طلبا سے لے کر سیاستدانوں تک بہت سے ذہین لوگ کورونا وائرس کے بارے میں پھیلنے والے نت نئے اور خطرناک جھوٹ کو سچ سمجھتے دیکھے گئے ہیں۔
لیکن ایسا کیوں ہے اور ایسے میں آپ غلط معلومات سے خود کو کیسے بچا سکتے ہیں؟
یہ ایک افسوسناک سچائی ہے کہ صحت سے متعلق پیدا ہونے والے کسی بھی بحران کے ساتھ غلط فہمیوں کی اپنی وبا سامنے آ جاتی ہے۔
سنہ 1980 اور 90 کے علاوہ سنہ 2000 کی دہائیوں میں ہم نے ایڈز کے بارے میں خطرناک جھوٹ کو پھیلتے دیکھا جس میں ایچ آئی وی وائرس کو کسی سرکاری لیبارٹری میں پیدا کیے جانے سے لے کر یہ بات تک شامل ہے کہ ایچ آئی وی کا ٹیسٹ ناقابل اعتبار ہے۔
یہاں تک کہ اس کے علاج کے طور پر بکری کے دودھ کا بے بنیاد مفروضہ بھی گشت کرتا نظر آیا۔ ان دعوؤں نے خطرناک رویوں میں اضافہ کیا اور بحران کو بڑھا دیا۔
اب ہمارے سامنے جعلی خبروں کی تازہ بھرمار ہے اور اس بار یہ کورونا وائرس کے وبائی مرض کے بارے میں ہیں۔ فیس بک سے لے کر واٹس ایپ تک ہر جگہ ہی کثرت سے غلط معلومات شیئر کی جا رہی ہیں جس میں اس وبا کے پھیلنے کی وجوہات سے لے کر اس سے بچنےکے طریقے شامل ہیں۔
ہم نے یہاں بی بی سی فیوچر پر بہت سارے دعوؤں کی تردید پیش کی ہے جن میں دھوپ کی روشنی، گرم موسم اور پانی پینے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے جیسے مفروضے شامل ہیں بی بی سی کی ریئلٹی چیک ٹیم کورونا وائرس کے متعلق مقبول دعوؤں کی بھی جانچ کر رہی ہے اور عالمی ادارہ صحت باقاعدگی سے اس قسم کے افسانوی دعوؤں کی تردید کرنے والے اپنے صفحے کو اپ ڈیٹ بھی کر رہا ہے۔
اس قسم کے دعوے بعض اوقات نہایت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک حالیہ مثال ایران کی ہے جہاں خبروں کے مطابق کورورنا کی نسبت زیادہ لوگ ایک نہایت تیز شراب پینے سے ہلاک ہوئے۔
ایران میں مشہور ہو گیا تھا کہ یہ شراب پینے سے آپ کورونا وائرس سے بچ سکتے ہیں۔
اس قسم کے انتہائی خطرناک نتائج کے علاوہ، بظاہر معمولی نوعیت کی افواہوں اور غلط فہمیوں سے بھی لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دی جاتی ہیں کہ وہ اگر ایسا کریں گے تو اس مرض سے بچ سکتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ حکومت کی طرف سے دی جانے والی ہدایات پر اعتبار نہیں کرتے اور متعلقہ اداروں اور تنظیموں کی بات پر کان نہیں دھرتے۔
اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کر رہے ہیں۔ مثلاً ’یو گوو‘ اور ہفت روزہ ’دی اکانومسٹ‘ کے ایک حالیہ مشترکہ جائزے میں دیکھا گیا ہے کہ 13 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ کووڈ 19 محض ایک دھوکہ ہے، اور اس میں کوئی سچائی نہیں، کیونکہ 49 فیصد کا کہنا تھا کہ یہ وائرس کچھ لوگوں نے خود بنایا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کے خیال میں کوئی عقلمند اور تعلیم یافتہ شخص اس پر یقین نہیں کر سکتا، تو آپ کا خیال غلط ہے کیونکہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی اس افواہ کو سچ سمجھ رہے ہیں۔
آپ کیلی بورگن نامی مصنفہ کی مثال ہی لے لیں جو کورونا وائس کو ایک سازش سمجھنے والے لوگوں میں خاصی نمایاں ہیں۔
کیلی بورگن نہ صرف امریکہ کی مشہور یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے ڈگری یافتہ ہیں بلکہ انھوں نے کورنیل یونیورسٹی سے ذہنی امراض (سائیکائٹری) میں بھی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
اس کے باوجود وہ تسلیم نہیں کرتیں کہ کورونا وائرس نے چین اور اٹلی میں اتنی زیادہ تباہی پھیلائی ہے بلکہ وہ تو جراثیموں کے پھیلنے سے متعلق بنیادی نظریات کو ہی تسلیم نہیں کرتیں، اور ان کے مقابلے میں ایسے خیالات کی تائید کرتی ہیں جو سائنس کے اصولوں کے ہی خلاف ہیں۔
اس قسم کے افواہیں پھیلانے میں دنیا کے کچھ بڑے سیاسی رہنما بھی شامل ہیں، جن سے آپ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے زیادہ محتاط ہوں گے۔
یہ رہنما بھی کورونا وائرس کے وبائی شکل اختیار کرنے کے حوالے سے غلط معلومات پھیلنے کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے علاج بھی بتاتے رہے ہیں جو کہ غیرمصدقہ ہیں۔
اسی لیے ٹوئٹر اور فیس بک ان رہنماؤں کے خلاف ایسے اقدامات کرنے پر مجبور ہو گئے جس کی مثال ہم نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ ایسے کئی رہنماؤں کے اکاؤنٹ بند کر دیے گئے۔
خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ماہرینِ نفسیات نے پہلے ہی اس قسم کے رویوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا تھا۔ ان ماہرین کی تحقیق سے جو نتائج سامنے آئے ہیں، ان کی مدد سے شاید ہمیں خود کو ان جھوٹے دعوؤں سے بچانے میں آسانی ہو اور غلط معلومات اور ان سے منسلک احمقانہ رویے کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔
غلط معلومات کی بھرمار
غلط معلومات کا اندازہ کسی حد پیغام کی نوعیت سے ہی ہو جاتا ہے۔
آج کل سارا دن ہم پر معلومات کی بمباری ہوتی رہتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کسی خبر کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ عموماً اپنی چھٹی حس کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
بی بی سی فیوچر کی ایک تحقیق میں ہم نے دیکھا تھا کہ جھوٹی خبریں یا فیک نیوز پھیلانے والے اپنے پیغام کو ’سچ‘ ثابت کرنے کے لیے کچھ سادہ ترکیبیں استعمال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی عقل استعمال کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
مثلاً ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس خبر کا ماخذ کیا ہے، یہ اصل میں کہاں سے آئی ہے۔ ایک محقق نے صحیح کہا تھا کہ جب کسی پیغام میں ’خیالات ایک بہاؤ میں ہوتے ہیں، تو لوگ اپنا سر اثبات میں ہلانا شروع کر دیتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ بات واقعی درست ہے۔
مثلاً، آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے منسلک آئرین نیومین نے اپنی تحقیق میں دیکھا ہے کہ اگر کسی بیان کے ساتھ تصویر لگی ہوتی ہے تو ہمارا یقین بڑھ جاتا ہے کہ خبر سچی ہے، یہاں تک کہ خبر کے ساتھ تصویر کا براہ راست تعلق نہ بھی بنتا ہو تو ہم اسے درست سمجھنے لگتے ہیں۔
مثلاً ان دنوں آپ کسی بھی نئے دعوے یا خبر کے ساتھ کورونا وائرس کی کوئی بھی تصویر لگا دیں، تو ہم اسے مان لیتے ہیں کیونکہ اس تصویر سے ہمارے ذہن میں وائرس کی واضح شبیہ آ جاتی ہے۔ اس طرح ہمارا ذہن اس خبر کو بڑی تیزی کے ساتھ قبول کر لیتا ہے اور ہم اس پر یقین کر لیتے ہیں۔
تصویروں کے علاوہ جھوٹی خبروں میں ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جیسے کوئی اپنی آپ بیتی سنا رہا ہو۔ اس کے علاوہ خبر کو سچا ثابت کرنے کے لیے کسی حقیقت یا اعداد و شمار کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً کسی مشہور تحقیقی مرکز یا طبی ادارے کا نام وغیرہ۔
یوں ہمیں خبرکے اندر کی تمام باتیں قابلِ اعتبار لگتی ہیں اور یہ باتیں ان درست معلومات کے ساتھ آسانی سے جُڑ جاتی ہیں جو ہمارے دماغ میں ہوتی ہیں۔
اسی طرح اگر ہم شروع میں کسی خبر کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار بھی ہوتے ہیں، لیکن وہ چیز جب ہمیں بار بار فیس بُک وغیرہ پر نظر آتی ہے تو اس بات کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے کہ ہم اس پر یقین کرنے لگیں۔
یوں اگر کوئی پیغام ہمارے سامنے بار بار دھرایا جاتا ہے، چاہے وہ ایک ہی بیان کیوں نہ ہو، اس کی سچائی ہمیں مانوس لگنے لگتی ہے اور ہم اسے افواہ کی بجائے حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔
خبر کو سوچے بغیر پھیلا دینا
پراپیگنڈا کرنے والے اور جھوٹی معلومات پھیلانے والوں کے لیے اس قسم کے ہتھکنڈے کوئی نئی چیز نہیں ہیں، لیکن آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو بہلانا پھسلانا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ حالیہ عرصے میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ خبر درست ہے یا نہیں، اسے آگے پھیلا دیتے ہیں۔
جعلی معلومات پر تحقیق کرنے والے لوگوں میں سے ایک سرکردہ محقق، گورڈن پینیکُک بھی ہیں جو کینیڈا کی یونیوسٹی آف رگینا سے منسلک ہیں۔
انھوں نے اپنی تحقیق کے شرکا کے سامنے کورونا وائرس کی وبا سے متعلق کچھ شہہ سرخیاں رکھیں،جن میں سے کچھ درست تھیں اور کچھ جھوٹ۔
جب ان سے کہا گیا کہ وہ کتنی خبروں کو درست سمجھتے ہیں تو انھوں نے 25 فیصد جعلی خبروں کو درست قرار دیا۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ ان جھوٹی خبروں کو بغیر تحقیق کے دوسروں سے شیئر کر دیتے، تو 35 فیصد کا کہنا تھا وہ ایسا ہی کرتے۔ یعنی غلط خبر کو آگے پھیلانے کے امکانات دس فیصد زیادہ نظر آئے۔
پینیکُک کا کہنا تھا کہ ’اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر لوگ شیئر کرنے سے پہلے غور کرتے تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ یہ خبر جعلی ہے، لیکن لوگ معلومات آگے بڑھاتے وقت زیادہ سوچتے نہیں۔ (یاد رہے کہ کووڈ 19 پر آج کل بہت تحقیق ہو رہی ہے اور دوسرے ماہرین مذکورہ تحقیق کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ یہ قابل اشاعت ہے یا نہیں، تاہم اس کے کچھ حصے ویب سائٹ پر دستیاب ہیں)۔
ہو سکتا ہے کہ تحقیق کے شرکا کا دھیان اس خبر کے درست یا غلط ہونے کے بجائے اس میں لگا ہو کہ ان کی پوسٹ کتنے لوگ لائیک کریں گے اور ٹویٹ کو آگے شیئر کریں گے۔
پینیکُک کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ، بلکہ وہاں اس بات کو فوقیت ملتی ہے کہ آپ نے جو شیئر کیا، لوگوں نے اس میں دلچسپی لی یا نہیں، کسی نے کچھ لکھا یا نہیں۔یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پوسٹ کرنے والے نے سچ یا جھوٹ کی تحقیق کی ذمہ داری دیکھنے والے پر چھوڑ دی ہو۔
شاید اسی لیے کئی لوگ سوشل میڈیا پر کوئی معلومات شیئر کرتے وقت اوپر یہ لکھ دیتے ہیں کہ ’میں نہیں جانتا یہ سچ ہے یا نہیں، لیکن ۔۔۔‘ ہو سکتا ہے یہ لوگ سوچتے ہوں کہ اگر بات سچ ہے تو ان کے دوستوں کی مدد ہو جائے گی اور اگر یہ درست نہیں ہے تو یہ ایک بے ضرر سی بات ہے اور اس سے کسی کا نقصان نہیں ہو گا۔ اس کا مطب یہ ہوا کہ ہمارا مقصد بس معلومات کو دوسروں تک جلد از جلد پہنچانا ہے، اس بات کا احساس کیے بغیر کے ہمارا یہ عمل کسی کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔
چاہے بات کسی گھریلو ٹوٹکے کی ہو یا اس دعوے کی کہ حکومت فلاں چیز پر پردہ ڈال رہی ہے، سوشل میڈیا پر بلا تحقیق معلومت شیئر کرنے والوں کو یہ فکر زیادہ ہوتی ہے کہ ان کے فالوور اور دوست اس پر تبصرہ کریں گے یا نہیں،پسند کریں گے یا نہیں۔
رد عمل کو قابو میں رکھنا
علم نفسیات کے شعبے میں پرانے وقتوں میں کی گئی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ کچھ لوگوں میں اپنے غیر ارادی ردعمل پر قابو پانے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ شاید یہ تحقیق ہمیں یہ جاننے میں مدد دے سکتی ہے کہ کچھ لوگ جعلی خبروں پر دوسروں کی نسبت زیادہ اعتبار کیوں کر لیتے ہیں۔
پنیکُک اور ان جیسے دوسرے تحقیق کار ایک طریقہ استعمال کرتے ہیں، جسے کاگنیٹِو ریفلکیشن ٹیسٹ (سی آر ٹی) کہا جاتا ہے جس کی مدد سے یہ دیکھا جاتا ہے ہمارے دماغ میں ردعمل ظاہر کرنے کا عمل کام کیسے کرتا ہے۔ مثلاً اس سوال کو دیکھیں۔
ایملی کے والد کی تین بیٹیاں ہیں۔ پہلی کا نام اپریل ہے، دوسری کا مئی، تیسری کا نام کیا ہے؟
آپ نے کیا کہا، جون؟
اکثر لوگ یہی کہیں گے کہ تیسری بیٹی کا نام جون ہے، کیونکہ ہم میں سے اکثر کا ذہن یوں ہی کام کرتا ہے۔ لیکن صاف ظاہر ہے کہ درست جواب ایملی ہے، نہ کہ جون۔ لیکن درست نتیجے تک پہنچنے کے لیے آپ کو تھوڑے توقف کی ضرورت ہوتی ہے جس میں آپ اپنے قدرتی دماغی ردعمل پر قابو پاتے ہیں اور پھر جواب دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سی آر ٹی میں جو سوال پوچھے جاتے ہیں ان کا تعلق آپ کی خام ذہانت سے نہیں ہوتا، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا جواب دینے سے پہلے ہم اپنی عقل استعمال کرتے ہیں یا نہیں اور سوچ سمجھ کر جواب دیتے ہیں یا ہمارے دماغ میں جو آیا کہہ دیتے ہیں۔
جو لوگ سوچ سمجھ کر جواب نہیں دیتے، انھیں ماہرینِ نفسیات اکثر ’دماغ کے کنجوس‘ کہتے ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایسے افراد کا اچھا خاصا دماغ ہو، لیکن وہ اسے ’خرچ‘ نہیں کرتے۔
سوچ کی اس کنجوسی کی وجہ سے کئی معاملات میں ہمارے اندر توازن نہیں رہتا اور ہمارا جھکاؤ ایک یا دوسری طرف ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ معلومات (جعلی معلومات) کے معاملے میں بھی ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔
مثلاً جب کورونا وائرس کے بارے میں مختلف بیانات کی بات ہونے لگی تو پنیکُک نے دیکھا کہ وہ افراد جن کی سی آر ٹی میں کارکردگی اچھی نہیں تھی، انہوں نے خبریں شیئر کرنے سے پہلے اتنا دماغ نہیں لگایا کہ یہ خبر سچ ہے یا جھوٹ۔
امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے میتھیو سٹینلے کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسی قسم کے رجحانات ان لوگوں میں دیکھے ہیں جو کورنا وائرس سے متعلق سازشی نظریات پر جلد یقین کر لیتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 13 فیصد امریکیوں کے خیال میں کوروانا وائرس محض ایک سازش ہے۔ میتھیو سٹینلے کہتے ہیں کہ ’13 فیصد لوگوں کا اس وائرس کو محض ایک سازش سمجھنے کا مطلب یہ ہے اگر یہ لوگ سماجی فاصلے اور ہاتھ دھونے کی ہدایت پر عمل نہیں کرتے تو یہ وبا بہت تیزی سے مزید پھیل سکتی ہے۔‘
یوگوو اور اکانومسٹ کے مشترکہ سروے کے کچھ ہی دن بعد کی جانے والی ایک تحقیق میں میتھیو سٹینلے نے دیکھا کہ وہ شرکا جن کا سکور سی آر ٹی میں کم تھا، ان میں سازشی نظریات کو قبول کرنے کا رجحان بہت زیادہ تھا۔ ’
دماغ کے کنجوس ان افراد میں یہ تسلیم کرنے کا امکان بھی کم تھا کہ انھوں نے وبا کو روکنے کی خاطر ہاتھ دھونے اور سماجی فاصلے کی ہدایت پر عمل شروع کر دیا ہے۔
پھیلنے سے روکیں
یہ جانتے ہوئے کہ بہت سے لوگوں، حتیٰ کہ ذہین اور تعلیم یافتہ افراد میں بھی، ذہنی کنجوسی کے رجحانات موجود ہیں اور وہ جعلی خبروں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر سکتے ہیں، اس سے شاید ہمیں افواہوں کو پھیلنے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
مثلاً وہ افراد یا تنظیمیں جو سازشی نظریات اور کورونا سے متعلق افسانوی باتوں کو رد کرنا چاہتی ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ اپنی باتیں زیادہ سادہ انداز میں کریں۔
مندرجہ بالا تحقیق میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ اگر جھوٹی خبر کے بیان میں بہاؤ ہو تو، زیادہ تر لوگ اثبات میں سر ہلانے لگتے ہیں۔
پیچیدہ دلائل کی بجائے، ان تنظیموں کو چاہیے کہ وہ حقائق کو جس قدر سادہ زبان میں ممکن ہو بیان کریں اور اس کے لیے تصویریں اور ایسے گراف استعال کریں جنھیں دیکھ کر سمجھنا آسان ہو۔ جیسا کے سٹینلے کہتے ہیں کہ ’ہمیں ان لوگوں تک بات پہنچانے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے جو زیادہ سوچنے کے قائل نہیں۔
’اس لیے یہ کافی نہیں ہے کہ آپ بڑے مضبوط دلائل دیں اور سوچیں کہ یوں آپ کی بات لوگوں کے ذہن میں بیٹھ جائے گی۔’
اگر ممکن ہو تو ان تنظیموں کو سازشی نظریات یا اس قسم کی باتوں کے ذکر سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ جب آپ کسی بات کو دھراتے ہیں تو وہ بات سننے والے کو مانوس لگتی ہے، جس سے اسے لگتا ہے کہ یہ بات سچ ہے۔
صاف ظاہر ایسا کرنا ہر وقت ممکن نہیں ہوتا، لیکن آگاہی کی مہم چلانے والے یہ کوشش ضرور کر سکتے ہیں کہ حقائق کو زیادہ اجاگر کریں اور جن سنی سنائی باتوں کو وہ رد کرنا چاہتے ہیں، ان کا ذکر کم کریں۔ (یہی وجہ ہے کہ اس مضمون میں میں نے سازشی نظریات کے بارے میں کم سے کم معلومات دی ہیں۔)
اور جہاں تک انٹرنیٹ پر ہمارے اپنے رویے کی بات ہے، ہمیں چاہیے کہ مواد کے جذباتی پہلو سے دور رہتے ہوئے، پوسٹ یا شیئر کرنے سے پہلے اس مواد میں دیے گئے حقائق پر توجہ دیں۔
اس مواد کی بنیاد کسی ٹھوس حقیقت پر ہے یا یہ محض سنی سنائی بات ہے؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ خبر اصل میں کہاں سے شروع ہوئی تھی؟ اگر اس کا موازنہ نئے اعداد و شمار سے کریں تو آیا یہ خبر درست ہے؟ اور یہ کہ خبر یا بیان جاری کرنے والا شخص انہی سنی سنائی باتوں کو بنیاد تو نہیں بنا رہا جو ہر دوسرا شخص کہہ رہا ہے؟
اس لیے ہمیں چاہیے کہ یہ فکر کیے بغیر کہ ہماری پوسٹ کو کتنے لوگ لائیک کریں گے یا اس سے ‘شاید’ ہمارے کسی دوست کا بھلا ہو جائے، ہمیں اوپر دیے گئے سوالوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
پینیکُک کی تجویز ہے کہ سوشل میڈیا کے مالکان کو چاہیے کہ وہ بظاہر سادہ معلومات کو شیئر کرتے ہوئے بھی سوچیں۔ ایک تجربے میں انھوں نے دیکھا کہ کہ اگر آپ لوگوں کو کہتے ہیں کہ وہ کسی ایک دعوے کے بارے میں غور کریں کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ، تو لوگ دوسری خبروں کا بھی تجزیہ کرنے لگتے ہیں۔
اس کی عملی شکل بڑی سادہ ہو سکتی ہے۔ مثلاً سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایسی ٹیکنیک استعمال کر سکتے ہیں جس میں صارفین سے گاہے بگاہے پوچھاجائے کہ وہ جو خبر شیئر کرنے جا رہے ہیں، کیا انہوں نے دو بار چیک کر لیا ہے کہ یہ خبر درست ہے؟
صاف ظاہر ہے کہ ہمارے پاس افواہوں کو روکنے کا کوئی تیر بہدف نسخہ نہیں ہے۔
بالکل اسی طرح جیسے ہم کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مختلف کوششیں کر رہے ہیں، ہمیں غلط معلومات کے خلاف جنگ میں بھی ہمہ جہت حکمت عملی اپنانا ہو گی، کیونکہ یہ غلط معلومات نہ صرف خطرناک ہیں بلکہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔