کرم، قسمت اور تقدیر کے عجب رنگ ہیں،تقدیر فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو فقیر بنا دیتی ہے۔ کسی فرد پر قسمت مہربان ہو جائے تو اُسے اوجِ ثریا پر پہنچا دیتی ہے اور اگر یہ روٹھ جائے تو اُسے پاتال کی گہرائیوں میں دفن کر سکتی ہے۔
یہی تقدیر قوموں اور ملکوں پر شفقت کرے تو وہاں ترقی، خوشحالی اور امن آ جاتا ہے اور اگر یہ ناراض ہو جائے تو خوشحال ملک کنگال ہو جاتے ہیں۔ قسمت کی اِس ستم ظریفی کو ملاحظہ کرنا ہو تو ریاست حیدرآباد دکن کے آخری نظام پرنس مکرم جاہ کی مثال لے لیجئے۔
1967ءمیں میر عثمان علی خان کی وفات کے بعد دنیا کے دو بہترین تعلیمی اداروں ہیرو (HARROW) اور سینڈھرسٹ کے تعلیم یافتہ مکرم جاہ نے آٹھویں نظام کی حیثیت سے چارج سنبھالا۔
مکرم جاہ مسلمانوں کے آخری خلیفہ اور عثمانی سلطنت کے آخری سربراہ عبدالمجید کی اکلوتی بیٹی در شہوار کے بڑے بیٹے تھے، سلطان عبدالمجید نے اپنی وصیت میں اپنے اسی نواسے مکرم جاہ کو مسلمانوں کا خلیفہ بھی مقرر کردیا تھا، دوسری طرف مکرم جاہ کے دادا نظام عثمان علی خان نے اپنے بیٹوں اعظم جاہ اور معظم جاہ کو نظرانداز کرکے اپنے پوتے مکرم جاہ کو اس کے اعلیٰ کردار اور تعلیم و تربیت کی وجہ سے اپنا جانشین بنایا۔
بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے بھی نہ صرف اس فیصلے کی تصدیق کی بلکہ مکرم جاہ کو اپنے ساتھ ریاستی امور میں شریک کیے رکھا۔ مکرم جاہ نے چارج سنبھالا تو ان کے خزانہ عامرہ میں 12ہزار کیرٹ وزن کے 25ہزار ہیرے، 2ہزار زمرد اور 40ہزار موتیوں کے ہار موجود تھے۔ 12کلو سونے کی مہر سے لیکر ہزاروں تولے سونے کے زیورات اور اربوں روپے کے تاریخی نوادرات موجود تھے،ہر ماہ 15ہزار اسٹاف کو تنخواہ ادا کی جاتی تھی۔
60کاروں کے فلیٹ پر 90ہزار ڈالرکا سالانہ پٹرول خرچ ہوتا تھا، 3ہزار تو صرف باڈی گارڈز تھے، ہر روز 2ہزار لوگوں کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔ یہ عروج اور کمال کا دور تھا اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ 30برسوں کے اندر اس انتہائی پڑھے لکھے نوجوان پرنس نے اپنی ساری امارت، نوکر چاکر، ہیرے جواہرات و دولت جائیداد سب کچھ کھو دیا اور یوں ثابت کیا کہ اگر پرنس یا بادشاہ میں انسانوں کو پہچاننے کی صلاحیت نہ ہو تو اس کی پڑھائی۔
اس کی بہترین تربیت، اس کی نیکیاں اور اس کی اچھائیاں رعایا کے کسی کام نہیں آتیں۔ پرنس مکرم جاہ بہترین اداروں میں پڑھا، نہ وہ شراب نوش تھا اور نہ ہی جوئے کا شوق تھامگر انسانوں کی چوائس میں مکمل طور پر ناکام رہا۔
جس کو بھی اپنا نائب یا خزانچی چنا اس نے جی بھر کر اُسے اور ریاستی خزانے کو لوٹا اور یوں پرنس مکرم جاہ اپنی زندگی میں ہی دنیا کے سب سے امیر ترین شہزادے سے ایک مقروض اور ڈیفالٹر شخص بن گیا۔
پرنس مکرم جاہ قسمت کا ایسا دھنی نکلا کہ آسٹریلیا میں سونے کی کان خریدی تو وہاں سے کوئلہ زیادہ اور سونا کم نکلنے لگا۔ ایک ڈوبے ہوئے بحری جہاز سے ٹنوں سونا نکلوانے کی مہم شروع کی تو مشینری ٹوٹ گئی۔ آسٹریلیا میں حیدر آباد کے رقبے سے بھی بڑا زرعی فارم بنایا، وہ چل نہ سکا۔
دنیا کا سب سے بڑا ٹرک، دنیا کی سب سے بڑی کشتی، دنیا کی سب سے بڑی موٹر کار خریدی اور پھر گھنٹوں ان کے نیچے لیٹ کر انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پرنس مکرم جاہ اچھی نیت، اچھے ارادے، ایمانداری اور راست بازی کے باوجود زندگی میں ناکام ہو گیا کیونکہ اس کی ترجیحات ٹھیک نہ تھیں، وہ لوگوں سے چھپتا تھا، چار شادیاں کیں، کوئی ایک بھی کامیاب نہ ہو سکی، زندگی کے آخری دن تنہائی میں گزرے۔
وہ پرنس تھا اس لئے اپنے مزاج اور مرضی سے چلتا تھا۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم نے ملنا چاہا تو اس نے معذرت کر لی۔ حیدر آباد میں لوگ آنکھیں بچھائے اس کے منتظر رہتے تھے مگر اس کا وہاں آنے کو دل نہ کرتا تھا۔ وہ جدید اور قدیم کا عجیب و غریب مجموعہ بن گیا۔
اسے علم ہوا کہ اورنگ زیب عالمگیر کی فوج پر حملے کرنے والا ایک ڈچ جہاز فروخت کے لئے مہیا ہے تو فوراً خریدنے کو تیار ہو گیا جبکہ خود اپنے پاس جہانگیر کے زمانے کی نادر اشیا اور میسور کے خزانے سے آئی مفتوحہ قیمتی دستاویزات اور آثار کو بیچنے میں اس کو ذرا تامل نہ ہوا۔
The Last Nizamکے مصنف جون زیر زنسکی نے پرنس مکرم جاہ کے عروج و زوال کی جو تصویر کھینچی ہے اس سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ قسمت مہربان رہے تو قومیں فیصلے بھی اچھے کرتی ہیں اور ان کے نتائج بھی اچھے نکلتے ہیں لیکن اگر قوم فیصلہ ہی غلط کرلے، پرنس کا انتخاب ہی غلط ہو جائے اور اوپر سے قسمت روٹھ جائے تو پھر زوال کو کون روک سکتا ہے؟
پرنس مکرم جاہ کی کہانی میں ہمارے لئے بھی کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ ریاست حیدر آباد کی طرح یہاں کے پرنس کے پاس ہیرے جواہرات اور سونا تو نہیں مگر ہیرے اور جواہرات جیسے نوجوان ہیں، یوتھ کی جتنی تعداد یہاں ہے دنیا میں کہیں نہیں۔
نوجوانوں کی صلاحیت صحیح طور پر استعمال ہوئی تو وہ ریاست کے لئے قیمتی ترین اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے مگر نوجوانوں کو مکرم جاہ کے مال کی طرح ضائع کر دیا گیا تو نہ اثاثے بچیں گے اور نہ یوتھ کا بھرم۔
پرنس مکرم جاہ نظام آف حیدر آباد گورننس میں مکمل طور پر ناکام ہوئے، ان کے ساتھی اور کچن کابینہ چور اور ٹھگ نکلی، اگر یہاں کے پرنس کے ساتھی اور کابینہ اچھی نہ نکلی تو اس کا حال بھی پرنس مکرم جاہ کی قسمت اور حیدر آباد دکن کی جائیدادوں جیسا ہو گا۔
یاد رکھیں! بادشاہت اور ذمہ دار حکومت میں صرف ایک فرق ہوتا ہے، حیدر آبادی پرنس مکرم جاہ کا کوئی احتساب نہ تھا، کوئی اسے پوچھنے والا نہ تھا، اسی لئے وہ خود بھی ڈوبا اور اپنے ہزاروں لوگوں کو بھی ڈبو دیا۔ ہمارے پرنس جو بھی ہوں، ان کا احتساب ہوتا رہنا چاہئے، سوال ہوتے رہنے چاہئیں۔
اگر ہم نے مکرم جاہ کے انجام سے عبرت پکڑنی ہی ہے تو اپنے پرنس کو صرف اس کی مرضی پر نہ چھوڑیں، اجتماعی دانش بروئے کار لائیں۔ لندن کے پڑھے مکرم جاہ ریاست اور اپنا مال متاع کھو سکتے ہیں تو ہمارے پرنس بھی ہمارا بڑا نقصان کر سکتے ہیں۔