دنیا کے تقریباً تمام بڑے شہروں سے لاک ڈان کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی لاک ڈان کی وجہ سے زندگی ٹھپ پڑ گئی۔ ہر کوئی اسی خوف سے گھر میں بند ہے کہ کہیں اس کو کورونا وائرس یعنی کووڈ 19 نہ دبوچ لے۔ایشیا، یورپ مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں زندگی تھم سی گئی ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ زندگی بے معنی ہوگئی ہے۔ کئی ہفتے سے ان ممالک کے معروف، ترقی یافتہ اور بڑے شہر بے بس و مجبورہو کر کورونا وائرس کے خاتمے کی دعا مانگ رہے ہیں۔ تاہم ہندوستان واحد ایسا ملک ہے جہاں ہر ہفتے وزیر اعظم مودی ایک نیا آئٹم لے کر لوگوں کے درمیان آتے ہیں اور جس سے ہر ذی شعور انسان سش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پہلے ہندوستانی وزیر اعظم مودی نے تالی اور تھالی بجانے کو کہا اور لوگوں نے بھی بغیر سوچے سمجھے گھروں کی بالکونی سے تالی اور تھالی بجا کر خدا جانے کیا پیغام دینا چاہا۔ہاں اتنا ضرور ہوا کہ لوگوں نے تالی اور تھالی بجا کر کورونا سے خوف زدہ لوگوں کو مزید خوف زدہ کر دیا۔ پھررات کے نو بجے نو منٹ تک دیا جلانے کا اعلان ہوا۔ استغفراللہ!ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی ’بِگ بوس‘ کی طرح ہر ہفتے اپنے ملک کے خوف زدہ لوگوں کو ایک نیا آئیٹم پیش کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور بیچاری غلام عوام آنکھوں پر پٹی باندھ کر مودی کی بکواس پر عمل کئے جارہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ مرتا کیا نہ کرتا۔ ایک طرف جان کی پڑی تو دوسری طرف’اندھ وسواش‘ کا بول بالا، بیچارے لوگ جائیں تو کہاں جائیں۔
اس کے بر عکس برطانیہ میں بھی پچھلے دو جمعرات کو لوگوں نے تالیاں بجا کر ہیلتھ کئیر اسٹاف کی حوصلہ افزائی اور شکریہ ادا کیا۔ دراصل کچھ لوگوں نے برطانیہ کی این ایچ ایس(NHS-National Health Service)کے ڈاکٹر اور نرس کے علاوہ اسپتال کے ان تمام لوگوں، جو دن رات محنت کر کے کورونا سے متاثر مریضوں کی تیمارداری میں لگے ہوئے ہیں، کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک ترکیب نکالی اور پچھلے دو جمعرات کو لوگوں سے رات آٹھ بجے اپنے گھروں سے نکل کر تالی بجانے کی اپیل کی۔ یہاں یہ بھی بتا تا چلوں کہ خدا کا شکر ہے کہ برطانیہ کے عام لوگوں نے ہی اپنے طور پر لوگوں سے تالی بجانے کی اپیل کی نہ کہ برطانوی وزیراعظم بورِس جونسن نے یہ حکم نامہ جاری کیا۔ ویسے بھی برطانوی وزیراعظم بورِس جونسن ان دنوں کورونا وائرس سے بیمار ہو کر کمرے میں بند پڑے ہیں۔ تاہم بیمار ہونے کے باوجو انھوں نے ملک کے نظام کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں سنبھالے رکھا ہے۔ کورونا وائرس کے شکار ہونے سے قبل برطانوی وزیراعظم روزانہ اپنے سائنسی اورطبی صلاح کاروں کے ساتھ میڈیا کو خطاب کرتے تھے اور ان کے سوالات کا جواب بھی دیتے تھے۔ تاہم جب سے وہ بیمار ہوئے ہیں ان کی جگہ ہیلتھ سیکریٹری یا حکومت کے دوسرے وزیر میڈیا سے خطاب کر رہے ہیں۔ اس کے بر خلاف ہندوستانی وزیر اعظم لوگوں کے سامنے جواب دہ ہونے کے بجائے صرف قوم سے خطاب کرتے ہیں۔ اور جب بھی وہ خطاب کرنے کا اعلان کرتے ہیں عوام کے دلوں کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے کہ نہ جانے اب کون سا نیا فرمان صادر ہونے والا ہے اور ہوتا بھی وہی ہے۔
برطانیہ میں حکومت کئی باتوں کے لیے تنقید کا بھی نشانہ بنی ہوئی ہے۔ مثلاً کورونا وائرس کے چیک اپ کا انتظام دیر سے کرنا، لاک ڈان کا اعلان دیر سے کرنا اوراسپتال میں اسٹاف کے لیے آلہ اور خاص کپڑوں کے انتظام کی کمی وغیرہ ایسی باتیں ہیں جس پر حکومت جواب بھی دے رہی ہے، اپنی غلطی کو محسوس بھی کر رہی ہے اور ان چیزوں کا جنگی پیمانے پر انتظام بھی کر رہی ہے۔وہیں برطانیہ کی اپوزیشن پارٹیاں حکومت سے سوال کرنے اور اسے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی ہے لیکن اس سوال میں تخریب یا تضحیک کے بجائے تعمیرکا پہلو پوشیدہ ہے۔جس سے جمہوریت کی خوبصورتی اور اس کی اہمیت کی عمدہ مثال دیکھنے کو ملتی ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ میں 10فروری 2020کو The Health Protection (Coronavirus) Regulations 2020پاس کیا گیا۔ اس بل کے تحت ملک میں پانچ اہم باتوں کو قانونی طور پر فعال کیا گیا۔ جس میں ہیلتھ اور سوشل کئیر کے کام کرنے والوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔ مثال کے طور پر این ایچ ایس کے ریٹائرڈ اسٹاف کو دوبارہ کام پر واپس بلانا اور پیپر ورک کو کم کرنا، پولیس کو اختیار دینا کہ گروپ اور سماجی اجتماع نہ ہونے دے، مرے ہوئے لوگوں کی عزت اور وقار کے ساتھ آخری رسوم کو جلدادا کرنا، لوگوں کو امداد پہنچانا اور ضروری اشیاء، کھانے پینے کی سپلائی کو بحال رکھنا وغیرہ اہمیت کا حامل ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود لاک ڈان میں عام زندگی کافی متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ مثلاً زیادہ تر لوگوں کا گھر سے کام کرنا۔ بڑی بڑی کمپنیوں میں اسٹاف کی تنخواہ کا نہ ملنا۔ روازانہ مزدوری کرنے والوں کا کام کاج بند ہونے کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہونا۔ لاک ڈان سے جہاں ہر انسان متاثر ہے، وہیں دنیا بھر کے لوگ روزگار سے لے کر کھانے پینے کو بھی ترس رہے ہیں۔ جب ہم دنیا کے مختلف ممالک پر نطر ڈالتے ہیں تو کلیجہ منھ کو آجاتا ہے۔ خاص کر ہندوستان کے کئی صوبوں میں غریب انسان کو کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہے۔ حکومت کا کوئی نظام دیکھنے کو نہیں ملتاہے۔ وزیر اپنے گھروں میں بیٹھے عیش کر رہے ہیں اور ملک کا وزیر اعظم ہفتے میں ایک بار لوگوں کومضحکہ خیز کام کرنے کو کہہ کر ایک ہفتے کے لیے غائب ہوجاتا ہے۔
ان ہی باتوں میں الجھے اور پریشان لوگ طرح طرح سے اپنی اپنی باتیں لوگوں کو سوشل میڈیا پر شئیر کر رہے ہیں۔مثلاً مردوں کو کھانا بنانے کی ذمہ داری نبھانا تو کہیں بیوی کا بار بار اپنے شوہر پر غصّہ اتارنا۔ گویا کہ دنیا کا سارا نظام جو مرد اور عورت کے لیے قائم ہے وہ اب اپنی تباہی کے در پر پہنچ چکا ہے۔کمبخت اس کورونا نے جہاں لوگوں کو قیامت کی یاد دلا رہا ہے تو وہیں گھر میں بند میاں اور بیوی ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں۔ بیوی کی آزادی تو گئی بھاڑ میں اور شوہر بھی گھر پر رہ کر اس سوچ میں دبلا ہو رہا کہ کب کورونا کا خاتمہ ہو تاکہ وہ اپنی بیوی سے ایک بار پھر کچھ نجات پا سکے۔ بس مت پوچھیے دنیا بھر میں ہر کوئی کورونا سے تو خوفزدہ ہے ہی لیکن اب ایک نئی وباگھریلو زندگی میں پھیل گئی ہے جو شاید کرونا کے خاتمے کے بعد نہ جانے کتنوں کو برباد کر دے گی۔
برطانیہ میں گھروں میں بند ہونے کی وجہ سے انگریزوں پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی ہے۔گھریلو تشدد کافی بڑھ گئے ہیں اور بچوں پر جنسی حراساں کی رپورٹ بڑھتی جارہی ہے۔ بہت سارے لوگوں میں بے روزگاری اور ذہنی پریشانی کے باعث لوگ کثرت سے شراب پینے لگے ہیں جس سے گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ وہ گھریلو تشدد کے مجرموں کو کورونا کی وجہ سے نہیں بخشے گی۔پولیس نے ایک وقت میں صرف دو لوگوں کو گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے تا کہ وہ ورزش اور ضروری اشیاء خرید سکیں۔ تاہم کئی علاقوں میں فلیٹ میں رہنے والوں کے گھر کے قریب میں اکھٹا ہونے سے پولیس کو تشویش بھی ہو رہی ہے۔
ہماری زندگی پچھلے چار ہفتوں سے گھر میں بند ہونے کی وجہ سے بالکل بدل کر رہ گئی ہے۔ ہم صبح حسبِ معمول ناشتہ کر کے اپنے دفتر کے کاموں میں جُٹ جاتے ہیں۔ دوپہر لنچ کرنے کے بعد دوبارہ کام پر لگ جاتے ہیں۔ شام پانچ بجے کام ختم کر کے چہل قدمی کے لیے باہر نکلتے ہیں اور آدھے گھنٹے کی چہل قدمی کے بعد کھانا کھا کر بستر پر نڈھال ہو کر سو جاتے ہیں۔ سنیچر اور اتوار کو چھٹی ہونے کی وجہ سے گھر کی صفائی اور باغیچہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں جس سے وقت گزر جاتا ہے۔اس دوران پکوان کا بھی شوق سرچڑھ کر بول رہا ہے اور طرح طرح کے کھانے بنائے اور تجربے کئے جا رہے ہیں تاکہ ریسٹوران کے کھانے کو مِس نہ کر سکیں۔
اب اسے اخلاق سے گری ہوئی بات کہے یا اتفاق کہ مہمانوں کا آنا جانا بند ہوگیا ہے۔ سچ پوچھیے تو ہم پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ ہم تو اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ہمیں ان دنوں کسی کہ آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق ہی نظر نہیں آرہا۔ ہاں انٹر نیٹ کی مہربانی ضرور ہے کہ اس لاک ڈان میں دنیا بھر کے لوگوں سے رابطہ بحال ہے ورنہ ذرا سوچئے کہ اگر لاک ڈان ان دنوں ہوتا جب انٹر نیٹ کی کوئی سہولت نہ تھی۔ پھر تو نہ تالی بجتی، نہ تھالی پیٹا جاتا اور نہ وقت پر دیاجل پاتا۔
کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں لاک ڈان کر کے ہمیں گھروں میں مقید کر دیا ہے وہیں ہمیں زندگی، رشتے، ایمان، صبر، جیسے امتحان سے بھی گزناپڑ رہا ہے۔ایک ایسے امتحان سے جس میں خوف، دُکھ، پریشانی، بے بسی، سمجھداری وغیرہ نے لاک ڈان کی وجہ سے ہمارا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ لیکن ہم بھی اللہ کی ذات پر یقین رکھتے ہوئے صبر کا دامن نہیں چھوڑرہے ہیں۔ اس لیے انشاء اللہ اس امتحان سے بھی جلد گزر جائیں گے۔