برطانوی ماہرِ حیاتیات جین گوڈال کا شمار ان چند گنے چنے سائنسی محققین میں ہے جنھوں نے اپنی زندگیاں جنگلی جانوروں کی عادات و اطوار اور ارتقا کا مطالعہ کرنے میں کھپا دی۔ دو روز پہلے ہی نیشنل جیوگرافی نے اس 82 سالہ محقق کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’جین گوڈال ایک امید ‘ کے نام سے دستاویزی فلم کا اجرا کیا۔
اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جین گوڈال نے کہا کہ جب تک ہم جنگلی حیات کی توہین روک کر عزت نہیں دیں گے تب تک ایک کے بعد ایک وائرس پھیلتا رہے گا۔ ہم صرف ویکسین بنا کر وائرس نہیں روک سکتے۔
جوں جوں جنگل کٹ رہے ہیں جنگلی جانوروں اور انسانوں میں جبری قربت بڑھتی جا رہی ہے اور وائرس ایک جنگلی جانور سے یا تو کسی پالتو جانور میں منتقل ہو کر انسان کو چمٹ رہا ہے یا پھر براہ راست جنگلی جانور کا گوشت استعمال کرنے یا اسے اپنے نزدیک رکھنے کے سبب یہ وائرس انسان کو منتقل ہو رہا ہے۔
ایچ آئی وی ہو کہ ایبولا، سارس، مرس، سوائن فلو، برڈ فلو، ببونک پلیگ یا اب پھیلنے والا کرونا۔ ان سب کی جڑ جنگلی جانوروں سے قربت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سوائے دو یا تین وباؤں کے ہم کسی وبا کے بارے میں اب تک حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے کہ دراصل کون سا وائرس کس جانور سے چھلانگ مار کر انسان تک پہنچا۔
مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ جب جنگلی بلیوں، چمگادڑوں، چیونٹی خوروں اور مرغیوں، بھیڑوں بکریوں سمیت ہر طرح کے پالتو یا جنگلی چرند پرند کو ایک ساتھ پنجروں میں رکھ کر فروخت کیا جائے گا یا ان میں موجود ممکنہ وائرس خاطر میں لائے بغیر قرنطینہ سے گزارنے کے بجائے براہِ راست غیر قانونی طور پر اسمگل کیا جائے گا۔
یا پھر کروڑوں پالتو جانوروں کو بھی ایک ساتھ غیر صحت مند حالات میں رکھا یا منتقل کیا جائے گا اور ان کی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی اور غیر فطری طریقوں کا اندھا دھند استعمال کیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خطرہ مول لے کر اسے اپنے گھروں تک لے آئے ہیں۔
اگرچہ کرونا کے پھیلاؤ کے بعد چین، ویتنام، انڈونیشیا سمیت جنوب مشرقی ایشیا میں ایسی تمام منڈیاں بند کر دی گئی ہیں جن میں طرح طرح کے جنگلی جانور اور پرندے یا ان کا گوشت کھلے عام فروخت ہوتا ہے۔ چین میں ایسے غیر پالتو چرند و پرند کی افزائش کرنے والے 20 ہزار فارم بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ چین اس بارے میں قانون سازی بھی کر رہا ہے مگر اس قانون میں اگر سائنسی تجربات اور طبی مقاصد کے لیے نجی سطح پر جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت کو استسنی دیا گیا تو اس کاروبار کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جا سکے گا جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
عجیب بات ہے کہ امریکہ میں جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت کی حوصلہ شکنی کے سخت قوانین پہلے سے لاگو ہیں مگر جنگلی حیات کی چین کے بعد دوسری بڑی منڈی امریکہ ہے۔ چین ہو کہ امریکہ اسمگل ہونے والی جنگلی حیات کی صرف دس فیصد کھیپ پکڑی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یا تو سمگلر چالاک ہیں یا پھر نگرانی کا نظام بد عنوان ہے۔
عالمی سطح پر جنگلی جانوروں کے قانونی و غیر قانونی کاروبار کا حجم چوہتر ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ان جانوروں کو جنگل سے مقامی لوگ پکڑ کے سمگلروں کو فروخت کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کی اکثریت یہ کام غربت کے سبب کرتی ہے اور اس کا اپنا غذائی گزارہ بھی انہی جانوروں اور پرندوں پر ہے۔
عالمی ادارہِ تجارت کا اندازہ ہے کہ کرونا وائرس عالمی معیشت کو کم ازکم چار ہزار ارب ڈالر ( چار ٹریلین ) کا نقصان پہنچائے گا۔ جبکہ جنگلی حیات کی تجارت اور اس سے وابستہ افراد کا سب خرچہ مل ملا کر ایک کھرب ڈالر کے لگ بھگ بنتا ہے۔
جب تک ڈیمانڈ تب تک سپلائی۔ بھلے آپ کوئی بھی سخت سے سخت قانون بنا لیں۔لہذا شہریوں کو سمجھانا بہت ضروری ہے کہ جنگلی حیات سے دوستی کا یہی تقاضا ہے کہ آپ اسے اپنے دسترخوان یا ذاتی چڑیا گھر کی زینت بنانے کے بجائے اسے اپنے ہی فطری ماحول میں رہنے اور جینے دیں۔ ورنہ فطرت آپ کو نہیں جینے دے گی۔
اگر کرونا جیسے سانحوں سے بچنا ہے تو محض عارضی اقدامات سے فائدہ نہیں ہونے کا۔ نہ تو یہ پہلی وبا ہے نہ آخری۔ اور نہ ہی اس کی ویکسین کسی اگلی وبا میں کارآمد ہو گی۔
جنگلوں کی بے تحاشا کٹائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والی حیات کی بحالی اور اس کی تجارت کی بیخ کنی کو عالمی، علاقائی اور قومی سلامتی کے ایجنڈے میں شامل کرنا ہو گا۔ اس مقصد کے لیے اگر عالمی برادری ایک سے ڈیڑھ کھرب ڈالر سالانہ بھی وقف کر دے تو شائد اگلے وائرس سے پہنچنے والے سات آٹھ ٹریلین ڈالر کے ممکنہ معاشی نقصان اور لاکھوں اموات سے بچا جا سکے۔
اتنا سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اگر آپ قوتِ باہ بڑھانے کی آس میں سانڈے کا تیل ملنے یا چہرے کی جھریاں کم کرنے کے لیے سانپ کا گرم گرم خون پینے یا جنگلی بلی کا گوشت کھانے پر بضد ہیں تو آپ کی مرضی۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔