یورپ کی چی اوپس ٹیلی سکوپ نے دور دراز جہانوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا
یورپ کی نئی ٹیلی سکوپ جسے دسمبر 2019 میں شمی نظام کے باہر دنیا کا جائزہ لینے کے لیے خلا میں چھوڑا کیا گیا، نے اپنے سائنسی آپریشنز شروع کر دیے ہیں۔
اس ٹیلی سکوپ کے بنیادی اہداف میں کیلٹ 11بی، 55کینسری اور جی جے 436بی کا مشاہدہ کرنا ہے جنھیں آسمان کے پچھلے جائزے کے دوران ڈھونڈا گیا تھا۔
چی اوپس سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ان ایکسو پلینٹ کے علاوہ اور دور دراز دوسری چیزوں کا مشاہدہ کرنے میں مددگار ہو گی۔
سوئٹزرلینڈ کی سربراہی میں کام کرنے والی یہ یورپی ٹیلی سکوپ دودراز جہانوں کا مشاہدہ کرنے کے دوران اس بات پر خصوصی توجہ دی گی کہ جب ان کا میزبان سیارہ ان کے سامنے سے گذرتا تو ان میں کیسی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ سائنسدان ان باریک چیزوں میں آنے والی تبدیلی کا مشاہدہ کر کے ان کی کثافت کوماپنےکی کوشش کریں گے جس سےانھیں ان کے اندرونی ڈھانچے کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں گی۔
کیلٹ 11بی نے اپنے ابتدائی مظاہرے میں سائنسدانوں کو اپنےبارےمیں کچھ بتا دیا ہے۔ اس ایکسو پلانٹ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ہمارے نظام شمی کے سیارے مشتری سے حجم میں 30 فیصد بڑا ہے۔ کیلٹ 11 بی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک پھولی ہوئی چیز ہے اور اس کی کثافت بہت کم ہے اور اس کے موازنہ ایک پھولے ہوئے فوم سے کیا جاتا ہے۔
یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) بھی چی اوپس منصوبے میں شریک ہے۔ یورپی خلائی ایجنسی کی پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر کیٹ اسحاق نے اس رسدگاہ کی کارکردگی کو سراہا ہے۔
انھوں نےکہا کہ ہمارے پاس ایک بہت ہی مستحکم سیٹلائیٹ ہے جس کا رخ بہت اچھا ہے اور شاید ہماری ضرورت سے بھی زیادہ اعلی، اس سے اس مشن کو بہت فائدہ ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ ہم خلائی جہاز کےحوالے سے یا اس پر لگے ہوئے آلات کے حوالے سے بہت پرامید ہیں کہ ہمیں بہت ہی اعلی نتائج ملیں گے۔
یونیورسٹی آف جینوا سےتعلق رکھنے والے پروفیسر ڈیوڈ ایہرن ریخ کے مطابق چی اوپس سے جو ابتدائی مشاہدے ہوئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ ہمارے سیارے کی طرح کے اجسام فلکی ہے، لیکن ہم سے بہت بڑےاور بہت گرم ہیں۔ انھیں آتش فشاں دنیا بھی کہا جا سکتا ہے۔
55 کینسری ہمارے زمین سےحجم میں آٹھ گنا ہے اور اسے اپنے میزبان ستارے کے گرد گھومنے میں صرف اٹھارہ گھنٹے لگتے ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس پر پگھلی ہوئی چٹانوں کا ایک سمندر موجود ہے۔
اس ٹیلی سکوپ کا اسی فیصد وقت پراجکیٹ کنسورشیم کے لیے مختص ہے ۔ یونیورسٹی آف برن اور یونیورسٹی آف جنیوا کے نگرانی میں بننے والی ٹیم میں گیارہ یورپی ممالک کےممبران اس کی ٹیم میں ہیں۔ بقیہ 20 فیصد وقت عام لوگوں کے لیے ہے ۔آنے والے دنوں میں بیرونی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔
چی اوپس ایک سڑے ہوئے سفید بونے ستارے کا بھی مشاہدہ کرے گا تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ آیا اس پر سیارو ں کا مواد متحرک ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے نوبیل انعام یافتہ پروفیسر ڈیڈیئر کوئلوز کا کہنا ہے کہ چ اوپس کے مقاصد میں ہے کہ سیاروں کے وجود میں آنے سے متعلق انسانی معلومات میں اضافہ کرے۔
پروفیسر ڈاکٹر ڈیڈیئر کوئلوز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سانسدانوں نے سیاروں کی تخلیق سے متعلق پورا نظریہ صرف آٹھ سیارو ں کا مشاہدہ کرکے تیار کیا ہے۔ انھوں نےکہا کہ ہم نظام شمسی سے باہر سیاروں کےمشاہدے سے ہم اپنے نظریے کے ایسے انجانے پہلوؤں کو بھی پر کر سکتے ہیں اوراس طرح ہم ستاروں کی تخلیق کے حوالے سے اپنے تناظرکو بہتر کر سکتے ہیں۔
چی اوپس کی ساری سائنسی منصوبہ بندی جنیوا میں ہوتی ہے لیکن ٹیلی سکوپ کو کنٹرل سیپن کے دارالحکومت میڈرڈ کے قریب واقع نیشنل انسٹیٹوٹ فار ایئرو سپیس سےکیا جاتا ہے۔
دنیا میں پھیلی ہوئی کووڈ نائنٹین کی وبا کی وجہ خلائی منصوبوں میں خاطر خواہ روکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں لیکن چی اوپس کا منصوبہ بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے جاری ہے۔
یونیورسی آف برن کے پروفیسر ولی بینز کا کہنا ہے کہ چی اوپس کے ٹیسٹ مراحل کی تکمیل اس مشن کے ساتھ مکمل وابستگی کی وجہ سے ہو پائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس خلائی مشین کا زیادہ نظام خود کار ہے جس کی وجہ سے گھر سے ہی ہدایات بھیجی جا رہی ہیں اور ڈیٹا موصول ہو رہا ہے۔