گزشتہ بیس برس میں تعلیم کے میدان میں ٹیکنالوجی نے ایک تہلکہ مچا رکھا ہے۔ سال ۲۰۰۰ میں کمپیوٹر پروسیسرز بنانے والی کمپنی نے ایک پراجیکٹ میں اساتذہ کو تعلیمی عمل میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دینا شروع کر رکھی تھی۔ میں نے تقریبا” ایک سال اس پراجیکٹ میں بطور سینیئرٹرینر کام کیا۔ ہمیں آدھا دن لوگوں کو یہ سمجھانے اور منانے میں لگتا تھا کہ یہ تربیت اساتذہ لیے کیوں ضروری ہے۔ راولپنڈِی کے ایک سکول کے مالک جو کہ خود ہی پرنسپل بھی تھے، انہوں نے مجھے یہاں تک سمجھایا کہ یہ امریکہ کی سازش ہے اور ہم جیسے لوگ ان کی معاونت کر رہے ہیں۔ خیر ایک سال بعد میں انگلینڈ چلی گئی اور وہاں جا کر مجھے اندازہ ہوا کہ ہم نے تعلیم کو سمجھا ہی غلط نظریات کی بنیاد پر ہے۔ اکیسویں صدی کی تعلیم بچوں کو اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی تربیت دیتی ہے جبکہ ہم نے سوائے معلومات فراہم کرنے، لکھنے پڑھنے اور پھر سے لکھنے پڑھنے کی مشق کے کچھ نہیں کیا اپنے سکولوں میں۔ ۲۰۰۹ تا ۲۰۱۳ میں اپنی پی ایچ ڈی کے دوران مجھے شدت سے اس بات کا احساس رہا کہ مجھے یہ تمام طریقہ کار نہ صرف اپنے لیے سیکھنا ہے بلکہ اپنے ساتھی اساتذہ اور پاکستانی طلبہ تک بھی پہنچانا ہے۔ ۲۰۱۴ سے ۲۰۲۰ کے دوران میں نے نہ صرف آن لائن درس و تدریس کی پریکٹس کی بلکہ سری لنکا اوپن یونیورسٹی اور امریکہ کی سین اوزے یونیورسٹی سے آن اءن تعلیمی نظام کی تربیت بھی حاصل کی۔ اس وقت میں اپنے تمام کورسز آن لائن پڑھاتی بھی ہوں اور اپنے طلبہ کو اس کی اہمیت کا احساس بھی دلاتی رہتی ہوں کہ ان کے لئے آن لائن لرننگ کا تجربہ کیوں ضروری ہے۔
آج جب کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تمام سکول کالج اور یونیورسٹیاں بند ہیں تو دنیا میں آن لائن لرننگ کے نظام نے یہ سہولت فراہم کر رکھی ہے کہ بچے با آسانی گھروں سے بیٹھے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہر بار کی طرح ہم نے بھی پاکستان میں اپنی سی کاوش کی ہے کہ بچوں کے تعلیمی سال میں سے قیمتی وقت ضائع نہ ہو۔ نجی سکولوں میں سے اکثر نے ایک موئثر طریق اپنایا ہے اور دن کے کچھ نہ کچھ گھنٹوں کے لیے بچوں کو آن لائن کلاسز دے رہے ہیں۔ چند ہفتوں میں ان کی کارکردگی سامنے آجاَئے گی۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ ۵۰ فیصد سے زائد اساتذہ کو خود بھی اس ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں آتا اور نہ ہی بچوں کو پہلے سے کوئی تربیت دی گئی جب کہ اکثر گھرانوں میں والدین بھی کچھ خاص مددگار ثابت نہ ہو سکیں گے۔ وہ والدین جو اپنے گھروں پر بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے میں کامیاب ہیں وہ اس وقت شدید پریشانی کے عالم میں ہیں۔ کیونکہ پہلی بار انہیں یہ خبر ہو رہی ہے کہ بچے کتنے پانی میں ہیں۔ نجی سکولوں میں یہ راز عموما” مڈل سکول کے بعد فاش ہوتا ہے جب سکول کی انتظامیہ بچے چھانٹی کر رہی ہوتی ہے۔ سرکاری سکولوں کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بھی کتب اور وڈیو لیکچر آن لائن مہیا کیے گئے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں آنے والے ذیادہ تر بچے جن گھرانوں سے آتے ہیں وہاں کمپیوٹر کا صرف نام جانا جاتا ہے۔
جب وقت پر تربیت اور ذرائع مہیا نہ کیے جائیں اور ایمرجنسی مِیں ایک دم سے ایسی پالیسی لاگوکرنی پڑے تو نظام کی کمزوریاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ اپنی تحقیق کے دوران میں نے کئی ایک کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کمپیوٹر لیب میں بیٹھ کر اساتذہ کا انٹرویو کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے کبھی خود بھی اس لیب میں آنے کی زحمت نہیں کی۔ سب کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے اور اس پر فیس بک چلتا ہے لیکن بیشتر اساتذہ اس فون کو کبھی اپنے علم اور صلاحیت کو بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ آج انہی اساتذہ کو گھر بیٹھے بچوں کے لیے آن لائن کلاسز کا اجراء کرنا پڑ گیا۔ میں سوچتی ہوں کہ ۲۰۰۰ سے لے کر اج تک ہم نے کتنے فورمز، کانفرنسز اور سیمینارز میں ٹیکنالوجی پر مکالے سنے اور پڑھے، ان پر تالیاں بجائی اور ایچ ای سی نے کروڑوں روپے کے اخراجات بھی کیے۔ لیکن اس وقت یہ امر واضح ہے کہ لگ بھگ دو سو اعلی تعلیمی اداروں میں سے سوائے گنتی کے چند داروں کسی بھی طرح کے تعلیمی ادارے اس تبدیلی کے لیے تیار نہ تھے۔
کرونا کب ختم ہو گا اور ہم اس کے بعد کیا کاوش کریں گے یہ تو معلوم نہیں لیکن اس مضمون کے پڑھنے والوں کو میں صرف یہ پیغام دے دینا چاہتی ہوں کہ اگر آئندہ نسلوں کو مستقبل کے لیے تیار کرنا ہے تو خدارا اپنے گھروں اور اداروں میں ٹیکنالوجی کو کوئِ بھوت یا شیطانی چرخا قرار مت دیں، بلکہ خود بھی اس کا مثبت استعمال سیکھیں اور اہنے بچوں کو بھی سکھاَئیں۔