سنگر کیفے، کا شمار بھی اسرائیل میں دیگر ان جگہوں میں ہوتا ہے جو شوقین مزاج افراد میں مقبول ہیں، یہاں ایک خاندان اکھٹے بیٹھ کر شکشکا کے ناشتے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ یہاں کہیں کوئی یورپی سیاح بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پر ڈرامہ لکھ رہا ہے، تو کہیں ایک جوڑا پرتکلف میزے پلیٹر سامنے رکھے ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔
دیواروں پر خوبصورت مقامی فن پارے موجود ہے اور کیفے کے ماحول کو سمجھنے کے لیے یہ لائن ہی کافی ہے۔۔۔’جتنی زیادہ ایکسپریسو کافی پیئیں گے اتنا ہی کم دکھی ہوں گے۔‘
لیکن اسرائیلی یہاں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کی حکومت نے انھیں سکون سے بھرپور اس نخلستان میں جانے سے منع کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سنگر کیفے بیت سحور کے نواح میں ہے جو بیت اللحم کے نواح میں چند قدم کے فاصلے پر ہے۔
یہ علاقہ مقبوضہ مغربی کنارے پر بیت المقدس کے مضافات میں واقع ہے جس پر سنہ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے۔
لیکن اس کیفے میں دنیا بھر کے متنازعہ علاقوں میں سے سب سے بہترین ایکسپریسو ملتی ہے۔
کنگ ڈیوڈ کے آبائی شہر اور حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش کے لیے مشہور، بائبل سے جڑے لیکن ہلچل سے بھرپور اس چھوٹے سے قصبے میں ایک نیا معجزہ سامنے آیا ہے: فلسطینی ثقافت کا چہرہ، کرسچن لوبوٹن کے جوتوں کے مثالی سرخ تلووں کی طرح، بیت الححم نے بھی اسرائیلی قبضے کے زیرِ اثر بہترین قسم کا فیشن سیکھ لیا ہے۔
اور صرف اتنا ہی نہیں، یونیسکو کے ایک پروگرام کے تحت 22 رکنی ممالک کی عرب لیگ نے، بیت اللحم کو 2020 میں عرب ثقافت کا دارالحکومت قرار دیا ہے۔
سنگر کیفے کی منیجر بہا’ابوشہانب کہتی ہیں کہ ’اسرائیلی قبضے کے دوران ان کی پہلی کوشش ہماری ثقافت و فن کا خاتمہ ہو گی۔ اسی طرح آپ کسی معاشرے کو صاف کر سکتے ہیں۔‘
اسرائیل کی جانب سے اپنے حجم کے ایک چوتھائی برابر زمین پر قبضے کے دوران حالیہ ماہ میں اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ مغربی کنارے کے بڑے حصوں پر آبادی قائم کر دی ہے۔
بیت اللحم میں اسرائیلی قبصہ میں زندگی خصوصاً واضح طور پر مختلف نظر آتی ہے جہاں اسرائیل نے سنہ 2002 میں آٹھ میٹر بلند دیوار تعمیر کر رکھی ہے جس کا مقصد خودکش بم دھماکوں اور حملوں کو روکنا تھا اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ ایک موثر رکاوٹ رہی ہے۔
ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود یہاں پھلنے پھولنے والی ثقافت ہوانا، والپاریسو یا سابقہ مشرقی برلن سے مشابہت رکھتی ہے، یعنی کیچڑ میں کھلے ایک کنول کی مانند ہے۔
بنکسی کے نام سے مشہور برطانوی فنکار نے 2005 میں بیت اللحم میں پہلی بار سیاسی فن پاروں کا آغاز کیا تھا۔ انھوں نے اسرائیل کی جاب سے تعمیر کردہ دیوار جو دنوں علاقوں کو علیحدہ کرتی تھی پر اپنے نو گرافٹی فن پارے بنائے تھے۔
سنہ 2017 میں، بنکسی کے فلسطین کی حمایت میں فن اور سیاسی نظریات اس وقت کھل کر سامنے آئے جب یہاں نو کمروں پر مشتمل ’والڈ آف ہوٹل‘ نامی ایک ہوٹل کی رونمائی ہوئی جس کے سامنے بنی رکاوٹوں کے باعث دکھائی دینے والے منظر کو ’دنیا کا بدترین نظارہ‘ قرار دیا گیا۔
عارضی طور ہر شروع ہونے والا یہ منصوبہ بعد میں اس شہر کا ایک جز بن گیا ہے، یہاں بھی سیاحوں کا اتنا ہی رش ہوتا ہے جتنا بیت اللحم کے تاریخی کلیسا دیکھنے کے لیے آنے والوں کا ہوتا ہے۔
چلیے تعداد میں نہ سہی لیکن سوشل میڈیا پر اس کے چرچے ضرور ہیں۔
والڈ آف ہوٹل میں مقامی فنکاروں کے فن پاروں سے سجی ایک گیلری بھی موجود ہے، یہاں دونوں علاقوں کو تقسیم کرنے والی دیوار کی تاریخ کے حوالے سے ایک عجائب گھر بھی ہے اور یہ ہوٹل قریب ہی واقع فلسطینی پناہ گزین کیمپ ’ایدہ‘ کے دن میں دو دورے بھی کرواتا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی کمائی مقامی منصوبوں کو دی جاتی ہے۔
اس ہوٹل کے منیجر وسام سالسا کہتے ہیں ’ہم اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے دنیا کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہم دنیا کو زندہ رہنے کا سبق سکھا رہے ہیں۔ ہم کم وسائل میں خوش ہیں، زندگی جی رہے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں ’خصوصاً حالیہ کچھ برسوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پانچ سال پہلے اگر آپ بیت اللحم کے اندرون علاقے میں جاتے تو یہ افغانستان کی طرح لگتا تھا مگر اب یہ شمالی امریکی ملک کیوبا کے شہر ہوانا جیسا لگتا ہے۔ اب یہاں سکرٹ یا جینز پہنی خواتین اور بالیاں پہنے مرد نظر آتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’آپ غزہ میں احتجاج کرسکتے ہیں، لڑ سکتے ہیں، گولی کھا سکتے ہیں، گرفتار کیے جا سکتے ہیں… لیکن پھر بھی آپ وہ سب حاصل نہیں کر پائیں گے جو احساس ایک پینٹنگ یا نظم آپ کو دیتی ہے۔
یہی فن کا حسن ہے نہ صرف خوبصورتی، بلکہ طاقت بھی عطا کرتا ہے۔ اس سے آپ کی انسانی ہمدردی، مشترکہ انسانیت میں تبدیل کر دیتی ہے۔
تاہم بیت اللحم کی ثقافت کو حیاتِ نو بنکسی نے عطا نہیں کی۔۔ یہ جگہ پہلے سے ہی ہلچل مچا رہی تھی۔
الاضہ پناہ گزین کیمپ کے قریب ایک ریوائنڈ نامی ایک ہکا کیفے میں آنے والے گاہکوں کو عربی میں پےلے رنگ سے لکھے الفاظ ’طز‘ سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ’جو مرضی‘ ہے۔
سنگر کیفے میں اسی طرح کی علامت انگریزی میں ہے ’مرکزی دھارے میں شمولیت، نہیں شکریہ!‘ درج ہے۔
جبکہ ایک اور ہوش السیرئین نامی گیسٹ ہاؤس میں جو اٹھارہویں صدی کی طرز پر بنا ایک رومانوی ہوٹل ہے اور شہر کے وسط میں خاک آلود گلیوں میں واقع ہے۔
یہ کافی اونچی عمارت ہے اور اس کے ریستوران میں بکنگ کے بغیر جگہ نہیں ملتی، یہاں وہ لفظ ’فودا‘ہے ، جس کے عربی میں معنی ’افراتفری‘ کے ہیں۔
ایسی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن کے ذریعے بیت اللحم میں رہنے والوں نے اپنی غیر یقینی سے بھری اور بے چین زندگیوں کو دوبارہ تقویت بخش کر اپنی داستان کو پھر سے تحریر کیا ہے۔
یہ استقامت کے ساتھ ہم آہنگی کا اعلان بھی ہے کہ آرٹ تشدد کی نہایت دل فریب شکل ہے اور یہ کہ زندہ رہنا ہی بہترین انتقام ہے۔
اس حیاتِ نو کا بنیادی اصول سمود ہے، جو فخراور ثابت قدمی کے ساتھ فلسطینی یکجہتی کا تصور ہے۔ حال ہی میں سٹار اسٹریٹ کو اسی انداز پر دوبارہ ڈرامائی تخلیق کے ساتھ بنایا گیا ہے۔
یہ وہ گلی ہے جو مریم اور جوزف کی زیارت کا راستہ ہے جب انھوں نے ایک سرائے میں کمرے کی تلاش کی۔ صدیوں پرانی اس سڑک کو نئی زندگی اور مطابقت دی گئی ہے، جس میں نئے تہوار بھی شامل ہیں۔
یہ 2017 میں باب آئی ڈییئر آرٹ گیلری کی افتتاحی تقریب ہے جس میں مقامی کمیونٹی ہیروز کی حالیہ تصاویر نمائش میں رکھی گئی ہیں۔ یہ خواتین کی جانب سے فلسطین کے ممنوعہ نقشوں والے لباس پہنے کے متعلق ہے جو اسرائیلی فوجیوں سے کہتی نظر آتی ہیں کہ ہمت ہے تو انھیں کھینچ کر دکھائیں۔
بیت اللحم کی فیشن ڈیزائنر، نادیہ ہزبونووا کے پاس زیتون کی لکڑی کی بالیاں ہیں جن پر عربی خطاطی کی گئی ہیں اور لکھا ہے ’میں آزاد ہوں‘ اور ’میں خواب دیکھوں گی۔‘
تاریخی طور پر سمود کے سب سے رنگا رنگ مظاہروں میں سے ایک وہ تھا کہ جب بیت اللحم نے سن 1980 سے 1993 کے درمیان تربوزوں کو اپنایا گیا تھا۔ جب اسرائیل نے فلسطینی پرچم کے سیاہ، سبز، سرخ اور سفید رنگوں پر، سیاسی نقطہ نظر سے کسی بھی طرح کے استعمال کی پابندی عائد کردی تھی (اس کے علاوہ 1967 سے ہی پرچم پر پابندی عائد ہے۔)
عدم تشدد کے مظاہروں کی تاریخ میں گاندھی نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ دنیا میں جس تبدیلی کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ خود بن کر دکھائیں۔ اس کے برعکس، سومود محض دیکھنے سے ہی دنیا کو بدلنے والا ہے۔
ریوائنڈ کی مالک ڈالیہ دبدوب کہتی ہیں ’میں کہیں نہیں جارہی ہوں۔ میں 10 برسوں میں اپنے کاروبار کو ابوظہبی تک پھیلانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔‘
جہاں لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کے انسانی حقوق شدید پابندیوں کے زیرِ اثر ہیں وہاں اس طرح کا جوابی ردعمل ایک عام بات ہے۔ چلی کے سابق جیل کیمپ میلنکا میں، قیدی ہفتہ وار سرکس چلاتے تھے۔ امریکہ کے ایک جاپانی حراستی کیمپ ہارٹ ماؤنٹین میں، اغوا کاروں نے اکٹھے ہو کر بون اوڈیوری لوک رقص پیش کیا۔ یہاں تک کہ آشوٹز کی بدنام زمانہ نازی وحشت کے دوران بھی پکڑے جانے کی صورت میں تشدد کا خطرہ مول لیتے ہوئے قیدیوں نے شاعری کی اور موسیقی بنائی تھی۔
جیسا کہ سالسا کا کہنا تھا ’جیسے ہی رہنے کی جگہ ملے گی، لوگ اسے زندگی سے بھر دیں گے۔‘
ون لانگ نائٹ: حراستی کیمپوں کی عالمی تاریخ پر لکھی گئی کتاب کی مصنف، آندریا پیٹزر اس بات سے سے متفق ہیں کے جب نقل حمل کی آزادی ختم ہو جاتی ہے تو ذہن کی آزادی خودبخود اہم ہو جاتی ہے۔ یعنی یہ قید سے انکار کا ردعمل ہے۔
یہ بات حیرا ن کن نہیں کہ دیوار تعیمر کیے جانے کے بعد بیت اللحم میں ذہنی آزادی کی تحریک میں تیزی آئی۔ وہ کہتی ہیں کہ’ اگر میری زندگی محدود ہے تو ان پابندیوں میں ہی میں بھرپور زندگی جیوں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پابندیاں عزم توڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں اور انسانیت کے بنیادی دعوے کی طرح اب بھی دنیا میں شامل ہونے کے اہل افراد کی حیثیت زیادہ ہے۔‘
درحقیقت ایدا کے پناہ گزین کیمپ میں ایک سرکس موجود ہے، لیکن بیت اللحم میں ایک باضابطہ آرٹس کالج جس کا نام دار الکلیمہ یونیورسٹی بھی موجود ہے جسے 2006 میں بطور کمیونٹی کالج شروع کیا تھا اور 2013 میں یونیورسٹی کے طور پر اس کا افتتاح کیا گیا تھا۔
سنہ 2012 میں بیت اللحم کے معروف ایڈورڈ سیڈ نیشنل کنزرویٹری آف میوزک کی جگہ تبدیلی کے بعد اس نے مقامی سطح پر کلاسیکی موسیقی اور جاز میں کافی بدلاؤ پیدا کیا۔
سنہ 2018 میں عرب دنیا میں سپوٹافائی کا آغاز ہوا جس سے بیت اللحم کے دھیشے مہاجر کیمپ میں نوعمر لڑکوں کے ذریعے تشکیل دیا جانے والے ہپ ہاپ گروپ اور لڑکیوں کے گروپ ’شورک‘ (عربی میں ’طلوع آفتاب‘) کے مداحوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
عالمی سطح پر تسلیم شدہ موسیقار ایلٹن جان، فلیا، ٹرینٹ ریزنور نے بھی بیت اللحم میں کنسرٹ کرنے کی پیش کش کی جیسے والڈ آف ہوٹل کی لابی میں خود سے بجائے جانے والے گرینڈ پیانو کے ذریعے سے پروگرام کیا جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس حیات نو میں سب کچھ سراسر خوشگوار ہی ہے۔
فودا کے شیف، فادی کتن جنھوں نے لندن اور پیرس میں تربیت حاصل کی ہے، کہتے ہیں ’میرے پاس مینو نہیں ہے۔ ہم افراتفری میں کام کرتے ہیں۔‘
وہ ہر صبح مقامی بیچنے والوں کے دورے کی مناسبت سے ہر دن کے مینو کو تیار کرتے ہیں۔
وہ اب بھی فریکیہ رسوٹو ، لابن جمید کے ساتھ مٹر کریم (بکریوں کے دودھ سے تیارکردہ خشک پنیر) یا بھنے ہوئی ناشپاتی اور بلیک تاہنی کریم والی چاکلیٹ کی طرح پکوڑے بنانے کے لیے مقبول ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’یہ اچھا ہوسکتا ہے۔ خوبصورت ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ پھر بھی بیت اللحم رہے گا۔ کرسمس کی رات یہاں مسلمان اور یہودی دونوں آتے ہیں اور وہ یہاں سور کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔ ہم مختلف چیزیں، بہتر انداز میں فلسطینی طریقے سے کرسکتے ہیں۔‘
کتن کے مطابق فلسطینیوں کی پسندیدہ چیز عقوب ہے جو مقامی طور پر پائی جانے والی ایک پسندیدہ جڑی بوٹی ہے۔ کتن کہتے ہیں ’اس کے کانٹوں کو چھیل کر اسے نکالا جاتا ہے۔ اور اس کا ایک مختصر سا موسم ہوتا ہے۔ اس کا ذائقہ اچھا ہے، آرٹچیک اور اسپرایگس کی طرح کا لیکن میں اسے چاکلیٹ میں ڈبو دیتا ہوں اور اکوب موز کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ مکمل طور پر فلسطینی انداز سے میرا یہی مطلب ہے۔‘
مینجر سکوائر امریکی، برازیلین، برطانوی، چلی، فلپائنی، اطالوی، کوریائی، میکسیکن، نائیجیرئن اور روسیوں کی بسوں سے بھرا پڑا ہے اور اس سے ذرا سے فاصلے پر کتن نے سیاحت کے فوائد تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا ’حضرت عیسیٰ کے زمانے سے بیت اللحم میں غیر ملکی اثر و رسوخ رہا ہے۔ زائرین اور غیر یہودی افراد دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لیکن ہمیں زائرین سے آگے بڑھنا ہو گا۔‘
حیاتِ نو کا مطلب ہو گا سیکولر ہوناڑ زائرین کو راغب کرنا، تاکہ بیت اللحم کی انسانیت کو اس کی حرمت سے کہیں زیادہ بڑھایا جا سکے۔
سنہ 2014 میں لیلا سنسور کی ایک دستاویزی فلم اوپن بیت اللحم کو عالمی سطح پر فلمی میلوں میں دکھایا گیا ہے۔ بیت اللحم میں تبدیلی کے سات سال کی اس سرگزشت میں وہ ابتدائی تبدیلی دکھائی گئی ہے جو اب خوب پھل پھول رہی ہے۔
سنسور کا کہنا تھا ’ہم نے اتنی دیر تک سیاسی شرائط پر لڑائی لڑی کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔ ہم روحوں کی طرح دب گئے، ختم ہو گئے۔۔ فن نے ہمیں اپنا آپ لوٹا دیا ہے، ہماری زندگیوں کو ایک بار پھر اہم بنا دیا ہے۔‘
اس موسم گرما میں، وہ بیت اللحم میں مہارت رکھنے والے ایک برطانوی مورخ، جیکب نورس، کی ساتھ ایک ایسا ڈیجیٹل ثقافتی آرکائیو پلینٹ کا اجرا کررہی ہیں ، جو دنیا بھر میں رہنے والے بیت اللحم کے افراد کے لیے تاریخ اور سیاق و سباق فراہم کرتا ہے۔
نورس کا کہنا تھا ’یہ ایک ایسا شہر ہے جو 150 سالوں سے عالمگیریت کا حصہ ہے۔ بیت اللحم سلطنت عثمانیہ میں بھی انوکھا تھا، رومن کیتھولک کے مضبوط گڑھ سے لے کر انیسویں صدی کی عالمگیریت تک۔۔ لیکن اب اس کی انفرادیت یہ ہے کہ شہر کے وسط میں ہی دیوار کاٹ دی جاتی ہے۔‘
بے شک صدیوں پرانی تاریخ حتی کہ 20 ویں صدی کی بھی۔۔ لیکن بشیرا سلامح کے لیے اس کا مطلب مختلف ہے۔ وہ پانچ نسلوں سے افتیم کے منیجر ہیں اور ان کی عمر 22 سال ہے۔ افتیم مینجر سکوائر سے ذرا فاصلے پر واقع ایک مشہور فلافل ریستوران ہے۔ 2005 میں ختم ہونے والے انتفاضہ کے بعد والے کرفیو کا حوالہ دیتے ہوئے سلامح کہتے ہیں ’ہم باہر نہیں جاسکتے تھے۔ ہم نے انتفاضہ کے سائے میں زندگی گزاری اور اب ہم اپنی ہی روشنی میں قدم رکھ چکے ہیں۔‘
زتار (جڑی بوٹیوں والا آمیزہ) کے تھیلوں سے سجی، سبز اور بھوری رنگ کے فلافل پرنٹ میں جرابیں فروخت کرتی دکان کی جانب اشارہ کرتے وہ کہتے ہیں
“ہم صرف قبضے میں فن نہیں بنا رہے ہیں۔ ہم قبضے کے بارے میں فن بنا رہے ہیں۔ ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لیے آرٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہم قیدی نہیں ہیں۔ ہم نمبر نہیں ہیں۔ ہمارے پاس روحیں ہیں۔ ہم آرٹ بناتے ہیں، ثقافت بناتے ہیں، تفریح کرتے ہیں، کھانا بناتے ہیں، زندگی بناتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایسی دنیا میں جہاں ہمیں بنیادی استحکام سے بھی محروم رکپا گیا ہو۔‘
انھوں نے نقبہ کا ذکر کیا، جس کا مطلب ہے ’تباہی‘ جو اسرائیل کی تخلیق کے دوران ہونے والی جنگ میں 750000 فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کی عربی اصطلاح ہے۔ انھوں نے فخر کے ساتھ بتایا کہ افطیم کی بنیاد 1948 میں رکھی گئی تھی، جس سال اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا اور جب ان کے اہل خانہ کو جفہ سے بے دخل کیا گیا تھا۔
سلامح کہتے ہیں ’ہمیں اپنے ماضی پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ گزر چکا ہے۔اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے ہمارے پاس اپنے مستقبل کا محدود کنٹرول ہے۔ لہذا جو کچھ بچا ہے وہ ہمارے حال کو قابو میں رکھے ہوئے ہے۔ اسی لمحے میں جی رہے ہیں اور اسی لمحے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔‘