کالم کی سری: اللہ کے کچھ نیک بندے ایسے بھی ہیں جو بونگ پائے بنانے میں یدِ طولیٰ ٰ رکھتے ہیں، ایسے ہی ایک اللہ لوک سے آج صبح میرا ڈرائیور لاہور کے علاقے سنت نگر سے بونگ پائے لایا، یہ دکان صبح چار سے پانچ بجے تک محض گھنٹے کے لیے ہی کھلتی ہے، میں نے اِس کی دو پلیٹیں کُلچوں کے ساتھ ’چڑھائیں‘ اور اب اِس قدر خمار میں ہوں کہ کالم کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی کیسے لکھوں!
1981میں لاس اینجلس کے اسپتال میں ایک مریض داخل ہوا، مریض کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی، ڈیوٹی پر ایک اٹھائیس سالہ تائیوانی ڈاکٹر ’ہو‘ موجود تھا۔
ڈاکٹر نے اُس کے ٹیسٹ کیے جن سے پتا چلا کہ مریض کو پھیپھڑوں میں عجیب قسم کا انفیکشن اور کینسر ہے، اِن دونوں علامات کا ایک ساتھ ظاہر ہونا اِس بات پر دلالت کرتا تھا کہ مریض کے مدافعاتی نظام میں کوئی کمی ہے۔
ڈاکٹر ہُو نے اسے اینٹی بائیوٹک دے کر ڈسچارج کر دیا مگر کچھ عرصے بعد مریض کا انتقال ہو گیا۔ چند ماہ بعد ایسی ہی علامات کے پانچ مزید مریض ڈاکٹر ہُو کے پاس آئے، ڈاکٹر نے اِس مرتبہ اِن تمام مریضوں کی رپورٹ بنا کر متعلقہ ادارے کو بھجوا دی۔
یہ ’ایڈز‘ کی پہلی باقاعدہ رپورٹ تھی۔ ڈاکٹر ہُو نے فیصلہ کیا کہ وہ اِس بیماری کا کھوج لگائے گا چنانچہ اُس نے اپنی تحقیق شروع کر دی اور اسّی کی دہائی میں ایچ آئی وی سے متعلق کئی نئی باتیں دریافت کیں جن کی مدد سے ایڈز کے مریضوں کا علاج کرنے میں بہت کامیابی ملی۔
1994میں ڈاکٹر ہُو نے ایک ایسی دوا ایجاد کر لی جو ایڈز کے وائرس کو کمزور کرنے کا سبب بنتی تھی مگر مصیبت یہ تھی کہ ہر نئے مریض میں وائرس اپنی جُون بدل لیتا تھا اور یوں مریض کا علاج مشکل ہو جاتا تھا، ایک دوائی اِس کے لیے ناکافی ثابت ہو رہی تھی۔
ڈاکٹر ہو اور اُس کی ٹیم نے اِس کا بہت دلچسپ حل نکالا، انہوں نے تین چار دوائیوں کی ایک کاک ٹیل سی تیار کی جو ایڈز کے وائرس کو کمزور کرنے میں کامیاب رہی یہ ایک ناقابلِ یقین کامیابی تھی۔
1996میں ڈاکٹر ہُو کی تصویر ٹائم میگزین کے سرورق پر شائع ہوئی اور اسے ’مین آف دی ائیر‘ کا خطاب دیا گیا۔ ڈاکٹر ہُو آج کل کولمبیا یونیورسٹی میں اپنی ایک لیبارٹری قائم کر رہا ہے جہاں وہ صرف کورونا وائرس ہی نہیں بلکہ مستقبل کی تمام وباؤں کے لیے ایک ’متحدہ‘ دوا تیار کرنا چاہتا ہے۔
سچ پوچھیں تو یہ کہانی ڈاکٹر ہُو کی نہیں بلکہ اُس سائنسی سوچ کی کہانی ہے جس سے کم از کم ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ سائنسی سوچ ہمیں سکھاتی ہے کہ بیماریوں اور وباؤں کا علاج صرف اُن ’برگزیدہ ہستیوں‘ پر ’منکشف‘ ہوتا ہے جو لیبارٹری میں ’عبادت‘ کرتے ہیں۔
انسانی جسم میں وائرس کیا تباہی مچاتا ہے یہ جاننے کے لیے بائیولوجی کی تجربہ گاہ میں ’مراقبہ‘ کرنا پڑتا ہے اور وبائیں کیسے پھیلتی ہیں اِس کا علم ریاضی کے ’سائیں نور والے‘ سے ہی مل سکتا ہے۔
ایسے ہی ایک سائیں نے 1910میں ایک کتاب لکھی، نام تھا The Prevention of Malaria، اُس ’بابے‘ نے ہمیں ریاضی کی مدد سے حساب لگا کر بتایا گیا کہ اوسطاً اڑتالیس ہزار مچھر ایک انسان میں ملیریا کا سبب بنتے ہیں چنانچہ اگر آپ گندے پانی کے ذخیرے یا جوہڑ ختم کر دیں تو مچھروں کی افزائش ختم ہو جائے گی، نتیجتاً ملیریا اپنے آپ ختم۔ یہ بات آج دودھ پیتے بچے کو بھی پتا ہے مگر اِس کے پیچھے کیا سائنس ہے، کم ہی لوگ جانتے ہیں۔
کچھ ایبولا وائرس کی سُن لیں۔ 1976میں ایک حاملہ عورت کانگو کے ایک اسپتال میں داخل ہوئی، وہ شدید بیمار تھی، اسے بخار تھا، آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور مسوڑھوں سے خون بھی رِس رہا تھا، تیماردار نرس کو لگا شاید اسے ملیریا ہوا ہے، بہرکیف نرس نے زچگی میں مدد دی۔
بچہ پیدا ہوا اور اِس پورے عمل کے دوران حسبِ عادت نرس نے کوئی دستانے استعمال نہیں کیے۔ زچگی کے دوران ماں کا انتقال ہو گیا مگر کانگو جیسے ملک میں یہ کوئی ایسی انہونی بات نہیں تھی۔
انہونی البتہ یہ ہوئی کہ پانچ دن بعد اُس نرس کو شدید بخار ہو گیا اور ساتھ ہی خون کی الٹیاں شروع ہو گئیں، بیماری کی شدت سے وہ نڈھال ہو گئی، اس دوران مقامی چرچ کے پادری نے اُس کی عیادت کی۔ فادر کو دیکھ کر نرس رو پڑی، پادری بھی اُس کی حالت دیکھ کر سکتے میں آ گیا۔
حسبِ روایت فادر نے نرس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر صلیب بنائی اور دعا دی اور اپنے رومال سے نرس کے آنسو پونچھے اور اسی رومال سے اپنی نم آنکھوں کو بھی صاف کیا۔ نرس کچھ دن بعد مر گئی۔ پادری تیرہ دن بعد انتقال کر گیا۔ اور پھر چند دنوں میں کانگو کا کیتھولک مشن اسپتال ایبولا وائرس کے مریضوں سے بھر گیا۔
دنیا میں اِس وقت کورونا وائرس کی دوا تیار کرنے کے مختلف طریقوں پر کام ہو رہا ہے، ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ وائرس کو انسانی خلیے میں داخل ہونے سے روکا جائے، انسانی جسم میں وائرس کو فعال ہونے کے لیے enzymeکی ضرورت ہوتی ہے سو بعض دوائیں اس فارمولے پر بنائی جا رہی ہیں تاکہ وہ وائرس کو اِس enzymeسے ’رابطہ‘ کرنے سے روکیں اور اسے کام نہ کرنے دیں، ہائیڈرو کلوروکین نامی دوا سے اسی کام کی امید ہے۔
دوسرا مرحلہ وہ ہے جب ایک دفعہ وائرس انسانی خلیے میں داخل ہو کر اپنا جینوم کاپی کر دے اس کے بعد انسانی خلیے اِس وائرس کے احکامات کے تابع کاپیاں بناتے چلے جاتے ہیں اور انفیکشن ہو جاتا ہے، یہ ایک پیچیدہ مرحلہ ہے چنانچہ ایک ایسی دوا پر تحقیق کی جا رہی ہے جو وائرس کے اُس پروٹین پر حملہ کرے گی جو کاپیاں بنانے کا کام کرتا ہے تاکہ وائرس کی کاپیاں خراب ہو جائیں اور وہ ناکارہ ہو جائے۔
اِس کے علاوہ بھی پڑھی لکھی دنیا میں مختلف طریقہ علاج زیر غور ہیں۔ جو دوائیں مغربی ممالک میں تیار ہوتی ہیں وہ انہی مرکبات سے بنائی جاتی ہیں جنہیں قدرت نے پیدا کیا ہے اور قدرت اپنا علم اُن کی جھولی میں ڈالتی ہے جو خورد بین میں جھُک کر رب سے گڑگڑا کر مانگتے ہیں، ایسا ہی کوئی ایک لمحہ ہوتا ہے جب حقیقت منکشف ہوتی ہے اور ’سائیں‘ لیبارٹری سے جھومتا ہوا نکلتا ہے اور کہتا ہے ’میں نے پا لیا، میں نے پا لیا‘۔