پاکستان

کورونا: کشمیر میں کووڈ 19 کے مریض بھیجنے سے متعلق انڈین الزامات ’بے بنیاد اور گمراہ کن‘

Share

پاکستان فوج نے ایک سینیئر انڈین جنرل کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کو ’بے بنیاد اور گمراہ کن‘ قرار دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کو اپنے زیرانتظام کشمیر بھیج رہا ہے اور سرحد کے قریب جمع کر رہا ہے۔

سرینگر میں تعینات انڈین آرمی کی 15 ویں کور کے کمانڈر لیفٹینینٹ جنرل بی ایس راجو نے یہ الزامات بی بی سی ہندی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عائد کیے تھے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے اس انٹرویو پر ردعمل منگل کی شب سوشل میڈیا پر تین ٹویٹس کی صورت میں دیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹوئٹر پر ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’انڈیا منصوبے کے تحت (کشمیر میں) نہ ختم ہونے والے تنازع سے مقامی اور عالمی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

فوج

آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی جانب سے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں کووڈ سے متاثرہ افراد کو بھیجنے کے الزامات ’گمراہ کن ہیں‘۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ’پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے ملٹری مبصرین (UNMOGIP) کو سیز فائر کے خلاف ورزیوں کا معائنہ کرنے کے لیے بھرپور رسائی دی ہے (بلکہ) ہم آئندہ بھی یہ سب انتہائی شفاف طریقے سے کرتے رہیں گے۔‘

آئی ایس پی آر کی ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’انڈین قیادت اپنی توجہ اندرونی خلفشار پر مرکوز رکھے جو نہ صرف کوڈ کے خلاف بدانتظامی‘ بلکہ سالہا سال سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری المیے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

سرینگر میں تعینات انڈین آرمی کی 15 ویں کور کے کمانڈر میں لیفٹینٹ جنرل بی ایس راجو

انڈین جنرل کی جانب سے پاکستان پر الزامات

انڈین جنرل نے بی بی سی کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ویسے تو تعیناتی کے حوالے سے پاکستان کے رویے میں کوئی اہم تبدیلی نظر نہیں آئی لیکن وہ یہ ضرور دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان سے دراندازی ہو رہی ہے اور ’پاکستان کووڈ 19 کے متاثرین کی زیادہ تعداد کو‘ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر بھیج رہا ہے۔

لیفٹینینٹ جنرل بی ایس راجو نے الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ’کووڈ 19 کے اس دور میں بھی پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس طرح کی حرکتیں جیسا کہ ملک میں دراندزی اور فائر بندی کی مخالفت کر رہا ہے جو کہ بہت شرمناک بات ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے اور ’حقیقت پسندی سے سوچنے کی ضرورت ہے‘ تاکہ ہم دونوں ملک کووڈ 19 کے خلاف اپنے اپنے طریقے سے کام کریں۔

پاکستان

اپنے انٹرویو میں جنرل راجو نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ’پاکستان تربیت یافتہ جنگجوؤں کو لائن آف کنٹرول کے پاس موجود بند جگہوں میں اپنے لانچ پیڈز میں رکھ کر رسک لے رہا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے شاید جو لوگ سرحد پار سے آئیں وہ اس وائرس کے کیریئر ہو سکتے ہیں اور اس وجہ سے وہ مستقبل میں شدت پسندوں کی لاشوں سے نمٹنے میں بھی محتاط رویہ اختیار کریں گے۔

جب انھیں کہا گیا کہ وہ اپنے اس الزام کی وضاحت کریں تو انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اطلاع ہے کہ پنجاب (پاکستانی) میں کووڈ 19 کے متاثرین کو ’دور دراز کے علاقوں میں بھیجا جا رہا ہے جہاں آبادی نسبتاً کم ہے اور قرنطینہ سینٹرز اس طرح کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں‘۔

فوج

جنرل راجو نے یہ بھی کہا تھا کہ کووڈ 19 کی وجہ سے ان کے آپریشن اور تعیناتی میں بھی چیلنجز آئے ہیں اور انھیں دو فرنٹ پر جنگ لڑنا پڑ رہی ہے اور جس کے لیے وہ تیار بھی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ان کے کمانڈ کے زون میں کووڈ 19 کا کوئی بھی کیس نہیں ہے۔

انھوں نے مزید بتایا تھا کہ ان کی کمانڈ میں 50 فیصد فوجی سڑکوں کے بنیادی ڈھانچوں سے کٹے ہوئے ہیں اور وہ سیلف سسٹیننگ یا اپنا بوجھ خود اٹھانے کے ’موڈ‘ میں ہیں اور اس لیے ’میں لائن آف کنٹرول پر اپنے فوجیوں کی تعیناتی سے مطمئن ہوں کیونکہ تکنیکی زبان میں ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہے اور جو واحد خطرہ ہے وہ ان سے ہے جو باہر سے آئیں گے۔‘