من حیث القوم ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم تقریباً ہر کام کر سکتے ہیں سوائے اُس کام کے جو ہمیں کرنے کے لیے باقاعدہ سونپا گیا ہو۔ ہمارے ہاں یہ پرانا المیہ ہے کہ جن لوگوں کو بولنا چاہیئے وہ خاموش ہیں اور جن کو چپ رہنا چاہیئے انہوں نے منہ کے ساتھ سپیکر باندھا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں تقریباً ہر سبزی فروش اور ہر ٹیکسی ڈرائیور ناصرف امور مملکت سمجھنے کا دعویٰ رکھتا ہے بلکہ وہ کھلے عام اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ ہمارا ہر حجّام ہمارے حکمرانوں کے لیے DOs اور DONTs متعیّن کرنے کی پید ا ئشی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔میں نے بال کٹواتے وقت استرے سے ”مسلّح“ کئی حجّاموں کو اپنی تصوراتی سیاسی پارٹی کا شاندار منشور پیش کرتے پایا ہے۔ اُن کے مطابق اگر حکومتی معاملات میں اُن کے قیمتی مشوروں کو دخل حاصل ہو تو عوامی خوشحالی کی مکمل گارنٹی ہے اور ایسی حکومت میں غریب سے غریب آدمی کی تنخواہ بھی کم از کم اڈھائی تین لاکھ روپے ہوگی۔ وہ داڈھی کا ’ خط‘ کرتے ہوئے گردن پر اُسترا رکھے جب یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں تو بندے کو اختلاف کی ”سہولت“ بھی میسر نہہیں ہوتی۔ حکومت پر تنقید یا اُس کی تعریف ہمارے ہاں اکثر موضوعِ بحث رہتی ہے۔ مملکت خدا وادکی ہر گلی محلہ اور ہر اڈّا ، کھوکھا ، ڈھابہ کسی ”ہائیڈ پارک“ کا منظر پیش کرتا رہتا ہے۔ اگلے دن مجھے گاڑی کا پنکچر لگوانے کے لیے ایک پنکچر والے کے پاس جانا پڑا۔ میں ان موصوف کے پاس اسی مقصد کے لیے پہلے بھی جاتا رہتا ہوں۔ہمارے نناوے فیصد عوام کی طرح سیاست ان موصوف کا بھی فیورٹ موضوع ہے۔ پنکچر لگانے کے دوران وہ مجھے وزیر اعظم صاحب کی کسی تقریر کا حوالہ دے رہے تھے ان صاحب کا خیال تھا کہ وہ تقریر ان کے معیار پر پوری نہیں اُترتی۔ پھر انہوں نے وہ تقریر کرنی شروع کی جو ان کے مطابق پرائم منسٹر صاحب کو کرنی چاہیئے تھی۔ اور کمال یہ تھا کہ اس دوران انہوں نے قومے اور فُل سٹاپ تک کا خیال رکھا۔ میں نے ان کی زبانی وزیر اعظم کے لیے مجوزہ تقریر سُنی اس دوران پنکچر لگ گیا۔ اُن کی تقریر کے دوران میں اُنہیں روک کر ایک بات کرنا چاہتا تھا لیکن مروتاً ایسا نہ کر سکا دراصل میں انہیں صرف یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ ٹائر پر جس جگہ وہ پنکچر لگا رہے ہیں اسی جگہ پر موصوف نے پہلے بھی دو تین بار پنکچر لگایا تھا لیکن وہ اُکھڑ جاتا ہے لیکن وہ چونکہ پرائم منسٹر کی تقریر میں سے غلطیاں نکالنے جیسے اہم کام میں مصروف تھے اس لیے میں بات نہیں کرسکا۔ ہمارے ہاں دوسروں کی چھابڑی میں ہاتھ مارنے کی عادت راسخ ہو چکی ہے۔ اگلے دن ہم اپنے ایک دور پار کے چچا کی عیادت کے لیے ہسپتال گئے۔ چچا موصوف جوڑوں کی شدید تکلیف میں مبتلا تھے اور گزشتہ کئی دنوں سے ہسپتال میں داخل تھے۔ میرے ساتھ میرا ایک دوست بھی تھا۔ عیادت کے دوران میرے دوست نے چچا کو بتایا کہ اس کے والد گرامی کو بھی جوڑوں کے درد وغیرہ کی شکایت رہتی ہے۔یہ سُن کر چچا بستر سے اُٹھے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر انہوں نے میرے دوست کو اس کے والد کی جوڑوں کی تکلیف کے لیے مکمل نُسخہ بتایا اور سو فیصد گارنٹی دی کہ اس نُسخے سے یقینی فائدہ ہو گا۔ اب بتایئے کہ بندہ ایسے موقعے پر اپنا سر وغیرہ نہ پیٹے تو اور کیا کرے۔ یقین جانیئے ہم اُن چچا جان سے بس مروتاً یہ نہیں پوچھ سکے کہ ایسے تیر بہدف نسخے کی موجودگی میں وہ خود جوڑوں کی تکلیف کے باعث ہسپتال کیوں داخل ہیں۔ اس ویک اینڈ پر ٹرین پر سفر کرتے ہوئے ساتھ بیٹھے ایک ریٹائرڈ پرائمری سکول ٹیچر صاحب سے گفتگو ہوئی۔اُن صاحب نے دوسرے جملے ہی سے وطنِ عزیز میں سائینس اور ٹیکنالوجی سے خاطر خواہ فائدہ نہ اُٹھائے جانے کا گِلہ شروع کر دیا۔ انہوں نے آج کی ڈیجیٹل ورلڈ میں پیچھے رہ جانے کے متعلق پوری قوم کے خوب لتّے لیے۔اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمالات اور فوائد پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ہم حسبِ عادت اُن کے آفاقی علم سے بہت متاثر ہوئے۔ پھر اچانک انہوں نے اپنی جیب سے” 3310 “ ٹائپ موبائل نکالا اور اگلی سیٹ پر موجود اپنے بھتیجے کو وہ موبائل دیتے ہوئے کسی بندے کو کوئی ضروری میسیج کرنے کا کہا۔ میں نے عرض کیا ”جناب! آپ خود یہ میسیج کیوں نہیں کر رہے“۔ وہ مسکرائے اور فرمانے لگے کہ وہ صرف کال سُن سکتے ہیں میسیج کرنے کا انہیں طریقہ نہیں آتا۔ پچھلے دنوں ایک گاوئں جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں کے ایک حاضر سروس پٹواری سے شرف ملاقات ملا۔ بھئی! کیا زیرک اور دانشمند انسان تھے وہ پٹواری صاحب۔ انہوں نے پہلے تو مختصر اور جامع گفتگو میں وطنِ عزیز کے تمام مسائل کا ناصرف احاطہ کیا بلکہ ان کا تفصیلی حل بھی پیش کیا۔ پھر اُن صاحب نے ہمارے ہاں ناپید ہوتی ہوئی اخلاقی قدروں اور بڑھتی ہوئی معاشرتی برائیوں پر سیر حاصل گفتگو فرمائی۔ فرما رہے تھے کہ نجانے ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم نے دوسروں کا خیال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ پھر میزبان زمیندار نے پُرتکلف کھانا پیش کیا تو پٹواری صاحب نے اپنی بے تحاشہ بڑھی ہوئی توند اور آس پاس موجود دیگر لوگوں کا خیال کیے بغیر کھانے سے مکمل” انصاف“ کیا۔ اس کے بعد وہ رخصت ہوئے تو اُن کے بعد کوئی آدھی درجن لوگ آئے جو بتا رہے تھے کہ یہ پٹواری صاحب پچھلے ایک ہفتے سے اُنہیں پکڑائی نہیں دے رہے اور مسلسل وعدہ خلافی کر رہے ہیں۔ زیرِ بحث موضوع کے حوالے سے ہمارے لبرل بھائیوں کا تذکرہ نہ کرنا قرینِ انصاف نہیں ہوگا۔ہمارے ان ماڈرن اور لبرل بھائیوں میں سے کئی ایک ایسے ہیں جنہیں بعض موضوعات کی کوئی مناسب شُد بُد نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود ان کی از حد کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان پرنہ صرف تفصیلی بحث کریں بلکہ دیگر لوگوں کی راہنمائی بھی کریں۔ ہمیں کئی دفعہ ان میں ایسے حضرات سے ملنے کا موقعہ ملا جنہوں نے کسی بھی دینی یا مذہبی کتاب کا مطالعہ تو درکنار اسے کبھی چھوا بھی نہیں ہو تالیکن وہ دینی مسائل پر اپنی رائے کسی سکہ بند عالمِ دین یا مُفتی کی طرح دے رہے ہوتے ہیں۔ ہم ان کی باتیں سنتے ہیں اور ہمیں حضرت اکبر الہ آبادی جیسے لاجواب صاحب مطالعہ اور ذی عقل شاعرکی بات یاد آتی ہے: مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں