پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے پاکستانی کرکٹرز کویقین دلایا ہے کہ ان کے مالی مفادات کا ہرممکن خیال رکھا جائے گا اور کسی قسم کی غیرمعمولی کٹوتی نہیں ہوگی۔
احسان مانی کا یہ مؤقف ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پوری دنیا میں کھیلوں کی سرگرمیاں کورونا وائرس کے سبب معطل ہیں اور متعدد ممالک میں سرکردہ فٹبال کلبوں کو مالی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے ان کلبوں نے اپنے آفیشلز اور کھلاڑیوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی تنخواہوں اور معاوضوں میں کٹوتی کو قبول کرلیں۔
چند فٹبالرز نے رضاکارانہ طور پر کٹوتی کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
احسان مانی نے منگل کے روز ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستانی کرکٹ میں کھلاڑی سب سے بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں اور وہ انھیں یقین دلاتے ہیں کہ جتنا بھی ممکن ہوا پاکستان کرکٹ بورڈ ان کا خیال رکھے گا اور کسی طرح کی غیرمعمولی کٹوتی نہیں کی جائے گی۔
جہاں تک پرفارمنس کی بنیاد پر جو کنٹریکٹ تبدیل ہوتے ہیں وہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ سلیکٹرز کا کام ہے کہ وہ بتائیں گے کہ کس کرکٹر کو کیسا کنٹریکٹ ملنا چاہیے۔
احسان مانی نے کہا کہ کرکٹرز کی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ کے عملے کا بھی خیال رکھا جائے گا اور معمول کے مطابق ہونے والی تبدیلیوں کے علاوہ کسی کو ملازمت سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا۔
جہاں تک معمول کی تبدیلیوں کا تعلق ہے تو وہ جاری ہیں کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے انتظامی ڈھانچے کو ازسرنو استوار کیا جارہا ہے۔
احسان مانی نے کہا ہے کہ جتنے بھی ریٹائرڈ انٹرنیشنل کرکٹرز ہیں انھیں پینشن مل رہی ہے، جو کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں ان کے کنٹریکٹ میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
احسان مانی کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کا اہم مقصد یہ ہے کہ کھلاڑیوں اور اپنے سٹاف کو تحفظ دیا جائے کیونکہ کھلاڑیوں اور سٹاف کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔
اگر کوئی سابق ٹیسٹ کرکٹر دباؤ کا شکار ہے تو وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے رابطہ کرے حالیہ برسوں میں ہم نے صحت کے مسائل سے دوچار کرکٹرز کی مالی مدد کی ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔
احسان مانی نے کہا ہے کہ اگر اخراجات میں کٹوتی کرنی پڑی تو وہ ضرور کی جائے گی۔
تجارتی معاہدے کا کیا بنے گا؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی دو طرفہ سیریز کے میڈیا حقوق کا معاہدہ سب سے اہم ہے۔
یہ کنٹریکٹ اس وقت ختم ہوچکا ہے اور اب سے لے کر 2023 تک کا جو عرصہ ہے اس میں آسٹریلیا نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کرنا ہے اس کے علاوہ جنوبی افریقہ سے بھی میچز ہیں لیکن اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ اسے کس طرح مارکیٹ کیا جائے۔
احسان مانی نے انگلینڈ کے براڈکاسٹرز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اس وقت تکلیف دہ صورتحال سے گزر رہے ہیں اور ان پر بھی کافی دباؤ ہے۔
سپورٹس انڈسٹری میں جتنے بھی براڈکاسٹرز ہیں وہ سب موجودہ صورتحال کی وجہ سے کافی معاشی دباؤ میں ہوں گے اور وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو جتنے پیسے پہلے دیا کرتے تھے وہ شاید نہ دے پائیں۔
اس صورتحال میں متبادل راستہ تلاش کرنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا جس کمپنی کے ساتھ سپانسرشپ معاہدہ ہے وہ بھی آئندہ سال ختم ہورہا ہے، تو ان تمام معاہدوں کی تجدید کے وقت پاکستان کرکٹ بورڈ اور سپانسر دونوں کو یقیناً یہ یقین دہانی درکار ہوگی کہ پاکستان میں کرکٹ دوبارہ کب شروع ہوگی اس سلسلے میں لچک دکھانی ہوگی۔
خالی سٹیڈیم میں کرکٹ مسئلے کا حل نہیں
احسان مانی کا کہنا ہے کہ خالی اسٹیڈیم میں کرکٹ موجودہ صورت حال کا حل نہیں ہے کیونکہ بات صرف خالی سٹیڈیم میں کھیلنے تک ہی محدود نہیں ہے۔
ٹیم کا فضائی سفر، مقامی ٹرانسپورٹ استعمال کرنا اور ہوٹلوں میں قیام یہ سب معاملات دیکھنے ہوں گے اور سب سے اہم بات یہ کہ کرکٹ دنیا میں کہاں ممکن ہوسکتی ہے یہ کسی کے بس میں نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں گے۔ اگر انگلینڈ کرکٹ بورڈ یہ درخواست کرے کہ آپ آکر ہم سے اس وقت کھیل لیں جب وہ کسی اور ملک کے ساتھ بھی کھیل رہے ہوں تو ایک جانب ٹیسٹ کرکٹ چل رہی ہو اور ساتھ ہی ساتھ محدود اوورز کی کرکٹ بھی چل رہی ہو تو یہ ممکن ہے۔
انڈیا پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا
احسان مانی کا کہنا ہے کہ انڈیا سے نہ کھیلنے کی صورت میں مالی نقصان یقیناً بہت ہوتا ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ اس بارے میں نہیں سوچ رہا ہے اور اس کی منصوبہ بندی اس انداز سے ہے کہ اگر نہیں ہے تو نہیں ہے۔
’اگر انڈیا نہیں کھیل رہا تو ہمیں اس کے بغیر بھی اپنی کرکٹ جاری رکھنی ہے۔ انڈیا پر آپ اس لیے بھروسہ نہیں کرسکتے کہ اس نے دو تین مرتبہ پاکستان سے کھیلنے کا وعدہ کیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا۔‘
’سیاست اور کھیل کو ہمیشہ الگ الگ رکھنا چاہیے۔‘