Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس: مختلف ممالک میں اموات کی شرح مختلف کیوں؟

Share

اٹلی میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد جرمنی کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مرنے والوں کی تعداد میں اتنا فرق ہے؟

اٹلی یورپ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ بری طرح متاثر ہونے والا ملک ہے جہاں مارچ کے آخر تک ہلاک ہونے کا تناسب گیارہ فیصد تھا۔ جبکہ جرمنی میں اسی وائرس سے ہونے والی اموات صرف ایک فیصد ہیں۔ چین میں ہلاکتوں کا تناسب چار فیصد اور اسرائیل میں یہ تناسب دنیا کے باقی تمام ملکوں میں سب سے کم صرف صفر اعشاریہ تین پانچ فیصد ہے۔

پہلے پہل یہ بات بہت حیران کن لگ رہی تھی کہ ایک وائرس جس میں کوئی تبدیلی بھی نہیں آئی اس کی وجہ سے مختلف ملکوں میں مرنے والوں کی تعداد میں اس قدر فرق ہو سکتا ہے۔ حتی کہ ایک ہی ملک میں بھی وقت کے ساتھ اموات کی تعداد بدل رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

جو فرق ہم دیکھ رہے ہیں وہ کئی عناصر کی وجہ سے ہے۔ غالباً اس کی سب سے بڑی مگر سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہم متاثرہ افراد کے کتنے ٹیسٹ کر رہے ہیں اور ان کا شمار کیسے کر رہے ہیں؟

اموات کی مختلف شرح

سب سے پہلے لوگوں میں اموات کی شرح کی اصطلاح کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ اسی ابہام کی وجہ سے مختلف ملکوں میں یہ شرح اتنی فرق آ رہی ہے باوجود اس کے ان ملکوں میں لوگوں کی ہلاکتیں ایک ہی تعداد میں ہو رہی ہوں۔

حقیقتاً اموات کی شرح دو قسم کی ہوتیں ہیں۔ اول ان لوگوں کی اموات جن میں کورونا وائرس کی موجودگی کے بارے میں علم ہو چکا ہے اور ان کا ٹیسٹ مثبت آ چکا ہے۔ اس کو کہتے ہیں ’کیس فٹیلٹی ریٹ‘ یا بیماری سے اموات کی شرح۔

دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد ہوتی ہیں لیکن ان کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ مرنے والے اس بیماری مبتلا تھے اور یہ تعداد اندازے سے ہی لگائی جاتی ہے۔ اسے ’انفیکشن فیٹیلٹی ریٹ‘ کہتے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں وبائی امراض کے ماہر کارل ہینیگان کا کہنا ہے کہ دوسرے لفظوں میں ’کیس فٹیلیٹی ریٹ‘ ظاہر کرتا ہے کہ کتنے لوگ جن کے بارے میں ڈاکٹروں کو یقین ہے کہ وہ وائرس سے ہی ہلاک ہوئے ہیں اور اس کے مقابلے میں مجموعی طور پر کتنے لوگ اس وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ دیکھنے کے لیے اس میں کیا فرق ہے، فرض کیجیے کہ سو افراد کورونا وائس کی لپیٹ میں آئے۔ دس افراد ان میں سے اتنے شدید بیمار ہو گئے کہ انھیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑا جہاں ان کا ٹیسٹ بھی مثبت آ گیا۔

یعنی ان لوگوں کے بارے میں مکمل طور پر تصدیق ہو گئی ہے کہ انھیں وائرس لگا چکا ہے۔ نوے دوسرے افراد کا ٹیسٹ ہی نہیں ہوا۔ ہسپتال میں داخل ہونے والوں میں سے ایک کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ باقی ننانوے بچ جاتے ہیں۔

اس طرح کیس فٹیلٹی ریٹ دس میں ایک بنتا ہے یا دس فیصد بنتا ہے۔ لیکن ’انفیکش فیٹلٹی ریٹ‘ سو میں ایک یعنی ایک فیصد بنے گا۔

اکثر ملکوں میں وسیع پیمانے پر لوگوں کے ٹیسٹ نہ کرایا جانا بھی بین الاقوامی سطح پر شرح اموات میں پائے جانے والے تفاوت کی ایک بڑی وجہ ہے۔

لہذا کچھ ملکوں میں صرف ان لوگوں کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جو اس قدر شدید بیمار ہیں کہ انھیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑ رہا ہے اور وہاں نسبتاً کم بیمار یا ان لوگوں کے جن میں مرض کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی ہے ٹیسٹ نہیں کیے جا رہے۔

موت کی شرح ان ملکوں مثلاً جرمنی اور جنوبی کوریا میں زیادہ ہو سکتی ہے جہاں لوگوں کے وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔

اگر آپ اموات کی شرح لگانے میں انتہائی احتیاط سے کام لے رہے اور ان سب چیزوں کو مد نظر رکھے ہوئے ہیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ آ سکتی ہے کہ ٹیسٹ کم یا زیادہ کرنے سے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔

جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں وبائی امراض اور میڈیکل بائیومیٹری کے ماہر ڈیٹرچ رودن باچر کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر اموات کی شرح میں اس فرق کی بڑی وجہ بعض ملکوں میں وسیع پیمانے پر ٹیسٹ نہ کرایا جانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں جو حساب کتاب ہمارے سامنے آ رہا ہے اس کا آسانی سے مختلف ملکوں کے درمیان موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس لیے اگر ہمیں مختلف ملکوں کے بارے میں درست اعداد و شمار نکالنے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ صرف ان لوگوں کا ہی نہیں جن میں بیماری کی علامات پائی جاتی ہیں بلکہ ان لوگوں کا بھی ٹیسٹ کیا جائے جن میں وائرس میں مبتلا ہونے کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی۔

یہ اعداد و شمار حاصل ہونے کے بعد پوری تصویر ابھر کر سامنے آ سکے گی کہ یہ عالمی وبا کس طرح صرف بیمار لوگوں کو ہی نہیں بلکہ مختلف آبادیوں کو متاثر کر رہی ہے۔

اکثر ملکوں میں وسیع پیمانے پر لوگوں کے ٹیسٹ نہ کرایا جانا بھی بین الاقوامی سطح پر شرح اموات میں پائے جانے والے تفاوت کی ایک بڑی وجہ ہے

انھوں نے کہا کہ موجود صورت حال میں مختلف ملکوں کے اعداد و شمار میں بہت فرق پایا جاتا ہے اس لیے ان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس موازنہ کرنے کے لیے قابل اعتبار اور تصدیق شدہ تعداد جو ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت ایک نمائندہ سیمپلنگ گروپ سےحاصل کی گئی ہوں۔

شمالی اٹلی کے ایک گاؤں کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیسٹ کروایا جانا کیوں ضروری ہے۔ جب اس گاؤں میں کووڈ 19 کے پہلے مریض کی تصدیق ہوئی تو گاؤں کے تمام کے تمام 3300 لوگوں کے ٹیسٹ کروائے گئے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ جب کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آیا اس وقت گاؤں کی تین فیصد آبادی اس کا شکار ہو چکی تھی لیکن ان میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

آئس لینڈ میں وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کرائے جانے سے ایسے ہی نتائج سامنے آئے۔ آئس لینڈ میں 365000 افراد کی کل آبادی میں سے تین فیصد لوگوں کے ٹیسٹ کرائے گئے جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن میں وائرس کی علامات پائی گئی تھیں اور وہ بھی جن میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی تھی۔

ان ٹیسٹ سے حاصل ہونے والے نتائج سے یہ اندازہ لگایا کہ آئس لینڈ کی مجموعی آبادی میں سے صفر اعشاریہ پانچ فیصد لوگ کورونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ہینیگان کے مطابق یہ تعداد اصل تعداد سے کم ہو سکتی ہے کیونکہ جن لوگوں میں علامت ظاہر نہیں ہوتیں وہ عام طور ٹیسٹ نہیں کرواتے۔ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اصل میں آئس لینڈ کی مجموعی آبادی کا ایک فیصد حصہ یعنی 3650 لوگ کورونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

اس میں ایک اضافی مشکل یہ ہے کہ یہ تمام اعداد و شمار سائنسی طریقے سے تصدیق شدہ عمل کے تحت حاصل نہیں کیے گئے بلکہ ہسپتالوں سے حاصل کیے گئے ہیں جس میں شک و شبہہ کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔

شمالی اٹلی کے اس گاؤں میں کووڈ 19 کے پہلے مریض کی تصدیق ہوئی تو گاؤں کے تمام کے تمام 3300 لوگوں کے ٹیسٹ کروائے گئے

کیمبرج یونیورسٹی کی پروفیسر شیلا برڈ کا کہنا ہے کہ اس کے اعداد و شمار اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں کہ صحت عامہ کے لیے درست اقدامات اٹھانے کے لیے وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کیے جانے کیوں ضروری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ میں کبھی علامات ظاہر نہیں ہوئیں لیکن آپ کو وائرس لگ چکا ہے وہ بھی انفیکشن کے زمرے میں آتا ہے لیکن اس کو شمار نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ آپ اینٹی باڈی ٹیسٹ نہیں کر لیا جاتا۔

اینٹی باڈی ٹیسٹ سے علم ہوتا ہے کہ کون وائرس کا شکار ہوا اور کسی کے جسم پر اس وائرس کا کیا ردعمل ہوا۔ یہ ٹیسٹ اصل میں صورت حال بدل سکتے ہیں کیونکہ اس کے بعد یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی کے جسم میں وائرس کے خلاف مدافعت موجود ہے اور ان کو کام پر واپس جانے کی اجازت دینے میں خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس لیے یہ ٹیسٹ بنایا جانا بہت اہم ہے۔

اٹلی کے گاؤں میں کووڈ 19 کا ٹیسٹ دو ہفتوں بعد معطل کر دیا گیا تھا کیونکہ کہ وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کرائے جانے اور اس کی روشنی میں سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے وبا کے پھیلاو کو موثر طور پر روکنے میں کامیابی حاصل ہو گئی تھی۔ آئس لینڈ میں اب تک اس وائرس سے صرف دو افراد کی موت ہوئی ہے۔

کووڈ 19 میں کون سی اموات کا شمار کیا جا سکتا ہے؟

کئی دوسرے عناصر بھی اموات کی شرح پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ڈاکٹر کس کی موت کو کووڈ 19 سے موت قرار دیتے ہیں۔ شاید یہ بہت سادہ سی بات لگے۔

اگر کوئی کووڈ 19 میں مبتلا کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی موت اسی جراثیم سے ہوئی ہے۔ لیکن اگر کوئی مریض کسی اور بیماری میں بھی مبتلا ہے جیسا کہ ایستھیما جو کووڈ 19 کی وجہ سے بگڑ گیا ہو۔ یا کسی مریض کی موت کسی ایسی بیماری سے ہوتی ہے جس کی علامات بظاہر وائرس جیسی ہی ہوں۔ تو ایسی صورت میں اس کی موت کی وجہ کیا بیان کی جائے گی۔

اسی لیے کس موت کو آپ کیسے شمار کرتے ہیں اس وجہ سے ایک ملک میں بھی اعداد و شمار فرق آ سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر برطانیہ میں قومی صحت کا ادارہ ہر روز ایسے مریضوں کی اموات کی تعداد جاری کرتا ہے جن کے وائرس کے ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد وہ جانبر نہ ہو سکے۔

اس تعداد میں ان مریضوں کو بھی شمار کیا جاتا ہے جن کو کورونا وائرس لگ گیا تھا لیکن ان کی موت کا سبب کوئی اور بیماری مثلاً سرطان تھی۔

برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ کا ادارہ ان تمام اموات کو کووڈ 19 میں شمار کرتا ہے جن کا اندراج ڈیتھ سرٹفیکیٹ میں کووڈ 19 کے تحت درج ہو، قطع نظر اس بات کہ ان کا ٹیسٹ کیا گیا تھا یا اس کے بارے میں شک تھا کہ مرنے والا کورونا وائرس کا شکار تھا۔

شرح اموات کا حساب لگانے میں پیچیدگیوں کو سمجھنے میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ شماریات کے قومی ادارہ میں اموات کی وجہ کا شمار بہت بعد میں کیا جاتا ہے اور اس کے اعداد و شمار اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار میں فرق آ سکتا ہے۔

شماریات کے قومی ادارے سے وابستہ سارا کول نے حال ہی میں اموات کا شمار کرنے کے مختلف طریقوں کے بارے میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کیا درست اور کیا غلط ہے بلکہ جن ذارئع سے اعداد و شمار اکھٹا کیے جاتے ہیں ان کی اپنی خامیاں اور خوبیاں ہیں۔

ان کے خیال میں ضروری نہیں کہ مختلف ملکوں میں اعداد و شمار میں تفاوت کی یہ وجہ ہو، گو کہ بہت سے ملک ایک ہی طرح سے یہ اعداد و شمار اکھٹا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اٹلی میں جو کوئی بھی وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد ہلاک ہو جاتا ہے اسی کی موت کی وجہ کو وائرس ہی قرار دیا جا رہا ہے، جرمنی اور جنوبی کوریا میں بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔

امریکہ میں ڈاکٹر جب بیماریوں کے انسداد کے قومی ادارے سینٹر فار ڈزیز پریوینشن کو کووڈ 19 سے کسی شخص کی موت کے بارے میں اطلاع دیتے ہیں تو ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کی موت اسی بیماری سے ہوئی ہے۔

یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ڈاکٹروں کے لیے کسی شخص کے بارے میں غلط انداز لگانے کے کتنے زیادہ امکانات ہوتے ہیں مثال کے طور پر کوئی کورونا وائرس کا مریض جس کی موت حرکت قلب بند ہو جانے سے ہوئی ہو یا اور کسی وجہ سے اور ڈاکٹر یہ سمجھیں کے اس کی موت وائرس سے ہی ہوئی ہے اور وہ ان کی موت کی یہ ہی وجہ بیان کریں۔

اہم بات یہ ہے کہ آج سے کچھ عرصے بعد جب ان اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جائے تو وائرس سے اموات کی شرح میں کوئی فرق آئے لیکن فی الوقت کورونا وائرس سے اموات کی تعداد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اس وقت امریکہ میں وائرس سے متاثرہ کسی بھی شخص کی موت کو اس وبا ہی سے ہونے والی اموات میں ہی شمار کیا جاتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ڈاکٹر کیا سمجھتے ہیں کہ موت کی کیا وجہ بنی۔

روزانہ اموات کی تعداد عوام کے لیے جاری کی جانے والی معلومات میں انھیں وائرس سے ہونے والی اموات ہی میں شامل کیا جاتا ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں وبائی امراض کی ماہر سیسل ویبونڈ نے کہا کہ ‘وہ توقع کرتی ہیں کہ ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں کووڈ 19 کے ساتھ مریض کو پہلے سے امراض لاحق ہوں گے ان کے بارے میں لکھا جائے گا۔

لیکن فی الحال امریکہ میں کورونا وائرس میں مبتلا کسی بھی شخص کی موت کو اس وبا سے ہونے والی اموات میں ہی شمار کیا جا رہا ہے۔

لہذا کووڈ 19 سے کتنی اموات ہو رہی ہیں، اس سے ہمیں مستقبل میں وباء کی ہلاکت خیزی کے بارے میں اندازہ لگانے میں فرق پڑے لیکن ہو سکتا ہے حال میں مختلف ملک میں ہونے والی اموات کی تعداد میں زیادہ فرق نہ پڑے۔

پیچیدہ وجوہات

یہ تصویر اس وقت اور دھندلی ہوجاتی ہے جب مریض کا ٹیسٹ نہ ہوا ہو لیکن اس کے بارے میں شک ہو کہ اسے وائرس لگا چکا ہے۔

کیونکہ کووڈ 19 وائرس سے ان لوگ کے ہلاک ہونے کا زیارہ خطرہ ہوتا ہے جو کو صحت کے دیگر مسائل بھی ہوتے ہیں اور ڈاکٹروں کو ان کی موت کی وجہ بتانی پڑتی ہے۔ ک

وبائی امراض سے اموات کے دوران ایسا اکثر ہوتا ہے کہ موت کے پیچیدہ عوامل کی وجہ سے ڈاکٹر اس موت کی وجہ وبا ہی کو قرار دیتے ہیں۔

ہینیگاہن کہتے ہیں ’ہم جانتے ہیں کہ وبا کے دوران لوگ ہر موت کی وجہ کو کووڈ 19 ہی قرار دیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل میں جب بھی وہ موت کی وجوہات پر نظر ڈالیں گے تو انھیں یہ احساس ہو گا کہ انھوں نے اس وباء سے اموات کا اندازہ غلط لگایا تھا۔

اس کی ایک مثال سنہ 2009 میں ایچ ون این ون وبا ہے جسے سوائن فلو کا نام دیا گیا تھا۔ ابتدا میں اس ہلاکت کی شرح بہت زیادہ نکالی گئی تھی۔ وبا کے دس ہفتوں کے بعد مختلف ملکوں کے بہت مختلف اعداد و شمار سامنے آ رہے تھے۔ لیکن جب طبی ماہرین کو موقع ملا کہ وہ تمام دستاویزات کا سکون سے جائزہ لیں تو اس وبا سے اموات کی شرح بہت کم نکلی تھی۔

نامعلوم اموات

اموات زیادہ شمار کرنے سے کووڈ 19 سے اموات کی شرح زیادہ آ سکتی ہے لیکن ایک اور عنصر جو اعداد و شمار میں ابہام پیدا کر سکتا ہے اور یہ اصل سے کم بھی ہو سکتا ہے۔

مسئلہ کووڈ 19 سے ایسی اموات ہیں جو کورونا وائرس سے ہوتی ہیں لیکن ان مریضوں کے کبھی ٹیسٹ نہیں کیے گئے ہوتے۔ ایسا اس صورت میں ہوتا ہے جب طبی سہولیات پر ضرورت سے زیادہ مریضوں کا دباؤ ہوتا ہے اور وہ مریض بھی جن میں بیماری کی شدید علامات پائی جاتی ہیں انھیں ہسپتال نہیں لے جایا جا سکتا اور ان کا علاج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہسپتالوں میں گنجائش ہی نہیں ہوتی۔

اٹلی کے چھوٹے سے قصبے نیمبرو میں صرف اکتیس افراد سرکاری طور پر کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوئے لیکن ایک ابتدائی جائزے میں معلوم ہوا کہ اس سے کہیں زیادہ لوگ کووڈ 19 سے ہلاک ہوئے ہوں گے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ مجموعی سال اس قصبے میں مرنے والی کی تعداد نہ صرف کووڈ 19 سے بلکہ تمام امراض سے وہ گزشتہ سال کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تھی۔ عام طور پر سال کے شروع کے مہینوں میں اس علاقے میں 35 اموات درج کی جاتی ہیں لیکن اس سال اب تک یہاں 158 افراد مر چکے ہیں۔

اموات میں اضافہ کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ کووڈ 19 بہت سی ایسی ہلاکتیں ہوئیں ہیں جن میں مرض کی تشخص نہیں ہوئی اور ان کے ٹیسٹ نہیں کیے گئے۔

Exit mobile version