برطانوی حکومت نے کورونا وائرس کے مریضوں کی مدد کے لیے ہزاروں نئے وینٹیلیٹرز خریدنے کے آرڈر دیے ہیں۔
ایسے مریض جن میں کورونا وائرس کے شدید اثرات پائے گئے ہوں ان کے لیے وینٹیلیٹر زندگی بچانے کی ایک بہتر امید فراہم کرتا ہے۔
وینٹیلیٹر کیا ہوتا ہے اور یہ کیا کرتا ہے؟
آسان لفظوں میں جب مریض کے پھیپھڑے کام کے قابل نہ رہیں، وینٹیلیٹر انسانی جسم کے نظام تنفس کو سنبھال لیتا ہے۔
وینٹیلیٹر مریض کو انفیکشن سے لڑنے کے لیے مزید وقت مہیا کرتا ہے۔ مریضوں کو سانس لینے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے کئی قسم کی مشینیں موجود ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کورونا وائرس سےمتاثرہ تقریباً 80 فیصد افراد کو ہسپتال لے جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
لیکن وائرس سے متاثرہ ہر چھٹا شخص شدید بیمار ہو جاتا ہے اور اسے سانس لینے میں دشواری پیدا ہو جاتی ہے۔
وائرس سے شدید متاثرہ افراد کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے اور جسم کا مدافعاتی نظام خطرے کو بھانپتے ہوئے خون کی رگوں کو کھلا کر دیتا ہے تاکہ مدافعاتی سیل ان میں داخل ہو سکیں۔
جسم کے مدافعاتی نظام کے اس ایکشن کی وجہ سے پھیپھڑوں میں سیال بھر جاتا ہے جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور اس طرح جسم میں آکسیجن کی سطح کم ہو جاتی ہے۔
جسم میں آکسیجن کی کمی کو دور کرنے کے لیے مشین وینٹیلیٹرز کے ذریعے جسم میں آکسیجن کی مقدار کو داخل کیا جاتا ہے۔
وینٹیلیٹر میں ایک ہیومڈفائر بھی موجود ہوتا ہے، جو مریض کے جسم کے درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری حرارت اور نمی مہیا کرتا ہے۔
مریضوں کے نظام تنفس کے پھٹوں کو ڈھیلا کرنے کے لیے دوائیاں دی جاتی ہیں تاکہ مشین کے ذریعے سانس کے نظام کو مربوط بنایا جا سکے۔
ایسے مریض جن میں وائرس کے آثار زیادہ شدید نہ ہوں ان کے نظام تنفس کی مدد کے لیے چہرے کے لیے ماسک اور ناک کو ڈھانپنے والے ماسککا استعمال کر کے گیسوں کو ان کے پھیپھڑوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے انجینئرز نے مرسیڈیزفارمولہ ون کےساتھ مل کر ‘کانٹینوس پازیٹو ایئروے پریشر (سی پی اے پی) نامی ایک آلہ تیار کیا ہے۔
لندن کے کئی ہسپتالوں میں اس آلہ کے ٹرائل کے بعد حکومت نے دس ہزار ایسے آلے خریدنے کا آرڈر دیا ہے۔ مرسیڈیز نے چھ اپریل بروز پیر600 سی پی اے پی نامی آلے تیار کیے۔
مرسیڈیز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس روزانہ ایک ہزار ایسے آلے تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
کورونا وائرس سے بری طرح متاثرہ ملک اٹلی کے علاقے لُمبارڈے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پچاس فیصد ایسے مریضوں کو وینٹیلیٹرز کی ضرورت نہیں پڑی، جنھیں سی پی اے پی دیا گیا ہے۔
البتہ سی پی اے پی مشین کے استعمال پر کچھ خدشات بھی پیدا ہوئے ہیں۔
چھوتی وائرس کے مریضوں کو سی پی اے پی مشین کے ذریعے مریض کے جسم میں پریشر کے ذریعے آکسیجن داخل کرنے کے عمل کے دوران وائرس کے کچھ قطرے ماسک سے خارج ہو کر میڈیکل سٹاف پر پڑے۔
کووڈ-19 کے مریضوں کے علاج کے لیے ٹوپی نما ہُڈ کو استعمال کیا جا رہا ہے، جس میں ایک والو کے ذریعے پریشر کے ساتھ آکسیجن مریض کے جسم داخل کی جاتی ہے۔
اس طریقے سے وائرس کے قطرے ہوا میں اڑ کر دوسرے شخص کو لگنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
انھیں نان انویسو وینٹلیلیشن کہا جاتا ہے یعنی جسم میں پائپ کے گھسائے بغیر مریض کے نظام تنفس کی مدد کی جاتی ہے۔ لیکن انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں مریضوں کو مکینکل وینٹیلیشن پر ڈال دیا جاتا ہے تاکہ مریض کے جسم میں آکسیجن کے درجے کو نارمل رکھا جا سکے۔
انٹینسو کیئر سوسائٹی کے ڈاکٹر شونڈیپون لہا نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کووِڈ-19 کے زیادہ تر مریضوں کو مکینکل وینٹیلیٹر کی ضرورت پیش نہیں آتی اور وہ گھر میں یا آکسیجن مہیا کرنے والے آلات کی مدد سے مرض پر قابو پا لیتے ہیں۔
ڈاکٹر لہا نے کہا کہ مکینکل وینٹیلٹر کے استعمال میں کئی خطرات بھی ہیں لیکن پھر بھی کووِڈ-19 سے شدید طور پر متاثرہ مریضوں کے جسم میں آکسیجن کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے وینٹیلیٹرز ہی بہترین ذریعہ ہیں۔
ڈاکٹر لہا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مکینکل وینٹیلٹرز کے استعمال کے لیے تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا وینٹلیٹرز ایک ایسی طاقتور مشین ہے کہ اگر اس کو صحیح اندازمیں استعمال نہ کیا جائے تو یہ مریض کے لیے انتہائی صدمے کا باعث ہو سکتی ہے۔
برطانیہ کے پاس کتنے وینٹیلیٹرز ہیں اور کتنے چاہیں؟
وزیر صحت میٹ ہینکاک نے پانچ اپریل کو بی بی سی کے اینڈریو مار شو میں بتایا: ‘اس وقت این ایچ ایس کے پاس نو اور دس ہزار کے درمیان وینٹیلیٹرز موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس دو ہزار انتہائی نگہداشت والے بیڈز موجود ہیں، جہاں وینٹیلیٹرز کی سہولت موجود ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو انھیں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔’
وزیر صحت نے مزید کہا کہ 12 اپریل تک 1500 اور وینٹیلیٹرز مہیا ہو جائیں گے، جس سے ملک میں وینٹیلیٹرز کی مجموعی تعداد 12500 سے 13500 کے درمیان ہو جائے گی۔
حکومت نے 30 ہزار وینٹیلیٹرز کے حصول کے ہدف کو کم کر کے 18 ہزار کر دیا ہے۔
حکومت نے ٹیکنالوجی فرم ڈائسن کو دس ہزار نئی مشینیں مہیا کرنے کا آرڈر دیا ہے۔ ڈائسن کے ایک ذریعے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کا ایک ورکنگ نمونہ تیار ہے، جسے انسانوں پر ٹیسٹ کیا جا چکا ہے اور وہ استمعال کے لیے تیار ہے۔
سمتھز نامی کمپنی سے بھی سے پانچ ہزار ایسی مشینیں آ سکتی ہیں جو ممکنہ طور پر پیراپیک ماڈل کی ہوں گی، جنھیں آسانی سے ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی اور کنگز کالج یونیورسٹی کے انجینئرز نے کم لاگت والا ایک ڈیزائن متعارف کروایا ہے۔ ان کے مطابق اس ڈیزائن کی بہت جلد پیدوار شروع کی جا سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے وینٹیلٹزز کے پارٹس، ماسک اور دوسری ضروری اشیا کو بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔