پاکستان

آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے 1.386 ارب ڈالر کی منظوری

Share

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے کوویڈ 19 کی وبا سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو 1.386 ارب امریکی ڈالر کے قرضے دینے کی منظوری دی ہے۔ یہ منظوری آئی ایم ایف کے ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ کے تحت دی گئی ہے۔

آئی ایم ایف کے بورڈ نے 1015.5 ملین ایس ڈی آر کی منظوری دی ہے۔ ایس ڈی آر (سپیشل ڈائنگ رائٹس) آئی ایم ایف کی خصوصی کرنسی ہے جس کی قیمت دنیا کی پانچ بڑی کرنسیوں کی قیمت پر منحصر ہوتی ہے جن میں امریکہ ڈالر، برطانوی پاؤنڈ، یورو، چینی رنمنبی، اور جاپانی ین ہوتے ہیں۔

1015.5 ملین ایس ڈی آر تقریباً 1.386 ارب ڈالر بنتے ہیں اور یہ پاکستان کے کوٹے کا نصف ہے۔

اس موقعے پر آئی ایم ایف کے ایگزیکٹوو بورڈ کے ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر جعفری اوکاموٹو کا کہنا تھا کہ ’کووڈ 19 کی وبا کے پھیلنے سے پاکستانی معیشت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ داخلی طور پر پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات اور عالمی سطح پر مندی کی وجہ سے معیشت پر شدید اثر پڑ رہا ہے اور بیرونی قرضوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اسی وجہ سے ملک میں بیلنس آف پیمنٹ کراسز پیدا ہو گیا ہے۔‘

’اسی تناظر میں آئی ایم ایف نے یہ فائنینسنگ دی ہے تاکہ حکام کو صحت کے شعبے پر خرچ کرنے، معیشت میں بھروسہ لانے اور دیگر ڈونرز کی حمایت حاصل کرنے کی جگہ مل سکے۔‘

یاد رہے کہ حال ہی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے کمزور معیشتوں پراثرات کو مدّنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف اور اقوامِ متحدہ سے غریب ممالک کے لیے قرضے معاف کرنے کی اپیل کی تھی۔

گذشتہ روز وزارتِ خارجہ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف نے اس اپیل کی منظوری دے دی ہے، جس کے نتیجے میں ملنے والا قرضہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصان کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

پاکستانی معیشت کہاں کھڑی ہے؟

کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں اور اس کے ساتھ ملک میں بیرون سرمایہ کاری کی آمد بھی رک چکی ہے۔ سوائے روزمرہ اور سبزی و فروٹ کی دکانوں کے ہر کاروبار بند کر دیا گیا ہے۔

پاکستان سٹاک ایکسچنج میں رجسٹرڈ لارج سکیل مینوفیکچرنگ کمپنیوں میں سے 60 فیصد سے زائد کمپنیاں اس وقت مکمل بند ہیں اور باقی چالیس فیصد میں جزوی طور پر کام جاری ہے۔ مکمل طور پر بند کمپنیاں آٹو، ٹیکسٹائل، انجنیئرنگ، سیمنٹ، کیمیکلز وغیرہ کے شعبوں سے متعلق ہیں۔

ان حالات کی وجہ سے حکومتی ادارے بھی لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

پاکستان میں منصوبہ بندی کی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کروڑ سے زائد افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کہہ چکے ہیں کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں ایک خوفناک معاشی منظر نامہ جنم لے رہا ہے۔

ان کے تجزیے کے مطابق اگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حالات مزید خراب ہوتے ہیں اور حکومت موجودہ حکمت عملی پر کاربند رہتی ہے تو محتاط اندازے کے مطابق تیس سے پچاس لاکھ افراد کا روزگار داؤ پر لگ سکتا ہے۔

اگر لاک ڈاؤن کی مدت بڑھتی ہے اور اسے تین مہینے تک بڑھایا گیا تو یہ ایک کروڑ افراد کی ملازمتوں کو خطروں سے دوچار کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر پاشا کے مطابق کورونا وائرس کا پیدا کردہ معاشی بحران ملک میں تین شعبوں کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے جن میں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان میں بڑی اور درمیانی صنعتیں، ہول سیل و ریٹیل کاروبار اور ٹرانسپورٹ کے شعبے شامل ہیں۔