یوں بھی ہوتا ہے کہ کہنے والے کوکہنے کا اور سننے والے کو سننے کا یارا نہیں ہوتا۔ جمعرات کی دوپہر بھی یہی کیفیت ہوئی۔ شعیب بن عزیز کی کال تھی۔ یوں لگا‘ وہ بات کہنا چاہ رہے ہیں لیکن کہہ نہیں پا رہے‘ جیسے ان کی تمام تر قادر الکلامی دھری کی دھری رہ گئی ہو۔ پھر غم و اندوہ میں ڈوبی آواز اُبھری‘ یار! وہ اپنے مولوی سعید اظہر چلے گئے‘‘۔ اب اِدھر مزید کچھ سننے کا یارا نہ تھا۔
اور یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان کسی المیے کیلئے‘ کسی بُری خبر کیلئے شعوری طور پر تیار ہوتا ہے لیکن دل نہیں مانتا‘ لاشعور سرگوشی کرتا ہے‘ شاید کوئی معجزہ ہو جائے۔ اپنا رب سب کچھ کر سکتا ہے‘ ایسے واقعات بھی پڑھنے سننے میں آتے ہیں (اور اپنے احباب میں اپنی آنکھوں دیکھے بھی ہوتے ہیں) کہ بظاہر زندگی کے تمام امکانات معدوم ہو گئے۔ یوں لگا‘ موت قریب ہی منڈلا رہی ہے‘ لمحے اور ثانیے گن رہی ہے۔ اب جان لے کر ہی ٹلے گی لیکن وہ خالی ہاتھ لوٹ گئی‘ سانس بحال اور ہموار ہونے لگی اور جس کی زندگی سے ہم مایوس ہو چکے تھے‘ اس نے مزید کتنی ہی بہاریں ہمارے ساتھ ہنستے مسکراتے گزار لیں۔ لیکن اپنے مولوی سعید اظہر کے بارے میں ہم ایسے خوش نصیب نہ نکلے۔
کوئی ڈیڑھ‘ دو سال قبل مثانے کا عارضہ ہوا‘ لیکن انہوں نے اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت محسوس نہ کی‘ اپنے نجی مسائل کے حوالے سے ان کی یہ لاپروائی‘ یہ غیر سنجیدگی قدیم تھی۔ دیسی ٹوٹکوں اور دوا دارو سے کلام چلاتے رہے۔ پھر ایک دن فیصل ٹاؤن کے ایک نجی کلینک میں ان کے داخلے کا سنا‘ بھاگم بھاگ پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ رات اتنا شدید درد اٹھا کہ چیخیں نکل گئیں‘ گھر والے اٹھاکر یہاں لے آئے۔ یہاں سے مولوی صاحب سروسز ہسپتال پہنچ گئے‘ شامی صاحب (اور کچھ اور دوستوں) کی کاوش سے پرائیویٹ کمرہ مل گیا۔ مولوی صاحب روبصحت ہونے لگے‘ کچھ روز بعد گھر منتقل ہو گئے۔ بیماری کی آنکھ مچولی جاری رہی۔ انکشاف ہوا‘ مثانے میں سرطان ہے جو تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کیمو تھراپی شروع ہو گئی‘ ایک دن واٹس ایپ پر بیٹی بریرہ کا میسج تھا‘ وقتِ دعا ہے۔ لیکن دعاؤں کی قبولیت کا دروازہ بند ہو چکا تھا‘ مولوی سعید اظہر نے دامن جھاڑا اور اگلے سفر پر روانہ ہو گئے۔
شعیب کے فون نے دنیائے دل زیر و زبر کر دی تھی۔
ادھر لاک ڈاؤن نے گھر میں محدود کر دیا ہے۔ ٹی وی پر ”کورونا نامہ‘‘ سے تنگ آ چکے‘ کتابوں سے دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں‘ کسی دوست سے موبائل پر لمبی گفتگو ہو جاتی ہے اور باقی وقت اداسی و افسردگی آ لیتی ہے۔ مولوی سعید اظہر کو رخصت ہوئے چوتھا روز ہے ‘لیکن آج بھی وہ یاد آئے اور بے حساب آئے۔
سعید اظہر سے اپنے تعلق کا آغاز ایک قاری کے طور پر ہوا۔ پچاس سال پہلے وہ ”کوہستان‘‘ سے وابستہ تھے۔ یہ 1960ء کی دہائی کے بڑے اخبارات میں شمار ہوتا تھا‘ اپنی خبروں اور دیگر تحریری مواد کے علاوہ آرائش و زیبائش میں بھی منفرد تھا۔ بلوچستان کے ڈیرہ جمالی کا جمالی خاندان (سابق وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کے بزرگ) اس کے فنانسر تھے اور ”خاک و خون‘‘ ،”اور تلوار ٹوٹ گئی‘‘،”محمد بن قاسم‘‘ اور ”قیصر و کسریٰ‘‘ جیسے معرکۃ الآرا تاریخی ناولوں کے خالق نسیم حجازی اس کے ایڈیٹر۔ ایوب خان کے صدارتی الیکشن میں کوہستان بھی مادرِ ملت کی حمایت کر رہا تھا۔ معاہدئہ تاشقند کے خلاف طلبہ تحریک میں‘ ایک خبر کی اشاعت پر یہ ایک ماہ کیلئے بند ہو گیا۔ دوبارہ اشاعت کے بعد سنبھل نہ سکا اور بالآخر ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کی تحویل میں چلا گیا۔ ایوب خان کے زوال کے ساتھ ان کی کنونشن لیگ بھی تتر بتر ہو گئی‘ موسمی پرندوں نے نئے گھونسلے بنا لئے۔ کنونشن لیگ کے اثاثے فروخت ہوئے تو کوہستان جماعت اسلامی کے جناب رانا اللہ داد نے خرید لیا (وہ جماعت اسلامی میں واحد ”سرمایہ دار‘‘ تھے۔ ساہیوال (تب منٹگمری‘‘ کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے رانا اللہ داد کا لاہور میں ٹریکٹروں اور کاروں کا بزنس تھا) جناب عبدالوحید خان (ہمارے سلمان غنی کے سسرِ محترم) اس کے ایڈیٹر بنے۔ نوجوان سعید اظہر منڈی بہاؤ الدین سے لاہور آ کر صحافت کو ذریعۂ روزگار بنا چکے تھے۔ لیکن روزگار کے ساتھ یہ ان کیلئے نظریے کا معاملہ بھی تھا۔ مطالعہ کا شوق انہیں سید مودودیؒ کے قریب لے گیا‘ جن کا ”دینی‘‘ لٹریچر‘ ایک خاص ادبی چاشنی بھی رکھتا تھا۔ ”کوہستان‘‘ میں وہ جلد ہی اہم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ نیوز ایڈیٹنگ کے ساتھ وہ کالم نویسی اور فیچر نگاری میں بھی اپنی شناخت بنا رہے تھے۔ ہارون آباد میں یہ میرا کالج کا دور تھا۔ جمعیت سے وابستگی کے باعث جماعت اور جمعیت کے لٹریچر کے ساتھ اخبارات و جرائد بھی زیر مطالعہ رہتے۔ ان میں ”کوہستان‘‘ بھی تھا۔ اس دور کے سعید اظہر کے بعض کالم اور فیچر مجھے اب بھی یاد ہیں۔ 1971ئ کے وسط میں جنرل یحییٰ کا دور تھا‘ جب پاکستان واشنگٹن اور پیکنگ (موجودہ بیجنگ) میں رابطے کا ذریعہ بنا۔ صدر نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنگر (جنہیں ”کسنجر‘‘ بھی لکھا جاتا ہے) اسلام آباد آئے اور یہاں سے خفیہ طور پر پیکنگ پہنچے۔ اس پر سعید اظہر کا کالم تھا: ”کسنگر‘ کس نگر گئے‘‘؟ دھرمپورہ لاہور کی دوشیزہ شاہدہ کے گڑھی شاہو میں قتل پر سعید اظہر کے فیچر نے بھی دھوم مچا دی تھی۔ (سعید اظہر کی ان تحریروں کا تاثر میرے ذہن میں اب بھی تازہ ہے)
معصومیت اور ذہانت ان کی شخصیت کے بنیادی عناصر تھے اور ان کی ساتھ بلا کی حسِ ظرافت بھی۔ ایک دن کوہستان میں‘ ایک اہم خبر Missہو گئی۔ اگلے روز عبدالوحید خان صاحب کی طرف سے ”جواب طلبی‘‘ پر سعید اظہر کا جواب تھا:”خان صاحب! آپ فکر نہ کریں‘ ہم قارئین کو فون پر یہ خبر بتا دیتے ہیں‘‘ یہ اخبار کی کم اشاعت پر بلیغ سا طنز بھی تھا۔ وقت کے ساتھ انہوںنے اپنی ہکلاہٹ پر خاصا قابو پا لیا تھا۔ (لیکن اس ہکلاہٹ کا اپنا لطف تھا)
اور پھر‘ سعید اظہر نے ”دائیں‘‘ سے ”بائیں‘‘ کا رخ کر لیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے‘ اس تبدیلی کا آغاز بھٹو صاحب کی پھانسی سے پہلے ہو چکا تھا۔ سلمان غنی کی شادی پر سعید اظہر بھی تھے ‘عبدالوحید خان صاحب کہہ رہے تھے: مجھے لیفٹ والوں سے یہ گلہ ہے کہ وہ ہمارا سعید اظہر لے گئے۔ سعید اظہر نے لاہور کے کتنے ہی اخبارات و جرائد میں کام کیا‘ یہ شاید انہیں بھی پوری طرح یاد نہ تھا۔ بعض دوستوں کے ساتھ مل کر‘ اپنا رسالہ نکالنے کی بھی (ایک سے زائد بار) کوشش کی لیکن یہ ان کے بس کی بات نہ تھی۔
وہ اندر سے پورے صوفی تھے‘ دنیاوی آسائش و زیبائش کو اپنی کمزوری نہ بنایا۔ لاہور پریس کلب والا پلاٹ برسوں پہلے بیچ کر بیٹی کی شادی کر دی۔ چار مرلے کا ایک بنا بنایا مکان اسلامیہ پارک سمن آباد میں خرید کر ہماری بھابی صاحبہ کے لئے ”اپنی چھت‘‘ کاا ہتمام کر دیا۔
ساری عمر پیدل یا رکشوں پر سواری کی۔ (دوست احباب سے لفٹ بھی مل جاتی) دوستوں کی خوشی اور غمی میں شرکت کے حوالے سے وہ ہمیشہ بہت ”سنجیدہ‘‘ رہے۔ میری اہلیہ بیمار ہوئی تو ہر دوسرے‘ تیسرے روز ہسپتال آتے۔ اس کی وفات پر تینوں دن آتے رہے اور شام کو دیر تک موجود رہتے۔ تدفین کے دوسرے دن‘ جاتی امرا سے قمر صاحب کا فون آیا‘ میاں صاحب اور بیگم صاحبہ تعزیت کیلئے آئیں گے‘ ان کی خواہش ہے کہ میڈیا میں اس کی تشہیر نہ ہو۔ مغرب کے وقت وزیراعظم اور خاتونِ اول چپکے سے آئے۔ سعید اظہر موجود تھے‘ میاں صاحب دیر تک ان کا ہاتھ تھامے‘ ان کے کالموں کی تعریف کرتے رہے۔ بیگم صاحبہ کا کہنا تھا کہ وہ بھی سعید اظہر کے کالم بڑے اہتمام سے پڑھتی ہیں۔ سعید اظہر کی رگِ ظرافت پھڑکی۔ ”جی! مجھے یقین ہے‘ آپ تو واقعی پڑھتی ہوں گی‘‘۔