وزیراعظم بمقابلہ وزیراعلیٰ سندھ
’’جناب آپ نے اجلاس تو بلا لیا ہے مگر یہ اجلاس غیر قانونی ہے‘‘ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ یہ کہتے ہوئے وزیراعظم عمران خان سے مخاطب ہوئے تو اجلاس میں شریک باقی افراد انہیں حیرت سے دیکھنے لگے۔ یہ 25اکتوبر 2018کی بات ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ملک میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے اسلام آباد میں اجلاس طلب کر رکھا تھا جس میں وزیراعلیٰ سندھ نے آکر اجلاس کی قانونی حیثیت کے حوالے سے ایک نیا نکتہ اٹھا دیا۔
مراد علی شاہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جناب پانی کا معاملہ آئینی اور قانونی طور پر مشترکہ مفادات کونسل میں ہی طے ہو سکتا ہے اور اس پر بات بھی وہیں ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم نے سارے معاملے کو قانونی حوالے سے دیکھا تو انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ مراد علی شاہ درست کہہ رہے ہیں۔
اجلاس میں وزیراعظم کے دائیں جانب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ساتھ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال، گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم آزاد کشمیر بیٹھے تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کسی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔وزیراعظم کی بائیں جانب وفاقی وزرا اسد عمر، خسرو بختیار، عمر ایوب، فیصل واوڈا اور دیگر موجود تھے۔
ایسے اجلاسوں میں عام طور پر علیک سلیک کے بعد بڑی رسمی نوعیت کی گفتگو ہوتی ہے جس میں تمام لوگ جی جی کرکے بات کرتے ہیں۔ وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملا کر اجلاس کا ایجنڈا ختم کر دیا جاتا ہے مگر یہ اجلاس منفرد تھا۔ وزیراعظم اور حکومتی شخصیات بادلِ نخواستہ وزیراعلیٰ سندھ کی باتیں سننے پر مجبور تھے۔
مراد علی شاہ نے اپنے نکات پیش کیے اور وزیراعظم سے کہا کہ چونکہ آپ نے یہ اجلاس بلا لیا ہے لہٰذا ایجنڈا ضرور مکمل کرلیں تاکہ معاملات آگے بڑھیں۔
اجلاس آگے بڑھا تو ایجنڈے کے مطابق چیئرمین واپڈا نے وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی کے ہمراہ ملک میں پانی کی اسٹوریج اور بجلی کی تقسیم پر اجلاس کے شرکا کو بریفنگ دی اور کچھ اعداد و شمار پیش کیے۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے اپنا آئی پیڈ نکالا اور ایک بار پھر وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ چیئرمین واپڈا اور سیکرٹری پانی و بجلی کی طرف سے پیش کیے گئے اعداد و شمار غلط ہیں۔
انہوں نے اپنے آئی پیڈ کی مدد سے اپنے اعداد و شمار پیش کیے تو اجلاس کے شرکا ایک بار پھر حیرت میں مبتلا ہو گئے کیونکہ اجلاس میں مراد علی شاہ ہی وہ واحد عہدیدار تھے جو اپنی مکمل ان پٹ دے رہے تھے۔
اس واقعہ کو ذہن میں رکھ کر اگر غور کیا جائے تو اس وقت عمران خان ملک کے وزیراعظم تو ہیں مگر ان کے پاس حکومت چلانے کا براہِ راست کوئی تجربہ نہیں۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی اپنی اب تک کی سیاسی زندگی میں پہلی بار ہی ایم پی اے بن کر وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر براجمان ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان پہلی بار سال 2013میں رکن صوبائی اسمبلی بنے۔ انہیں صوبائی وزارت چلانے کا مختصر تجربہ ہے جبکہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال سال 2013میں پہلی بار ایم این اے اور پھر وزیر مملکت بنے اور اب وہ صوبائی وزارتِ اعلیٰ چلا رہے ہیں۔
ان سب کے مقابلے میں سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ 2002ء میں پہلی بار جام شورو کی نشست سے ایم پی اے بنے۔ انہیں 2008سے 2016تک وزارتِ خزانہ اور محکمہ آبپاشی سمیت اہم وزارتیں چلانے کا تجربہ ہے۔ اب وہ دوسری بار وزارتِ اعلیٰ چلا رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی میڈیا کی طرف سے ہمیشہ ہی تنقید کی زد میں رہی ہے۔ اس میں میڈیا کی نہیں خود پیپلز پارٹی کی بھی بہت سی غلطیاں ہیں۔ پارٹی کی مختلف حکومتوں کے طرزِ حکمرانی اور بعض معاملات میں کرپشن کی داستانیں میڈیا کو نکتہ چینی پر مجبورکرتی رہیں لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہوگئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سندھ سے بیٹھ کر پورے ملک کوبہتر گورننس میں لیڈ کررہے ہیں۔
کورونا بحران کو ہی لیجیے۔ سندھ میں 26فروری کو کورونا کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تو اگلے ہی روز وزیراعلیٰ نے اجلاس بلایا اور ایک ٹاسک فورس تشکیل دیدی اور خود اس کی نگرانی کرنے لگے۔
مراد علی شاہ کورونا بحران سے نمٹنے کے لیے سرکاری ہی نہیں ذاتی حیثیت میں بھی سب سے زیادہ متحرک ہیں کیونکہ حال ہی میں ان کے بہنوئی بھی اسی وبا کا شکار ہو کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔
مارچ کے دوسرے ہفتے میں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت کورونا بحران پر اجلاس ہوا تو مراد علی شاہ نے فوری طور پر ملک بھر میں لاک ڈائون کا مشورہ دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے مشورہ رد کردیا لیکن چند ہی روز بعد 23 مارچ کو ملک بھر میں لاک ڈائون کرکے بالآخر مراد علی شاہ کی بات ماننا پڑی۔
ظاہر ہے ایسا پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں۔ مراد علی شاہ کی کامیابی کا کریڈٹ بہرحال بلاول کو بھی جاتا ہے۔ دوسری طرف مرکزمیں پی ٹی آئی کی حکومت نے کورونا سے لڑائی کے بجائے سندھ حکومت سے لڑائی شروع کررکھی ہے۔
وفاق میں چار وزرا کی ڈیوٹی ہی مراد علی شاہ پر نکتہ چینی کرکے اسے نیچے دکھانا ہے۔ جو کسی طور پر درست نہیں۔ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب لیڈرز میں لکھا تھا کہ لیڈرز بحرانوں میں نہیں بنتےبلکہ بحرانوں میں سیاستدانوں کے درست فیصلے انہیں لیڈر بناتے ہیں۔
حالیہ بحران میں کچھ اور ہو نہ ہو ملک میں مراد علی شاہ نے اپنے بہترمنتظم ہونے کا لوہا ضرور منوایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ مراد علی شاہ کے ساتھ مل کر چلیں، ملکی بہتری اسی میں ہے۔