسا کیا کریں کہ پنجاب میں دوبارہ جگہ بنا لیں۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت کو دیکھیں تو نہ ان سے معاشی معاملات کا کوئی حل نکلتا نظر آتا ہے، نہ وہ سیاسی ہم آہنگی پیدا کر سکے ہیں، نہ ہی اپنی گورننس بہتر کر سکےہیں، نہ ہی احتساب کے عمل سے پاکستان کی معیشت کو کھڑا کرنے کے دعوے کو پورا کر سکے ہیں اور نہ ہی بیرونِ ملک آباد پاکستانیوں کے ڈالروں، پائونڈوں اور درہموں کی بارش کروا سکے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دکھائے ہوئے سنہرے خواب ٹوٹتے جا رہے ہیں مگر وہ بھی قوتِ فیصلہ سے مکمل محروم ہیں، ان کی مت ماری جا چکی ہے کیونکہ وہ کسی مثبت تبدیلی پر رضامند ہی نہیں ہیں۔
قومی سطح پر بھی یہی حال ہے۔ امریکہ کے افغانستان سے فوج نکالنے کا معاملہ دیکھ لیں، امریکی مصنف باب وُڈ وارڈ نے ’’اوباما وارز‘‘ میں لکھا ہے کہ صدر اوباما کی طرف سے بار بار سوال یہی دہرایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان امریکی افواج وہاں رکھنے کا حامی ہے یا مخالف؟
اس وقت ہم طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ تعاون کر رہے ہیں لیکن کنفیوژن برقرار ہے کہ معاہدہ ہو گیا تو کیا پھر افغانستان میں طالبان آجائیں گے یا پاکستان کے پاس کوئی اور فارمولا ہے کہ 40سال سے پڑوس میں جاری جنگ پر پانی ڈالا جا سکے۔
اس جنگ کے شعلے بارہا ہمیں بھی نشانہ بنا چکے مگر ہم پچھلے چالیس سال سے گومگو میں ہیں، آخر اس بارے میں کوئی واضح قومی فیصلہ تو ہونا چاہئے۔
طاقتور ریاستیں، تجربہ کار ادارے اور عقلمند افراد ملک کے مستقبل کے بارے میں نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ اسے بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس ملک کو اگلے 5سال بعد کس نے چلانا ہے، کیا اس حوالے سے کبھی سوچا گیا ہے؟ خدا کرے خان صاحب اپنے پانچ سال پورے کریں مگر اس کے بعد کیا پھر نون لیگ اور پیپلز پارٹی دوبارہ میدان میں آئیں گی؟
آج جس قیادت کو اقتدار اور سیاست سے نکال باہر کیا گیا ہے، کیا انہیں پھر سے موقع دیا جائے گا؟ قومی عینک سے سیاسی منظرنامہ دیکھیں تو سیاسی میدان میں خان کا کوئی متبادل رہنے ہی نہیں دیا گیا۔ کیا ریاست اور اداروں کو ملک میں استحکام کی خاطر توازن اور متبادل کی ضرورت نہیں ہے؟ اگر اس پر سوچا نہیں گیا یا عمل نہیں ہوا اور واقعی کوئی عملی شکل نظر بھی نہیں آ رہی تو کیا پھر یہ کہنا حق بجانب نہ ہوگا کہ واقعی اجتماعی مت ماری گئی ہے۔
پنجابی میں مت مارے جانے کا متضاد مت آنا یعنی عقل سے کام لینا ہے، میرے ہم دم میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ قوتِ فیصلہ کھو جانے کے باوجود‘ یہ بتائو کہ کورونا بحران سے نمٹنے کے لیے اتفاق ضروری ہے یا انتشار سے بھی کام چلے گا؟ تمہارا جواب لازماً اتفاق ہوگا۔
لاک ڈائون اور حفاظتی اقدامات کے حوالے سے سب سیاسی جماعتوں کو فیصلوں میں شامل کرنا ٹھیک تھا یا نہیں؟ تمہارا عقلی جواب ہوگا سب کو شریک کرنا چاہئے تھا۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ بحران کے ان دنوں میں چینی اسکینڈل پر مار دھاڑ کرنا اور میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کرنا کیا درست ہے؟
تمہارا لازمی جواب ہوگا کہ نہیں۔ بس مت سے کام لیا جائے، عقل کا استعمال کیا جائے، قوتِ فیصلہ کو قومی نقطہ نگاہ سے عمل میں لایا جائے تو معاملات اب بھی صحیح سمت میں چل سکتے ہیں۔
آخر میں اس سوال کا جواب کہ ’’مت کیوں ماری جاتی ہے؟‘‘ ریاست، قوم یا فرد جب آنکھیں اور کان بند کر لیں، صرف اپنے آپ کو درست جانیں اور اپنی زبان جب بھی کھولیں اپنی تعریف اور دوسروں کی مذمت کریں تو مت ماری جاتی ہے۔ یہ دنیا یک مداری یا یک محوری نہیں، یہاں آنکھیں اور کان کھول کر جینے والے ہی عقل مند ہوتے ہیں۔
مت آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ عقل کی بات جہاں سے ملے لے لو، اپنی قوتِ فیصلہ کو ذاتی اور گروہی مفادات کے حصار سے نکال کر قومی اور اجتماعی مفادات کے گرد گھمائیں۔ کورونا بحران جہاں چیلنج ہے۔
وہاں اس سے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس بحرانی صورتحال سے ہمیں یہ فائدہ اٹھانا چاہئے کہ مت ماری گئی والے فیصلوں کے بجائے مت آنے والے فیصلے کریں تاکہ مستقبل میں ہم مت والے کہلائیں۔