Site icon DUNYA PAKISTAN

تیل کے پرانے ٹینکروں کو دوبارہ استعمال میں کیسے لایا جائے؟

Share

جب آپ یہ پڑھ رہے ہوں گے تو اس وقت دس ہزار چار سو بیس دیو ہیکل بحری جہاز دنیا کے سمندروں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہوں گے۔ ان کے دھات کے بنے ہوئے وسیع ہل یا سانچے بے درد موسم اور ناہموار سمندروں کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے جا رہے ہوں گے۔

یہ دھات کے پہاڑ اپنے اندر کل ملا کے 3 اعشاریہ 8 ارب بیرل خام تیل رکھے ہوئے ہیں جو کہ چار لاکھ اٹھارہ ہزار ٹرانس ایٹلانٹک فلائٹس اور کاروں میں تین ارب میل سفر کرنے کے لیے کافی ہے۔ ان کا یہ کارگو اربوں پلاسٹک کے لفافوں، کنگھیوں، جوتوں، اور سینتھیٹک کپڑوں کا خام مال ہے۔

آئل ٹینکر کے علاوہ شاید بہت کم ہی بحری جہاز ہیں جو تیل کی ہماری پیاس کی بہتر نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کا شمار کرہِ ارض پر چلنے پھرنے والی حجم کے لحاظ سے بڑی ترین چیزوں میں ہوتا ہے جو کہ انسان نے خود بنائی ہوں۔ ان کے بغیر ہماری جدید زندگی ساکت ہو جائے گی۔ لیکن سمندروں میں اپنی مستقل کھنکھار کے ساتھ یہ سپر ٹینکر فضا میں اور کبھی کبھار پانی میں اپنی آلودگی کا گہرا دھواں بھی چھوڑتے رہتے ہیں۔

ایسی دنیا جہاں ماحولیاتی تبدیلی ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے، ہم مجبور ہو جائیں گے کہ ہم فوسل فیولز پر اپنا انحصار کم کر دیں، آئل ٹینکرز کی کم ہوتی طلب سے بھی نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ قابلِ تجدید توانائی (ری نیو ایبل انرجی)، بائو بیسڈ یا حیاتیاتی مواد سے بنائے ہوئے پلاسٹک اور دوسرے پائیدار مواد نے تیل پر ہمارا انحصار کم کر دیا تو پھر ہم ان جناتی جہازوں کا کیا کریں گے جو اب اسے دنیا میں لیے پھرتے ہیں۔

دوسرے بحری جہازوں کی طرح انھیں بھی سکریپ کے لیے بھیجا سکتا ہے۔ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان میں سے قابلِ قدر چیزیں نکال کر انھیں پگھلایا جا سکتا ہے تاکہ دوبارہ استعمال کیا جا سکے۔ لیکن جو افراد اس عمل کا حصہ ہوتے ہیں ان کے لیے یہ کام آلودگی سے بھرا، خطرناک اور انتہائی کم منافع بخش کام ہے اور عموماً یہ دنیا کے بہت ہی پسماندہ ممالک میں کیا جاتا ہے۔

لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تیل کے راج کے دور کے یہ آلودگی بھرے وسیع و عریض نمونے کسی اور کام بھی آ سکتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں قابلِ تجدید اور صاف توانائی کے ذرائع میں تبدیل کیا جائے۔ انجینیئرز سمجھتے ہیں کہ آئل ٹینکرز کے بڑے ڈھانچے کو پانی پر تیرتے ہوئے پاور سٹیشنز کے طور پر استعمال کیا جائے جو سمندر کے لہروں سے بجلی بنائیں۔ یہ دنیا کی پہلی ’ویو شپس‘ یا لہروں کے جہاز بنانے کا ایک بڑا حوصلہ مندانہ منصوبہ ہے۔

ویو شپ پراجیکٹ پر کام کرنے والی ایک کمپنی شپ ایکو میرین کے مینجنگ ڈائریکٹر اینڈریو ڈینر کہتے ہیں کہ ’لہروں سے توانائی بنانے والے زیادہ تر منصوبوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک جگہ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ وہاں ہوں جہاں بہتر لہریں ہیں۔ جہاز کے ساتھ آپ موبائل ہو جاتے ہیں اس لیے آپ کم دباؤ کے موسمیاتی نظام کے اس کنارے تک جا سکتے ہیں جہاں بڑی لہریں ہیں اور زیادہ توانائی ہے۔‘

سپر ٹینکر کو ایک ماحول دوست موبائل پاور سٹیشن میں تبدیل کرنے کے لیے تیل کی صنعت کے دوسرے شعبوں سے تحریک مل سکتی ہے۔ جب ڈینر جوان ہو رہے تھے تو انھوں نے ان سپورٹ ویسلز یا ان جہازوں پر بہت وقت گزارا جو تیل کے کنویں لگانے یا سمندر کے سطح پر پائپ لائنز کی مرمت کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ ان جہازوں کے ڈھانچوں کو کاٹ کر خاص چیمبرز بنائے ہوتے تھے، جنہیں ’مون پولز‘ یا چاند کے تالاب کہا جاتا تھا، جن سے تیراک اور پانی کے اندر جانے والی موٹروں کو سمندر کے اندر حفاظت سے اتارا جاتا تھا۔

متلاطم سمندروں میں جیسے جیسے پانی کی لہریں جہاز کی لمبائی کے ساتھ گزرتی ہیں تو ان مون پولز میں پانی اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سمندری پانی کے پول کے اوپر چیمبر میں ہوا کا دباؤ بدلتا ہے۔

قابلِ تجدید توانائی کے ایک انجینیئر فلورینٹ ٹیریئکس کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بڑے دیو قامت پسٹن کی طرح کام کرتا ہے۔ ہم چیمبر کے اوپر ایک ٹربائن لگا دیں گے جو ہوا کی مدد سے کام کرے گا جو کہ اس کے پانی کے اندر جانے اور باہر نکلنے سے پیدا ہو گی۔ ہم انھیں ستونوں میں تیل کے ٹینکروں کی طرح جہاز کی لمبائی کے ساتھ ساتھ ڈال سکتے ہیں۔‘

شاید جہاز کے پیندے میں سوراخ کوئی سمجھداری کا کام نہیں لگے لیکن ٹیریئکس کے کیے گئے ٹیسٹ سے یہ سامنے آیا ہے کہ تیل کے ٹینکروں کے پانی کو ادھر ادھر کرتے رہنے سے ایک بات ضرور ہوتی ہے کہ وہ تیرتے رہتے ہیں۔ جہاز کے ہل کے سائز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ٹیم کا خیال ہے کہ ایک عام ٹینکر 10 سے 30 میگا واٹس تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ٹیم کے مطابق ایک بہت بڑے ٹینکر میں 35 مون پولز ہو سکتے ہیں جن میں سے ہر کا قطر 20 میٹر ہو سکتا ہے۔

اس کام کو کرنے کے لیے جس ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے وہ کوئی آسان کام نہیں۔ سنہ 1970 میں جاپان میرین سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سینٹر نے کشتی نما پانی پر تیرنے والا لنگر تیار کیا جس میں ہل کو کاٹ کر پیندے کے بغیر 22 چیمبر بنائے گئے تھے جن کے اوپر ایئر ٹربائن لگے ہوئے تھے۔ لیکن اس جہاز پر کیے گئے تجربات سے سامنے آیا کہ اس کی لہروں سے توانائی جذب کرنے کی صلاحیت ’بڑی مایوس کن‘ تھی۔

حال ہی میں انجینیئرنگ کی فرم سیمنز نے زیادہ موثر ’ہائیڈرو ایئر‘ ٹربائن تیار کیا جو پانی سے بھرے ہوئے چیمبر میں ہوا کے آگے پیچھے حرکت کرنے سے بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ ایک اور کمپنی اوشین اینرجی نے دو لنگر تیار کیے جن میں وہی اصول استعمال کیا گیا جو اٹلانٹک اوشین میں ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔

کئی دوسری لہروں کے ذریعے توانائی پیدا کرنے والی مشینوں کی طرح یہ نظام بھی ان پلیٹ فارمز پر رکھے ہیں جو ایک جگہ پانی پر کھڑے ہیں اور اس لیے ان کے بجلی بنانے کا انحصار سمندر میں کسی خاص جگہ کے موسم پر ہوتا ہے جہاں بجلی بنانے کے لیے مناسب لہریں پیدا ہو سکتی ہوں۔ ویو اینرجی جنیریٹرز بھی اس قابل ہونے چاہیئں جو پیدا ہونے والی بجلی کو ساحل تک ٹرانسمٹ کر سکیں، اس لیے ان کا ساحل کے قریب ہونا ضروری ہے تاکہ ان کے ساتھ تاریں جوڑی جا سکیں۔

تاہم ڈیئنر اور ٹیریئکس کا خیال ہے کہ اس سے ویو پاور کی طاقت محدود ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جہازوں میں مون پولز کے اوپر حرکت کرتے ہوئے ایئر فلو ٹربائنز لگانے سے وہ طوفانوں کا پیچھا کر سکتے ہیں تاکہ انھیں اچھی لہریں ملیں۔

ٹیریئکس کہتے ہیں کہ ’اصل میں ہم’توانائی کی مچھلی‘ پکڑنے جا رہے ہیں۔ کھلے سمندروں میں جہاں بے روک ہوائیں بڑی لہریں پیدا کر سکتی ہیں، توانائی کی مقدار ساحلی علاقوں میں پیدا کی جانے والی توانائی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ’یہ ویو اینرجی سے بالکل مختلف نقطۂ نظر ہے۔‘

اس پراجیکٹ کی پہلے ہی برطانوی حکومت نے حمایت کر دی ہے اور کچھ فیزبیلیٹی سٹڈیز اور سکیل ٹیسٹوں کو فنڈ کیا ہے۔ ٹیریئکس کے مطابق ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی طاقت اور استحکام پر سودا کیے بغیر ٹینکروں میں مون پولز بنانے کے لیے انھیں بدلہ جا سکتا ہے۔

اگلا چیلنج ایک مناسب جہاز ڈھونڈنا ہے۔ سیکنڈ ہینڈ آئل ٹینکر سستے نہیں ہیں اور ایک پرانا اور نسبتاً چھوٹا جہاز بھی کھلی منڈی میں لاکھوں ڈالروں کا آتا ہے۔ لیکن ٹیم کا خیال ہے کہ ہوا بدل رہی ہے کیونکہ دنیا فوسل فیول کے استعمال سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

ٹیریئکس کہتے ہیں کہ اس وقت ہزاروں تیل کےً ٹینکر کام کر رہے ہیں اورہر سال سینکڑوں اپنی سروس لائف مکمل کر لیتے ہیں۔ ان کی ساری سٹیل کاٹ کر دوبارہ استعمال کی جا سکتی ہے یا ہم ان کو ویو اینرجی بنانے کے لیے دوبارہ کام میں لا سکتے ہیں۔‘

سنہ 2018 میں ریکارڈ آئل ٹینکر سکریپ کیے گئے، جن کی تعداد 100 سے بھی زیادہ تھی۔ ان کی اکثریت کا اختتام بنگلہ دیش، انڈیا اور پاکستان کے ساحلوں پہ ہوا جہاں غیر ہنرمند ورکرز نے انھیں ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ ان کے پاس اکثر کوئی مناسب آلات یا حفاظتی سامان نہیں ہوتا۔ اس خطرناک کام کرنے والے افراد کی متوقع عمر ان ممالک کے دوسرے افراد سے تقریباً 20 سال کم ہوتی ہے اور اس صنعت پر اکثر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگتا ہے۔ اس بات پر بھی تشویش کی جاتی ہے کہ جب ان جہازوں کو توڑا جاتا ہے تو ان سے زہریلا مادہ نکلتا ہے۔ اس لیے شپ پریکنگ انڈسٹری پر سخت ماحولیاتی قوانین لاگو کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔

ان جہازوں کو ویو شپ بنانا سکریپنگ سے کافی اچھا اور پرکشش متبادل نظر آتا ہے۔ برطانیہ کی توانائی اور ترقی کی وزیر کلیئر پیری کہتی ہیں کہ ’ان پرانے تیل کے ٹینکروں کو ایک ممکنہ توانائی کے ذریعے میں تبدیل کرنا، جو دنیا بھر میں لاکھوں ٹن گیلن لے کر جاتے تھے، ایک اور مثال ہے کہ برطانیہ صاف ترقی کے عالمی جھکاؤ میںصفِ اول پر ہے۔‘

لیکن ڈیئنر کی سوچ انھیں پاور سٹیشنز بنانے سے بہت آگے کی ہے۔ وہ بجلی پیدا کر کے استعمال کرنے والے ان بڑے جہازوں کو تیرتی ہوئی خود کفیل فیکٹروں کے طور پر دیکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جہاز پر ہی چیزیں بنانے کا سوچ رہے ہیں تاکہ بجلی کے لیے ہمارا کسی پاور گریڈ سے کوئی کنکشن نہ ہو۔ ہم تازہ پانی پیدا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں ہم یومیہ تقریباً 18000 سے لیکر 36000 ٹن کے درمیان پانی ساحل تک لا سکتے ہیں۔ ہم ہائیڈروجن اور لیکویڈ نائٹروجن بھی بنا سکتے ہیں جو بعد میں فیکٹریوں کو بیچی جا سکتی ہے۔

’لیکن اگر کوئی ویو شپ کے ڈیک پر چاکلیٹ فیکٹری بنانا چاہتا ہے تو ہم اسے بھی بنا رہے ہوں گے کیونکہ یہاں سے یہ پوری دنیا میں پہچائی جا رہی ہو گی۔‘

لیکن سبھی اس خیال سے متفق نہیں۔ یونورسٹی آف ایڈنبرا کے سرکردہ ویو اینرجی کے ماہر سٹیفن سالٹر کہتے ہیں کہ سمندر میں قدرتی لہروں سے بننے والی مختلف رفتار کی رینج کا مقابلہ کرنے میں شاید ایئر ٹربائنز کو مشکل پیش آئے۔ ان کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ چڑھتے سمندروں میں ایک ایسا تیل کا ٹینکر کتنا محفوظ ہو سکتا ہے جس کے پیندے میں سوراخ کیے ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سوراخ بنانے سے ذہنی دباؤ کی سطح میں تین گنا زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر ٹینکر کے ڈیزائنر نے اسے اچھے طریقے سے بنایا ہو تو پھر بہت زیادہ تبدیلیوں کی ضرورت پڑے گی۔ اگر کسی بھی جگہ سے کام ہلکا ہوا تو بہت زیادہ توانائی خارج ہو گی۔‘

لیکن دنیا کے ان مسترد شدہ آئل ٹینکرز کا متبادل استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ نیو یارک میں مقیم ایک آرٹسٹ نے حال ہی میں اس کے سرے پر 300 میٹر لمبی سپر مارکیٹ بنانے کی تجویز دی۔ انھوں نے تجویز کیا کہ اس کو عمودی شکل میں بندرگاہ پر اینکر کیا جائے تاکہ فاسل فیول کے خاتمے کی ضرورت اجاگر ہوتی رہے۔

ایک ڈچ گروپ نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ پرانے سپر ٹینکرز کو تیرتے ہوئے پبلک ولیجز (گاؤں) میں تبدیل کر دیا جائے جس کے سب سے اوپر کے ڈیک پر شاپنگ مال، کنسرٹ وینیوز، میوزیم، سوئمنگ پول اور پبلک پارک ہو۔ لیکن اس کا تصور پیش کرنے والی کرس کولارس فرم نے کہا ہے کہ انھیں ابھی تک کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اس تصور کو آگے بڑھا سکے۔

لیکن آئل ٹینکر کو اس طرح اینکر کرنا کہ اس پر ہزاروں لوگ آ جا سکیں ایک مشکل کام ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ ان لوہے اور سٹیل کے دیوہیکل جہازوں کو لوگوں کو سروسز مہیا کرنے کے لیے بنایا جائے نا کہ انہیں ایسی شکل دی جائے کہ لوگ یہاں ملاقاتیں کریں اور اکٹھے ہوں۔

ناروے کی ایک کمپنی اینوائرونور ایک ایسی ٹیکنالوجی بنا رہی ہے جو امید ہے کہ ان آئل ٹینکرز کو موبائل ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس میں تبدیل کر دے گی۔ اس کے بعد یہ آف شور ٹریٹمنٹ پلانٹ دنیا کے ان ممالک کو بھیج دیے جائیں گے جہاں پینے کے پانی کی بڑی قلت ہے۔ اگر ان تبدیل شدہ ٹینکرز کو ہوا کے فارمز کے ساتھ لنگر انداز کیا جائے تو یہ قابلِ تجدید توانائی کو استعمال میں لا کر سمندر کے پانی سے نمک نکال کر ساحلی شہروں کو پانی فراہم کر سکتے ہیں۔

لیکن پرانے تیل کے ٹینکروں کا سب سے عام استعمال دراصل سب سے حیران کن بھی ہے۔ اور وہ ہے انھیں وائلڈ لائف کی جنت بنانا۔ عام طور پر تیل کے ٹینکروں کو سمندری زندگی کو نقصان پہنچانے والے سمجھا جاتا ہے لیکن کم از کم 40 ایسے ٹینکر ہیں جنھیں جان بوجھ کر غرق کیا گیا تاکہ پانی کے نیچے مصنوئی ریفس یا مرجان بنائی جائیں۔

سپیشیز360 کی سائنس کی ڈائریکٹر ڈیلیا کونڈے کہتی ہیں کہ اگر ان کو مناسب طریقے سے صاف کیا جائے توآئل ٹینکرز میں پانی کے اندر چیزوں کو رکھنے کی بہت بڑی سطح ہوتی ہے اور ان کی عمر بھی بہت لمبی ہو گی۔ کونڈے نے حال ہی میں ایک ڈیٹا بیس تشکیل دیا ہے جس میں مصنوئی ریفس بنانے کے لیے جان بوجھ کر غرق کی جانے والے جہازوں کا حساب ہے۔

آیل ٹینکر کو صاف کرنا بھی ایک مہنگا کام ہے۔ جہاز میں اکٹھے ہونے والے تمام زہریلے مادوں کو صاف کرنے میں کئی لاکھ ڈالر خرچ ہو جاتے ہیں۔ لیکن 1985 سے لے کر اب تک 39 ٹینکرز امریکہ کی ساحلوں کے قریب اور ایک مالٹا کی ساحل کے قریب غرق کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ابھی زیادہ ریسرچ نہیں کی گئی کہ یہ جانا جا سکے کہ ان آئل ٹینکروں سے اس جگہ سمندر کے ماحول کو کیا نقصان پہنچا ہے جہاں انھیں ڈبویا گیا تھا۔

لیکن ان جگہوں پر سمندر میں جانے والے تیراکوں نے کچھ تیل کے ٹینکروں کو دیکھ کر بتایا ہے کہ وہاں سمندری حیات پنپ رہی ہے اور لابسٹرز، شیل فش، باراکوڈا اور شارکس وہاں آتی جاتی رہتی ہیں۔ 1991 میں اٹلی کے ساحل کے نزدیک تباہ ہونے والے آئل ٹینکر ہیون نے بھی اگرچہ 40 ہزار ٹن تیل سے سمندر کو آلودہ کیا تھا لیکن اس میں بھی اب طرح طرح کے سمندری جانور رہ رہے ہیں۔

کونڈے کہتی ہیں کہ یہ بڑا حیران کن ہے کہ ’مچھلیوں کو ماحول فراہم کرنے کے لیے کئی جہازوں کو جان بوجھ کر ڈبویا گیا۔ لیکن ہمیں ان جگہوں کی مناسب طریقے سے مانیٹرنگ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے سمندروں اور آب و ہوا میں جس بحران کا سامنا ہے، اس لیے یہ بہتر ہو گا کہ تیل کے ٹینکرز جیسے جہازوں کو کسی بہتر کام کے لیے استعمال کیا جائے۔‘

Exit mobile version