وہ صوبہ پنجاب کی نئی حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے نئے وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار کی کابینہ میں سینیئر وزیر مقررر ہوئے۔ بلدیات کا قلمدان بھی انہیں سونپا گیا۔ ان دنوں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ ہی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے حقیقی وزیرِاعلٰی ہیں۔
چند ہی ماہ بعد عبدالعلیم خان کے لیے اب کچھ بدل گیا۔ احتساب کے ادارے نیب نے آمدن سے زائد اثاثہ جات بنانے کے الزام میں انہیں گرفتار کر لیا۔ علیم خان کو وزارت سے مستعفی ہونا پڑا۔
دو ماہ جیل میں گزارنے کے بعد وہ گذشتہ برس مئی کے مہینے میں ضمانت پر رہا ہو گئے تھے۔ تاہم علیم خان صوبے کے سیاسی منظرنامے سے اوجھل رہے اور جماعت کے معاملات میں بھی زیادہ نظر نہیں آئے۔
اب لگ بھگ ایک برس بعد عبدالعلیم خان کے لیے وقت ایک مرتبہ پھر بدلا ہے۔ وہ ایک مرتبہ پھر پنجاب کی کابینہ میں بطور وزیر واپس آ گئے ہیں۔ پیر کے روز انھوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدار بھی وہاں موجود تھے۔
کورونا کے خطرے نے دونوں کو ہاتھ نہیں ملانے دیا تاہم بصد احترام سینے پر ہاتھ رکھے حلف برداری کے بعد عثمان بزدار سے مبارک باد وصول کرتے ہوئے علیم خان کے چہرے پر پر اعتماد مسکراہٹ تھی۔
عبدالعلیم خان تجربہ کار سیاست دان ہیں اور پاکستان تحریکِ انصاف کے اندر اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ تو کیا ان کی واپسی اس بات کا اشارہ ہے کہ پنجاب کی کابینہ کو ان کے تجربے کی ضرورت تھی؟ اگر ایسا تھا تو ان کی ضمانت پر رہائی کے بعد دس ماہ تک انتظار کیوں کیا گیا؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ اب وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو عبدالعلیم خان کی ضرورت ہے جو گذشتہ دس ماہ میں محسوس نہیں ہوئی تھی؟
سیاسی مبصرین ان کی واپسی کو حالیہ واقعات کے تناظر میں دیکھتے ہیں جب چینی بحران کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ وزیرِاعظم عمران خان کے حکم پر منظرِ عام پر لائی گئی اور اس میں ان کے دیرینہ ساتھی جہانگیر ترین اور اتحادیوں کے نام مبینہ منافع خوری کے حوالے سے سامنے آئے۔
مبصرین کا استدلال ہے کہ اس رپورٹ کے سامنے لانے سے جہاں عمران خان کو سیاسی طور پر فائدہ ہوا وہیں نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ وہ جہانگیر ترین جیسا قریبی ساتھی کھو سکتے ہیں، اگر اب تک کھو نہیں چکے۔
صوبہ پنجاب میں ان کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الٰہی کا نام بھی تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا ہے جس کے بعد دونوں اتحادیوں میں خلیج بڑھ سکتی ہے۔ ق لیگ پہلے ہی وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدار کے طرزِ حکومت پر اعتراضات اٹھا چکی ہے۔
تاہم ان حالات میں پنجاب سے ایک اور خبر سامنے آئی۔ چند روز قبل مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر بھی گرم رہی ہے کہ عبدالعلیم خان کا ٹیلی فون پر حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ سے رابطہ ہوا تھا۔
‘علیم خان اور رانا ثنا اللہ کے درمیان رابطہ دھماکہ خیز خبر تھی’
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کے مطابق موجودہ حالات میں وزیرِاعظم عمران خان اور ان کے جماعت خصوصاً صوبہ پنجاب کے اندر عدم استحکام کے متحمل نہیں ہو سکتی۔ ان کے خیال میں علیم خان اور رانا ثنا اللہ کے درمیان رابطہ ‘ایک دھماکہ خیز خبر تھی۔’
علیم خان بعد ازاں اس خبر کی تردید کر چکے ہیں اور رانا ثنا اللہ کی جانب سے بھی کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان سیاست پر بات نہیں ہوئی۔
صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی جو کہ خصوصاً ن لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بابت ان کی رانا ثنا اللہ سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے علیم خان سے پرانے ذاتی تعلقات ہیں۔
‘ان کا کہنا تھا کہ ان کی علیم خان سے بات ضرور ہوئی تاہم اس کی نوعیت سیاسی نہیں تھی یا ان کے درمیان سیاست پر بات نہیں ہوئی۔’
تاہم تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کے مطابق اس خبر کے اثرات بہرحال مرتب ہوئے۔ پی ٹی آئی کے لیے پنجاب میں ایک مشکل صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔ میرے خیال میں عمران خان نے مناسب سمجھا کہ یہاں ان کی حکومت کا استحکام اسی میں ہو گا کہ یہاں وہ اپنی صفیں درست کر لیں۔’
علیم خان کے جانے سے پی ٹی آئی کو کیا نقصان ہو سکتا تھا؟
تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کے مطابق ‘علیم خان ایک معتبر اور فعال شخصیت ہیں۔ جماعت میں ان کے جڑیں گہری ہیں۔ کوئی دس سے بیس اراکین کا گروپ بنا لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے ان کے لیے۔ ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔’
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے لیے سب سے اہم اس وقت جماعت کے اندر استحکام ہے۔ پنجاب میں ان کی برتری بہت بڑی نہیں ہے۔
‘اگر ان کی جماعت کے اندر کوئی ایسا گروہ پیدا ہو جائے جو بغاوت پر آمادہ ہو تو پنجاب میں تو ان کا اقتدار باقی نہیں رہ سکتا اور اگر پنجاب میں اقتدار باقی نہ رہے تو وفاقی اقتدار بھی بے معنی ہو جاتا ہے۔’
صحافی اور تجزیہ نگار راشد رحمان کا کہنا تھا کہ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ جہانگیر ترین اور وزیرِاعظم عمران خان کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئی ہوں اور اسی وقت عبدالعلیم خان اور رانا ثنا اللہ کے رابطے کی خبر بھی سامنے آئے اور پھر علیم خان کابینہ میں واپس بھی آ جائیں۔
‘جہانگیر ترین کی موجودگی میں جماعت کو وسائل کی فراہمی کے حوالے سے بھی اور جماعت کے اندر بھی علیم خان کی حیثیت ثانوی تھی۔ اب ان کے دور ہونے کے صورت میں ہو سکتا ہے کہ علیم خان اشارہ دینا چاہتے ہوں اور اگر ایسا تھا تو اس میں وہ کامیاب ہوئے۔’
علیم خان کی کابینہ میں واپسی پر پی ٹی آئی کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
تجزیہ نگار اور صحافی راشد رحمان کے مطابق چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد اور جزبِ اختلاف کی جماعت کے ساتھ پی ٹی آئی اور اس کے بعد ان کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کی حالیہ ملاقاتوں کے بعد پی ٹی آئی خود کو غیر محفوظ تصور کر رہی ہو گی۔
‘اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد جس طرح جہانگیر ترین ایکسپوز ہوئے ہیں اور اس کے بعد جس طرح انہوں نے انکشافات کیے ہیں اس نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح جہانگیر ترین نے سنہ 2013 کے عام انتخابات کے حوالے سے انکشافات کیے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر انہیں چھیڑا گیا تو ان کے پاس بھی بہت کچھ ہے بتانے کو۔
‘ایسے میں پی ٹی آئی نہیں چاہے گی کہ جہانگیر بھی جائے اور علیم بھی جائے۔ اب وہ اپنے اثاثے جمع کر رہے ہیں۔’ ساتھ ہی تحریکِ انصاف کا انسدادِ کرپشن کا بیانہ گھوم گھما کر خود ان کے دہلیز پر آن پہنچا ہے۔
تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کے مطابق ‘علیم خان ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں اور جماعت کے ساتھ ان کا تعلق بھی پرانا ہے اس لیے وہ جماعت کے اندر اس وقت استحکام لانے کے حوالے سے کافی بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔’
کیا علیم خان ایک مرتبہ پھر ‘حقیقی وزیرِاعلٰی’ ہوں گے؟
بی بی سی کے ساتھ حکومت سنبھالنے کے چند روز کے اندر دیے گئے ایک انٹرویو میں علیم خان سے پوچھا گیا تھا کہ ان کے بارے میں ‘حقیقی وزیرِاعلٰی’ ہونے کا تاثر کیوں تو ان کا جواب تھا کہ ‘یہ تاثر غلط ہے۔’
تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے پاس کون کون سے اختیارات موجود تھے جو وزیرِاعلٰی کی طرف سے انہیں سونپے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ‘وزیرِ اعلیٰ نے مجھے کہا کہ آپ ہنڈرڈ ڈے پلان (سو دن کا پلان) مانیٹر کر لیں یا آپ یہ جو محکمے ہیں ان کو بلا کر ان کی کارکردگی چیک کر لیں یا یہ جو بیوٹیفیکیشن پراجیکٹ ہے یہ آپ کر لیں یا صاف ستھرا پنجاب جو ہے اس کی سر پرستی آپ کر لیں۔ تو یہ اختیارات تو مجھے وزیرِ اعلیٰ نے دیے ہیں، وہ مجھے نہ دیتے کسی اور کو دے دیتے۔’
تو کیا اب بھی عبدالعلیم خان کو اتنے ہی اختیارات حاصل ہوں گے خصوصاً اس وقت جب وہ اپنی شرائط پر کابینہ میں واپس آ رہے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا اس سے صوبائی حکومت کے کام کرنے میں بحران پیدا ہو سکتا ہے؟
‘عثمان بزدار کو کونے میں دھکیلنا آسان نہیں ہو گا’
تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کے مطابق اس کا انحصار اس پر ہو گا کہ وزیرِاعظم عمران خان کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ‘اگر وہ انہیں اتنی ڈھیل دیں گے تو ان کے اختیارات میں وسعت آ جائے گی اور اگر نہیں تو وہ اپنی حدود و قیود میں کام کریں گے۔’
ان کا کہنا تھا کہ پہلے کے برعکس وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدار بھی اب معاملات کو زیادہ سمجھنے لگے ہیں اس لیے ان کو ایک کونے میں دھکیلنا آسان نہیں ہو گا جب تک کہ عمران خان خود فیصلہ نہ کر لیں۔
صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمان ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عبدالعلیم خان کا اثر و رسوخ تو ضرور ہو گا لیکن وہ کتنا ہو گا اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ‘پی ٹی آئی اس بات سے بھی واقف ہو گی کہ ان کے خلاف نیب کا مقدمہ تو چل رہا ہے۔ اس کی وجہ سے آگے چل کر پھر ان کے لیے بحرانی کیفیت نہ پیدا ہو جائے۔’