Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس: ‘تین سال کی محنت چند دنوں میں جاتی نظر آرہی ہے’

Share

پاکستان کے شہر لاہور کے ایک ریستوران میں کام کرنے والے ڈیلیوری بوائے سمیع آج کل کافی پریشان ہیں۔ ان کی پریشانی آج کل شاید ہم میں سے بہت سے سمجھ پائیں۔ سمیع کو ڈر ہے کہ جس ریستوران کے لیے وہ کام کرتے ہیں کہیں وہ کورونا کی وجہ سے بند نہ ہو جائے۔

كورونا کی وبا پاکستان میں پھیلنے کے بعد پنجاب بھر میں 24 مارچ کو مکمل لاک ڈاؤن لگا دیا گیا تھا۔ لاک ڈاؤن سے کچھ روز قبل پنجاب کے تمام ریستوران میں بیٹھ کر کھانا کھانے پر پابندی بھی عائد گئی تھی۔

سمیع نے آخری کھانے کی ڈیلیوری 23 تاریخ کو کی جس کے بعد سے وہ کام پر نہیں گئے کیونکہ جہاں وہ کام کرتے تھے وہ ریستوران ہی بند ہو ہوگیا۔

‘پتا نہیں اگلے مہینے کہاں سے کھاؤں گا’

سمیع ڈیلیوری بوائے ہونے کے ساتھ ساتھ تین بچوں کے باپ بھی ہیں

سمی ڈیلیوری بوائے ہونے کے ساتھ ساتھ تین بچوں کے باپ بھی ہیں۔ بیوی بچوں کے علاوہ سمیع کے والدین بھی ان کے ہمراہ ہی رہتے ہیں اور ان پر اپنے پورے گھر کی ذمہ داری ہے۔ اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے لیے وہ ریستوران پر کام کرنے کے علاوہ دن کے اوقات میں کاسمیٹکس کی دکان پر بھی کام کرتے تھے جو کہ اب کورونا کی وجہ سے بند پڑی ہے۔

انھوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں ریستوران سے 20 ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے جس کے اوپر ٹپ ملا کر انھیں 23 ہزار روپے تک مل جاتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب یہ کورونا کا معاملہ شروع ہوا تھا تو تب سے ہی لوگوں نے ریستوران سے کھانا منگوانا بند کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جو چند لوگ کھانا منگواتے تھے وہ بھی مجھے یہ کہہ دیتے تھے کہ ‘بھائی کورونا تو نہیں ڈالا کھانے میں!’

انھوں نے بتایا کہ جس ریستوران وہ کام کرتے ہیں وہ کوئی بہت بڑا ریستوران نہیں ہے۔ اسی لیے سمیع سمیت باقی سٹاف کو بھی یہ ڈر بھی تھا کہ پتا نہیں روزی کب تک یہاں لکھی ہے۔

تاہم، سمیع نے اپنے ریستوران کے مالک کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ ‘انھوں نے ہمارا خیال کیا اور مارچ کے مہینے میں کام نہ ہونے کے باوجود بھی ہمیں پورے مہینے کی تنخواہ دی ہے۔‘

جبکہ ان کے دیگر ساتھی جو دوسرے جگہ کام کرتے ہیں، اُن کے مطابق انھیں مارچ کے مہینے میں صرف 20 دن کی تنخواہ ملی ہے۔ سمیع نے بتایا کہ ان کے دوست بتاتے ہیں کہ مالک کہتا کہ ہے کہ ‘جب ہم نہیں کما رہے تو تمھیں کہاں سے پیسے دے دیں۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے ریستوران کے مالک کو اپنا نہیں پتا کہ آگے اُن کا کیا ہوگا اور ہمیں اپنا نہیں پتا کہ ہمارا آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔

تین سال قبل حمزہ سلیم اور ان کے دوست عبدالمنعم خان نے مل کر لاہور میں ایک چائنیز ریستورنٹ کا آغاز کیا۔

‘یہ مہینہ تو کو تنگ ہو کر گزر ہی جائے گا لیکن اگلے ماہ کیا ہوگا، میں کہاں سے پیسے لاؤں گا، کہاں سے کھاوں گا، یہ نہیں معلوم اس لیے بہت پریشانی ہوتی ہے۔ ہم سب تو یہی دعا کر رہے ہیں کہ حالات جلد از جلد ٹھیک وہ جائیں کیونکہ ان حالات میں تو ہمیں کوئی اور نوکری بھی نہیں ملے گی۔‘

‘تین سال کی محنت چند دنوں میں جاتی نظر آرہی ہے’

آج سے تین سال قبل حمزہ سلیم اور ان کے دوست عبدالمنعم خان نے مل کر لاہور میں ایک چائنیز ریستورنٹ کا آغاز کیا۔

حمزہ کے مطابق انھوں نے اور ان کے دوست نے اپنی ساری جمع پونجی اپنے ریستوران کو بنانے پر لگا دی جس کے بعد تین سال تک سخت محنت کی اور اپنے کاروبار کو کھڑا کیا۔ اس کے بعد وہ لاہور کے تین مخلتف مقامات پر اپنےریستوران کی تین برانچیں بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں کل ملا کر اس وقت 26 لوگ ملازمت پر ہیں۔

حمزہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تینوں برانچوں کی تنخواہیں ملا کر کل ساڑھے چھ لاکھ روپے ہیں۔ ‘اس کے علاوہ کرائے کے پیسے، بجلی اور گیس کے بل، کھانے بنانے کے اخراجات سمیت دیگر اخراجات ملا کر ہم بمشکل اپنے خرچے پورے کر پا رہے تھے کہ کورونا نے ہمارے کاروبار کو ایک بڑا دھچکہ مارا جس کی وجہ سے ہمیں آگے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے لاک ڈاؤن کے بعد چند روز تک ریستوران چلانے کی کوشش کی لیکن گاہک خوف کے مارے باہر سے کھانا منگوانے سے گریز کر رہے ہیں۔ ‘ہم نے اپنےریستوران سمیت کھانے اور سٹاف کے لیے مکمل انتظانات کیے ہیں جو حفظان صحت کے مطابق ہیں۔ چھوٹا بزنس مین تو کورونا کے باعث پِس گیا ہے۔ مگر پھر بھی ہم نے اپنے ملازمین کو اس مہینے اپنی جیب سے تنخواہ دی ہے جبکہ اگلے ماہ سے پہلے ہی ہم ان کے گھروں میں راشن بھی لازمی پہنچائیں گے۔‘

ریستوران انڈسٹری کو کوئی ریلف نہیں’

لاہور ریستوران ایسوسی ایشن کے ممبر اور ایک فاسٹ فوڈ ریسٹونٹ کے مالک گوہر اقبال نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق اگر لاک ڈاؤن مزید 30 دن تک جاری رہا تو ریستوران انڈسٹری کے 30 سے 35 فیصد تک ریستوران بند ہو جائیں گے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ پنجاب ریوینیو اتھارٹی کی دس فیصد آمدنیریستوران انڈسٹری سے آتی ہے جو سالانہ دس ارب روپے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ فوڈ آپریٹر کام کر رہے ہیں جو سالانہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ نوکریاں پیدا کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 90 فیصد ریسٹورنٹ ماہانہ آمدنی پر ہی چلتے ہیں جبکہ ریستوران انڈسٹری کا شمار پاکستان کی بڑی انڈسٹریوں میں ہوتا ہے، اس کے باوجود بھی کورونا سے متاثر ہونے والی اس انڈسٹری کو حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کوئی ٹیکس چھوٹ نہیں دی گئی۔ انھوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ‘اگر ریسٹورنٹ انڈسٹری متاثر ہوتی ہے تو اس سے جڑی دیگر صنعتیں جیسا کہ پیکنگ، پولٹری، ریل اسٹیٹ اور دیگر کئی کاروبار بڑی طرح متاثر ہوں گے۔‘

انھوں نے اپنے ریستوران کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ہمارے ریستوران کی سیل 20 سے 30 فیصد رہ گئی ہے۔ ‘یہی وجہ ہے کہ ہماری شفٹ میں بھی کمی آئی ہے اور ہمارے ملازمین ڈیلیوری کا کام کرنے کو بھی تیار ہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لاہور کے بیشتر علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان کے ڈیلیوری رائڈرز کو ہراساں بھی کیا گیا اور کہا گیا کہ اب ریستوران نہیں جانا گھر جا کر بیٹھو۔

Exit mobile version