گاؤں کے ہو کے رہ گئے
ٹی وی دیکھتے نہیں اور پچھلے پتہ نہیں کتنے دنوں سے چکوال میں اخبارات آ نہیں رہے۔ بس فون کے ذریعے دن میں ایک دو بار بی بی سی اور سی این این پہ آئی ہوئی خبریں دیکھ لیتے ہیں۔ اُسی سے گزارہ چل جاتا ہے۔ بیماری کی وجہ سے دنیا میں طوفان آیا ہو گا لیکن یہاں گاؤں میں کچھ زیادہ پتہ نہیں چلتا۔ گاؤں کی زندگی ویسے بھی چلتی رہتی ہے۔ اس پہ قدغنیں لگ نہیں سکتیں۔ مال مویشیوں کو چارا مہیا کرنا ہی ہوتا ہے۔ کھیتی باڑی کاکام رُک نہیں سکتا۔
ویسے بھی دیہات میں وہ رش نہیں ہوتا جو شہروں کی زندگی کا معمول ہے۔ لہٰذا وہ خطرات جو شہروں میں پائے جاتے ہیں اُن کا وجود اُس انتہا سے دیہاتوں میں نہیں۔ رونا بھی زیادہ شہروں میں ہے کہ دیہاڑی کی مزدوریاں ختم ہو گئیں۔ گاؤں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ مستری مزدور یہاں کام کر ہی رہے ہوتے ہیں۔ ہاں ٹرانسپورٹ والوں کو دھچکا لگا ہے کیونکہ نہ سوزوکیاں زیادہ چل رہی ہیں نہ رینٹ اے کار کا وہ کام ہے جو عام حالات میں ہوا کرتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے ہوٹلوں پہ رش ہوا کرتا تھا، اب ایسا نہیں رہا‘ لیکن اِس کے علاوہ کام چل رہا ہے۔ ظاہر ہے شہروں کی حالت بالکل مختلف ہے۔ شہر بازاروں پہ چلتے ہیں اور بازار بند پڑے ہیں۔ اس لحاظ سے لاک ڈاؤن کا عمل شہروں میں ہے ، دیہات میں زیادہ نہیں۔
دنیا کے کاروبار سے بے نیاز ہم نے گاؤں میں پناہ لی ہوئی ہے۔ پہلے معمول ہوا کرتا تھا کہ صبح اخباروں کی راہ تکتے تھے۔ جب سے اخبارات ہاتھ نہیں آ رہے صبح سے ہی کوئی کتاب سامنے رکھ لیتے ہیں۔ اس لحاظ سے اچھا ہی ہے کہ پرانا معمول ٹوٹا اور کچھ نیا کرنے کو مل گیا۔ میں لارنس کالج میں تھا جب ولیم ایل شیرر ( William L. Shirer) کی مشہور کتاب دی رائز اینڈ فال آف دی تھرڈ رائخ (The Rise & Fall of the Third Reich) پڑھنا شروع کی تھی۔ اتنے سالوں بعد اب پھر سے اُٹھائی ہے اور اس میں درج ہٹلر کی کہانی دوبارہ سے پڑھ رہا ہوں۔ ہٹلر پہ بہت سی کتابیں پڑھی ہیں لیکن اس کتاب کا اپنا مقام ہے۔ نہایت ہی دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے۔ یوں سمجھیے کہ ہٹلر کی زندگی کا مطالعہ کرنا ہو تو پہلی کتاب یہ پڑھنی چاہیے۔ اس کے بعد دوسروں پہ جایا جا سکتا ہے۔
بتانے کا مقصد یہ کہ فراغت کا یہ ماحول ایسا مہیا ہوا ہے جس میں کتب بینی کا موقع بھی مل رہا ہے اور مزہ بھی آرہا ہے۔ نہیں تو وہی روزمرّہ کی زندگی۔ دیہات میں آن بیٹھے ہیں تو زندگی نے کروٹ لی ہے۔ زلف تراشی کا مسئلہ البتہ ہے۔ کچھ دن ہوئے لاہور کا پروگرام بنا اور وہاں وہ مہربان جو ہمارے بالوں اور داڑھی پہ زور آزمائی کرتے ہیں اُنہیں سرائے میں آنے کا کہا۔ لیکن بال ہیں کہ بڑھنے سے رُکتے نہیں۔ داڑھی پہ تو خود ہاتھ چلا دیتے ہیں لیکن سر کے بال اپنی پہنچ سے باہر ہیں۔ آج نہیں تو کچھ دن بعد پھر لاہور جانا پڑے گا۔ ایک اور مسئلہ اشیا کی سپلائی کا تھا۔ اس حوالے سے حالات خراب ہیں لیکن ایک مہربان کا تعلق محکمہ ایکسائز سے ہے‘ انہوں نے مہربانی کی اور وہ خطرہ جو سنگین نوعیت کا ہو سکتا تھا ٹل گیا۔
بھڑولے میں گندم کے دانے ہوں، سبزی کے لئے کچھ پیسے جیب میں ہوں، گھی اور مکھن یار دوست دے جاتے ہوں اور دوسری اشیا کی سپلائی بھی بحال ہو تو بتائیے کہ غمخوار اور کس چیز کی مانگ رکھ سکتا ہے؟ مرزا اسداللہ خان غالب نے ٹھیک کہا کہ رزق کا وعدہ اوپر سے ہے فکر اشیاء کی سپلائی کا ہونا چاہیے۔ ایسی قناعت سے ہی کام لینا چاہیے۔
ہمارا گاؤں کا گھر ایک کونے پہ ہے۔ باہر بیٹھیں تو دور دور تک کھیت نظر آتے ہیں۔ کچھ فاصلے پہ موٹروے ہے۔ چہل قدمی کرنے کو نکلیں تو بنگلے سے موٹروے تک راستے میں نہ کوئی آبادی نہ کوئی اورہلچل۔ شام ڈھلے ایک عجیب کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ہے بھی موسمِ بہار اور ہوا میں خنکی تو رہی نہیں۔ باہر بیٹھیں اور اسلوب شب پہ پورا اتر سکیں تو اور کیا رہ جاتا ہے۔
ایک کمی البتہ ضرور ہے کیونکہ لاہوراور اسلام آباد زیادہ آنا جانا رہا نہیں تو برہما چاری ہونے کی کیفیت وجود پہ اُتر چکی ہے۔ ملنا جلنا رہا نہیں تو ایسا ہی ہونا تھا۔ یہ کیفیت اس نامراد بیماری نے پیدا کردی ہے۔ باقی جو ہے سو ہے، بس ٹھیک ہے۔
گاؤں میں ٹِک کے جو بیٹھ رہے ہیں تو کھیتی باڑی پہ تھوڑا زیادہ دھیان جا رہا ہے۔ کئی کام جو کرنے کے تھے اور نہیں ہو پا رہے تھے اُنہیں اب کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ کئی اطراف باڑ لگانی تھی لیکن وقت ہاتھ نہیں آتا تھا، ایسے کاموں کی طرف اب توجہ جارہی ہے۔ کب سے سوچتے تھے کہ گائے بھینسیں اپنی رکھی جائیں۔ وقت نہ ہوتا یا کاہلی راستے میں حائل ہوجاتی۔ ایک ہی مشغلہ تھا خبروں کی دنیا کا اور چونکہ اخبار دیکھنے کو مل نہیں رہے تو وہ دنیا بھی ہمارے لئے بند ہوچکی۔ رہ گئے پیچھے دیہات کے معمولات، اس لئے کھیتی باڑی کی نسبت سے خیالی پلاؤ زیادہ پک رہے ہیں۔ اب ارادہ ہے کہ وہ جو سامنے کھیت کا کونہ ہے وہاں پہ گائے بھینسوں کیلئے کوئی مسکن بنایا جائے۔ دودھ ہم نے کتنا پینا ہے، دن میں ایک ڈیڑھ کلو دودھ سے کام چل جاتا ہے اور اب تک تو شیخ رشید کے اُس فارمولے پہ کاربند رہے کہ دودھ مل جائے تو بھینس رکھنے کی کیا ضرورت۔ لیکن اس فراغت کے موسم میں دھیان ان چیزوں کی طرف جا رہا ہے۔
ویسے بھی خیال آتا ہے کہ شہروں کو بہت دیکھ لیا۔ جو دن ہیں وہ یہاں گزارے جائیں۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے کالم وغیرہ بھیجنا کوئی پرابلم نہیں۔ ٹی وی پروگرام بھی اسلام آباد سے ہو جاتا ہے اور اسلام آباد کا فاصلہ گاؤں سے کچھ زیادہ نہیں۔ بنگلے سے نکلیں تو ایک گھنٹے میں یا کچھ اور منٹ زیادہ لے کر اسلام آباد پہنچا جا سکتاہے۔ یہاں ویسے بھی اب ہر چیزمل جاتی ہے۔ صرف برہما چاری والی بات رہ جاتی ہے۔ شہروں سے ناتہ اُسی وجہ سے رہے گا۔
کہنے کا مطلب یہ کہ دیہات میں اس بیماری کی وجہ سے پیدا شدہ اثرات کی شدت ایسی نہیں جیسے شہروں میں محسوس کی جاتی ہے۔ میڈیا پہ بھی زیادہ رونا دھونا شہروں کے حوالے سے ہوتاہے۔ میڈیا کا وہ دھیان دیہات کی زندگی پہ نہیں جو شہروں پہ ہے۔ پاکستان میں ہم وہ اسلوب اپنا نہیں سکے جو یورپ اورامریکا میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ وہاں بھی زندگی کا محور شہرہیں لیکن دیہاتی زندگی کی اپنی اہمیت ہے۔ انگلستان میں خود کو جو بڑے آدمی کہلاتے ہیں ویک اینڈ‘ یعنی ہفتے اتوار کو لندن میں نہیں رہتے۔ وہاں کے جو زمیندار قسم کے لوگ ہیں‘ اُن کے پرانے اور عالیشان گھر دیہات میں ہیں۔ میری اپنی حیثیت ایک بہت ہی چھوٹے زمیندار کی ہے۔ یوں سمجھیے برائے نام قسم کا زمیندار۔ ہمارے گاؤں میں بہت سے لوگوں کی ملکیت ہم سے زیادہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں جن کی حیثیت کچھ تھی بھی اُن میں سے بہتوں نے اپنے دیہاتی گھروں کو ویران کرکے شہروں کا رُخ کر لیا ۔ بڑے بڑے لینڈ لارڈوں کی پرانی حویلیاں دیکھیں تو خستہ حالت میں ہوں گی۔ یورپ اور امریکا میں ایسا نہیں۔ صدیوں پرانے دیہاتی گھر ہیں اور اب بھی آباد ہیں۔ وہاں تو یہ بڑی بات سمجھی جاتی ہے کہ شہر میں بھی اعلیٰ قسم کا ٹھکانہ ہے اور پھر دیہات میں بھی خاطر خواہ مسکن ہے۔ ایسی روایت یہاں پتہ نہیں کیوں پنپ نہ سکی۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ جس قسم کے فیوڈل حالات یورپ میں تھے برصغیر میں نہ تھے۔ مغلوں کے زمانے میں یورپ نما فیوڈل ازم یہاں پیدا نہیں ہوئی۔ جاگیرداروں کا وجود بادشاہوں کی خوشنودی کے مرہون منت ہوتا تھا۔ وہ زمانے تو گئے لیکن آج کے پاکستان میں موازنہ کیا جائے تو شہروں کی نسبت خوبصورتی اور آرام دیہات میں کہیں زیادہ نصیب ہو سکتا ہے۔