Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس: بخار، کھانسی اور سانس میں دشواری، اس بیماری کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے محفوظ رہا جائے؟

Share

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے مصدقہ متاثرین کی تعداد 19 لاکھ اور ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ پاکستان پر نظر ڈالیں تو وہاں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 5700 سے زیادہ ہے جبکہ 100 سے زیادہ افراد اس وبا کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل رہا ہے اور اس سے نقصان کو کم سے کم رکھنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ جانیے کہ اس سے بچنا کیسے ممکن ہے اور اسے روکا کس طرح سے جائے۔

اس کی علامات کیا ہیں؟

یہ بظاہر بخار سے شروع ہوتا ہے جس کے بعد خشک کھانسی آتی ہے۔

ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے کچھ مریضوں کو ہسپتال لے جانے کے نوبت آ جاتی ہے۔

واضح رہے کہ اس انفیکشن میں ناک بہنے اور چھینکنے کی علامات بہت کم ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق انفیکشن کے لاحق ہونے سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک کا عرصہ 14 دنوں پر محیط ہے۔

لیکن کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24 دن تک بھی ہو سکتا ہے۔

کچھ چینی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کچھ لوگ خود میں علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی انفیکشن پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

کورونا وائرس کس قدر جان لیوا ہے؟

اس وائرس سے متاثر ہونے والے 44000 مریضوں کے ڈیٹا کے جائزہ کے بعد عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ

اس بیماری جسے کووڈ 19 کا نام دیا گیا سے مرنے والوں کی شرح ایک سے دو فیصد رہی لیکن ان اعداد پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

ہزاروں افراد کا علاج اب بھی جاری ہے اور شرح اموات بڑھ بھی سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی غیر واضح ہے کہ ہلکی پھلکے علامات والے کتنے کیسز ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے، اس صورت میں شرح اموات کم بھی ہو سکتی ہے۔

ہر سال ایک ارب افراد انفلواینزا کا شکار ہوتے ہیں اور دو لاکھ نوے ہزار سے چھ لاکھ پچاس ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ فلو کی شدت ہر سال بدلتی ہے۔

کیا کورونا وائرس کا علاج ممکن ہے؟

تاحال اس کا علاج بنیادی طریقوں سے کیا جا رہا ہے، مریض کے جسم کو فعال رکھ کر، سانس میں مدد فراہم کر کے، تاوقتکہ ان کا مدافعتی نظام اس وائرس سے لڑنے کے قابل ہو جائے۔

تاہم اس کے لیے ویکسین کی تیاری کا کام جاری ہے اور امید ہے کہ اس سال کے آخر تک اس کی دوا انسانوں پر آزمانی شروع کر دی جائے گی۔

ہسپتالوں میں وائرس کے خلاف پہلے سے موجود دواؤں کا استعمال شروع کر رکھا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کے آیا ان کا کوئی اثر ہے۔

ہم خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے:

یہ کتنی تیزی سے پھیل رہا ہے؟

ہر روز ہزاروں نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کہ اصل میں یہ اس سے کہیں کمبڑے پیمانے پر پھیل رہا ہوسکتا ہے کم سے کم اس سے 10 گنا زیادہ جتنا کہ سرکاری اعداد و شمار میں بتایا جا رہا ہے۔

یہ اب تک جنوبی کوریا، اٹلی، ایران میں پھیل چکا ہے جس کے بعد یہ خدشہ ہے کہ یہ عالمی وبا بن جائے گی۔ کسی بھی انفیکشن کو عالمی وبا اس وقت قرار دیا جاتا ہے جب سے دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل کر خطرہ بن جاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ اس تعداد کے حوالےسے فک مند ہیں خصوصات ایسے کیسز کے بارے میں جن کا بلاواسطہ تعلق چین سے ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ’وائرس کے موجود ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ‘

موسم سرما میں سردی اور فلو کی وجہ سے یہ زیادہ تیزی سے پھیلا، امکان ہے کہ موسم میں تبدیلی اس وبا کے پھیلاو کو روکنے میں مدد دے گی۔

تاہم کورونا وائرس کی طرح کا ایک وائرس ’مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سینڈروم‘ گرمیوں میں سعودی عرب پھیلتا ہے۔ اس لیے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ گرمیاں اس وبا کو روک دیں گی۔

یہ سب شروع کیسے ہوا؟

یہ وائرس خود کوئی ’نیا نہیں‘ ہے۔ یہ صرف انسانوں میں نیا ہے۔ یہ ایک مخلوق سے دوسری میں آیا ہے۔

کئی ابتدائی کیسز چین میں ووہان کے ایسے بازار سے جوڑی گئے جہاں جانوروں کا گوشت ملتا تھا۔

چین میں کئی لوگ جانوروں سے بہت قریب ہوتے ہیں جس سے یہ وائرسز منتقل ہو سکتا ہے۔ اور گنجان آباد شہروں کا مطلب ہے کہ یہ بیماریاں آسانی سے پھیل سکتی ہیں۔

سارس نامی بیماری بھی کورونا وائرس سے ہی شروع ہوئی تھی۔ یہ چمگادڑوں سے شروع ہوئی اور سیوٹ کیٹ سے ہوتی ہوئی انسانوں تکل پہنچی تھی۔

سارس کی وبا نے چین میں سال 2002 کے دوران 774 افراد کو ہلاک کیا جبکہ آٹھ ہزار سے زائد اس سے متاثر ہوئے۔

حالیہ وائرس کورونا وائرس سے کی یہ ساتویں قسم ہے اور اب تک اس میں کؤیی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ لیکن جب حالات سنبھل جائیں گے تو سائنسدان اس کا قریبی جائزہ لیں گے۔

Exit mobile version