طاقت دینے والے نام نہاد مشروبات اور وِٹامن مصنوعات کو بھول جائیں، یہ اس جدید دور میں جادوئی ٹوٹکوں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں۔
سنہ 1918 میں وِکس ویپورب کے ایک اشتہار کی سرخی تھی ‘ہسپانوی انفلوئنزا کیا ہے اور اس کا علاج کیسے کیا جائے؟‘
اس کے نیچے لکھا تھا ‘خاموش رہیں‘ اور ’جلاب لیجیے‘ اور ہاں، ان کی دوائی کا استعمال کثرت سے کریں۔
سنہ 1918 کی عالمی وبا جدید تاریخ میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز وبا تھی جس نے پچاس کروڑ افراد کو (دنیا کی چوتھائی آبادی) متاثر کیا تھا اور دسیوں ہزار اموات ہوئیں۔
مگر بحران مواقع بھی پیدا کرتا ہے۔ اس وقت بھی عطائیوں کی چاندی ہوگئی تھی۔
وِکس ویپرب کے مقابلے میں نام نہاد میلرس اینٹی سیپٹک سینک آئل، ڈاکٹر بیل پائن ٹار ہنی اور ایسی ہی دوسری نام نہاد ادویاتی مصنوعات کھڑی ہوگئیں۔ ان کے اشتہارات تواتر سے اخبارات میں شائع ہونے لگے۔
آج 2020 میں آئیں، لگتا نہیں زیادہ کچھ بدلا ہے۔ اگرچہ کووِڈ19 اور ہسپانوی فلو کا زمانہ مختلف ہے کیونکہ ایک صدی کے عرصے میں بہت سی سائنسی ایجادات ہو چکی ہیں، مگر اب بھی عطائی نسخے اور ٹوٹکے اسی طرح سے گردش میں ہیں جیسے تب تھے۔ بس فرق یہ ہے کہ اب وہ اس اعلان کے ساتھ مارکیٹ کیے جا رہے ہیں کہ یہ آپ کے جسم کا مدافعتی نظام بہتر بناتے ہیں۔
ان میں سب سے زیادہ عجیب و غریب ٹوٹکا جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے وہ یہ کہ زیادہ مشت زنی سے خون میں شامل سفید خلیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف غذائیں کھانے سے متعلق مشوروں کا تو کوئی شمار نہیں ہے۔
لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایسی غذائیں کھائیں جن میں اینٹی آکسیڈینٹس (بدن میں توڑ پھوڑ کے عمل کی رفتار کم کرنے والے مرکبات) اور وٹامن سی کی مقدار زیادہ ہو (سنہ 1918 میں لوگوں کو پیاز کھانے کی ترغیب دی گئی تھی)، پھر بہت سے خود ساختہ ماہرین نئی نئی مصنوعات بھی متعارف کروا رہے ہیں۔
ایک ایسے ہی عطائی کا دعوٰی ہے کہ پسی ہوئی لال مرچ اور سبز چائے کا محلول کووِڈ19 کے خلاف ماسک کے مقابلے میں زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اِمیونیٹی یا جسم کے مدافعتی نظام میں اضافے جیسی کوئی شہ نہیں ہے
بدقسمتی سے یہ خیال کہ گولیاں، خاص قسم کی اعلیٰ خوراک اور تندرست عادات جسم کے مدافعتی نظام کو بہتر کرتی ہیں محض ایک مفروضہ ہے۔ مدافعتی نظام بڑھانے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔
امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں اِمیونولوجِسٹ (مدافعتی نظام کے ماہر) اکیِکو اِواساکی کہتی ہیں ’امیونیٹی کے تین حصے ہیں۔ اس میں ہماری جلد، سانس کی نالیاں اور بلغمی جھلیاں شامل ہیں جو بیماریوں کے خلاف ہمیں تحفظ دیتی ہیں۔
لیکن اگر وائرس ان سے گزر کر بدن میں داخل ہو جائے تو پھر ہمارا اندرونی دفاعی نظام حرکت میں آتا ہے (اس میں مختلف کیمیائی مادے اور خلیے جراثیم سے لڑتے ہیں)۔ اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو پھر ہمارا مطابقت پیدا کرنے والا مدافعتی نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔’
اس مرحلے پر خاص قسم کے خیلے اور پروٹین (لحمیے)، جنھیں اینٹی باڈیز کہا جاتا ہے، بننے لگتے ہیں۔ اس عمل میں چند روز سے لے کر چند ہفتے تک لگ جاتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ مدافعتی نظام چند مخصوص جراثیم کو ہی نشانہ بنا سکتا ہے۔ اِواساکی کہتی ہیں، ’مثلاً کووِڈ19 کو نشانہ بنانے والا ٹی سیل فلو کے وائرس یا دوسرے جراثیم پر حملہ آور نہیں ہوگا۔‘
زیادہ تر امراض میں مدافعتی نظام بالآخر حرکت میں آ ہی جاتا ہے۔ مگر اسے حرکت میں لانے کا ایک دوسرا طریقہ ویکسینیش یا حفاظتی ٹیکے ہیں۔
مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کا مطلب یہ ہوا کہ بدن کے ردعمل کی صلاحیت کو بڑھا دیا جائے۔ اصل میں آپ ایسا نہیں کرنا چاہیں گے۔
عام نزلے زکام کو لیجیے۔ اس میں بدن میں درد، بخار، دماغی غبار، بلغم کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ علامات کسی وائرس کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتیں۔ بلکہ یہ وائرس کے مقابلے میں بدن کے اپنے دفاعی نظام کے حرکت میں آ جانے سے پیدا ہوتی ہیں۔
اس معاملے میں بلغم جراثیم کو خارج کرنے میں مدد دیتا ہے، بخاز آپ کے جسم کو جراثیم کے لیے غیر آرام دہ بنا دیتا ہے اور جراثیم اپنی تعداد نہیں بڑھا پاتے، اور درد اور کمزوری ان سوزشی کیمیائی مادوں کی وجہ سے محسوس ہوتی ہے جو ہماری رگوں میں گردش کرکے مدافعتی خلیوں کو پیغام دیتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے۔ (یہ علامات ہمارے دماغ کو بھی پیغام دیتی ہیں کہ اب آرام اور بدن کو بحال کرنے کا وقت ہے۔)
بلغم اور کیمیائی پیغامات سوزش کا حصہ ہیں جو کسی بھی صحت مند مدافعتی نظام کے ردعمل کی کنجی ہے۔ چونکہ یہ انتہائی تھکا دینے والا عمل ہے اس لیے آپ نہیں چاہیں گے اسے ہر وقت حرکت میں لایا جائے۔
اور پھر کووِڈ19 سمیت تمام وائرس اسے خود ہی حرکت میں لے آتے ہیں۔ اس لیے اگر بازاری ٹوٹکے واقعی مدافعتی نظام میں اضافے کرنے والے ہوئے تو وہ آپ کو ہشاش بشاش نہیں کریں گے بلکہ آپ ہر وقت سُڑ سُڑ کرتے پھریں گے۔
یہ ایک اور تماشا ہے کہ ‘مدافعتی نظام بڑھانے’ والی تمام مصنوعات کا یہ بھی دعوٰی ہے کہ وہ سوزش کو کم کرتی ہیں۔ جس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ اضافے کے بجائے اسے دباتی ہیں۔
مدافعتی نظام اگر زیادہ دیر تک حرکت میں رہے تو انتہائی ناخوشگوار ہوتا ہے۔ مثلاً بعض لوگوں میں پولن (زرگل) یا گرد سے الرجی یا حساسیت پائی جاتی ہے۔
حالانکہ یہ جسم کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہیں۔ مگر پھر بھی ہمارا مدافعتی نظام خود بخود سرگرم ہو جاتا ہے۔ نتیجاتاً چھینکوں، آنکھوں میں خارش اور بدن میں ضعف کی صورت میں نکلتا ہے۔
اِواساکی کہتی ہیں ‘مشکل یہ ہے کہ ان دعوؤں (مدافعتی نظام کو بڑھانے والے) کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔’
اگر آپ تندرست ہیں تو وٹامن ڈی کے سوا تمام مصنوعی وٹامنز کو بھول جائیں
ملٹی وٹامنز بنانے والے دعوٰی کرتے ہیں کہ ان سے مدافعتی نظام کو تقویت ملتی ہیں۔ بی بی سی فیوچر نے 2016 میں رپورٹ کیا تھا کہ وٹامن کی اضافی خوراک سے تندرست افراد کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ بعض لوگوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔
وٹامن سی کی مثال لیجیے۔ جب سے دو مرتبہ نوبیل انعام جیتے والے لیِنس پالنگ نے اعلان کیا کہ وہ زکام سے بچنے کے لیے اٹھارہ ہزار ملی گرام وٹامن سی روز کھاتے ہیں تو اس وٹامن کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا۔ یہ تجویزکردہ خوراک سے تین سو گنا زیادہ ہے۔
حالانکہ وٹامن سی کی زکام اور سانس کی دوسری بیماریوں کے خلاف لڑنے کی اس بے پناہ شہرت کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔
بعض ماہرین تو وٹامن سی کی فروخت کو کاروباری بد دیانتی قرار دیتے ہیں۔ خاص طور سے ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں لوگوں کو وافر مقدار میں خوراک میسر ہے۔
اگرچہ خیال کیا جاتا ہے کہ 15ویں اور 18ویں صدی میں سکروی (وٹامن سی کی کمی) سے بیس لاکھ سیلرز (بحری جہاز کے کارکن) اور بحری قزاق ہلاک ہوگئے تھے، مگر اب یہ تعداد بہت ہی کم ہے۔ مثلاً سنہ 2016 اور 2017 میں انگلستان میں صرف 128 افراد کو اس بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس وٹامن سی کی زیادہ خوراک گردے کی پتھری کا باعث ہو سکتی ہے۔
اِواساکی کا کہنا ہے کہ ‘وٹامن کی اضافی خوراک آپ کے مدافعتی نظام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی تاوقت کہ آپ میں ان وٹامنز کی کمی ہو۔’
ترقی یافتہ ملکوں میں لوگوں کو وٹامن ڈی کے سوا اپنی غذا سے ہی کافی مقدار میں وٹامنز مل جاتے ہیں (البتہ سبزی خوروں میں کچھ کمی رہ جاتی ہے)۔ اِواساکی کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی کی اضافی خوراک فائدہ مند ہے۔
کئی تحقیقات کے دوران وٹامن ڈی کی کم سطح، سانس کے امراض اور شدید علامات کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے۔
مگر وٹامن ڈی کی کمی کئی ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ 2012 کے ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک ارب لوگوں میں اس وٹامن کی کمی پائی جاتی ہے۔ اور جب زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کہا جائے کہ وہ گھروں کے اندر رہیں تو اس کا اثر ان کے جسموں میں وٹامن ڈی کی سطح پر بھی پڑے گا۔
مشت زنی کا کوئی فائدہ نہیں
تاریخی طور پر مغربی طرزِ علاج میں اس جنسی فعل کو گہرے شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اٹھارویں صدی کے ایک ڈاکٹر کے اس دعوے کے بعد کہ ایک اونس (28 ملی لیٹر) کے برابر مادہ منویہ کے اخراج کا مطلب 40 اونس (تقریباً سوا لیٹر) خون کے ضائع ہونے کے برابر ہے، مشت زنی کو سینکڑوں برس تک بہت سے جسمانی مسائل کا ذمہ دار سمجھا جاتا رہا۔
اب یہ تصور بالکل الٹ گیا ہے اور جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مشت زنی سے صحت کو فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے۔ مثلاً یہ مردوں کی مادہ منویہ میں نطفوں کی صحت کو بہتر کرتی ہے اور انھیں پراسٹیٹ لاحق ہونے کے احتمال کو کم کرتی ہے۔
مگر افسوس کہ اس فعل کے ذریعے قوت مدافعت کو بڑھانے اور کووِڈ 19 سے بچانے جیسے دعوے بے بنیاد ہیں۔
اگرچہ ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بعض مردوں میں شہوت کے دوران اور انزال کے وقت سفید خلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسی کوئی شہادت نہیں کہ اس سے بیماریوں کے خلاف تحفظ ملتا ہے۔
البتہ اس کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ یہ آپ کو دوسرے لوگوں سے دور رکھ کر تحفظ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ نیویارک سٹی ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ مینٹل ہائجین نے حال ہی میں ایک ٹویٹ میں کہا کہ کووِڈ19 کے اس دور میں ‘آپ خود اپنے محفوظ ترین جنسی ساتھی ہیں’۔
اینٹی آکسیڈینٹس گولیاں ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں
کیا اینٹی آکسیڈینٹس (بدن میں توڑ پھوڑ کے عمل کو روکنے والے مرکبات) ناس مرض کے خلاف کارگر ہو سکتے ہیں؟ یہ معاملہ کچھ پچیدہ ہے۔
سوزش پیدا کرنے کے عمل میں خون کے سفید خلیے آکسیجن کے زہریلے مرکبات خارج کرتے ہیں۔ یہ دو دہاری تلوار کی مانند ہے۔ ایک طرف تو یہ وائرس اور بیکٹریا کو ہلاک کرتے ہیں اور ان کی تعداد کو بڑھنے سے روکتے ہیں۔
دوسری جانب وہ تندرست خلیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں جو کینسر اور عمر رسیدگی کا باعث، اور مدافعتی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث ہے۔
اس عمل کو روکنے کے لیے جسم اینٹی آکسیڈینٹس پر انحصار کرتا ہے جو ان آکسیجن کے بے لگام مرکبات کو قابو میں رکھ کر جسم کے خلیوں کو محفوظ بناتے ہیں۔
بعض اینٹی آکسیڈینٹس ہمیں خوراک سے مل جاتے ہیں جو تیز رنگ والے پھلوں، ترکاریوں اور مصالحوں، مثلاً گاجر، بینگن، ہلدی وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ ان رنگوں میں چمک اینٹی آکسیڈینٹس کی وجہ سے ہوتی ہے۔
کووِڈ 19 کے علاج میں اینٹی آکسیڈینٹس کا کردار جاننے کے لیے اس وقت بعض مریضوں کو ان کی اضافی خوراک آزمائشی طور پر دینے کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔
البتہ یہ کووِڈ 19 کے سینکڑوں دوسرے زیرِ آزمائش ممکنہ علاجوں میں سے ایک ہے۔ البتہ اب تک کسی بھی تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ اینٹی آکسیڈینٹس کی اضافی خوراک مدافعتی نظام کو تقویت دیتی ہے یا وائرس کے پھیلاؤ کو روکتی ہے۔
پروبایوٹِکس مددگار ہو سکتے ہیں، اور نہیں بھی
پروبایوٹِکس یا خرد نامیے وہ انتہائی چھوٹے جراثیم ہیں جو ایک خلیے پر مشتمل ہوتے ہیں اور انسانی جسم کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اور کھانے، مشروبات اور گولیوں میں ان کی اضافی مقدار مصنوعی طور پر شامل کی جاتی ہے۔ مگر پروبایوٹِکس کی افادیت خاصی مبہم ہے۔
سنہ 2015 میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ پروبایوٹِکس ان کے استعمال سے لوگوں میں بالائی تنفسی نظام کے امراض میں کمی واقع ہوئی تھی اور ان کی علامات کی شدت بھی کم تھی۔ ان کی وجہ اینٹی بایوٹِکس کے استعمال میں بھی کمی آگئی تھی۔ تاہم اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں نے ان شہادتوں کو معیاری نہیں سمجھا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ کووِڈ19 کے علاج میں پروبایوٹِکس کی افادیت کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔
تو کیا کوئی چیز کارگر بھی ثابت ہوئی ہے؟
اِواساکی کہتی ہیں کہ ان تمام مفروضوں میں سے اکثر بے ضرر ہیں، مگر خطرہ یہ ہے کہ اگر ان پر یقین کر لیا جائے تو آپ کو تحفظ کا جھوٹا احساس دے سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ‘میں خبردار کرتی ہوں کہ جب لوگ خود کو محفوظ سمجھنے لگیں تو انھیں احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر محفلیں نہیں سجانی چاہییں۔’
صحت افزا مصنوعات سے ہٹ کر کچھ ایسی تدابیر ہیں جو مدافعتی نظام کو بہتر بنانے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔ یہ زیادہ پرکشش نہیں ہیں اور نہ ہی بہت سے عطائی انھیں فروخت کرتے ملیں گے۔ البتہ ان کی افادیت مسلمہ ہے۔ اور ان پر دولت لوٹانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں کافی نیند، ورزش، متوازن غذا اور کسی طرح کا دباؤ نہ لینا شامل ہے۔
اس کے علاوہ جراثیم سے بچنے کے لیے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے کا ایک ہی یقینی راستہ ہے اور وہ ہے ویکسینیشن یا حفاظتی ٹیکے۔