منتخب تحریریں

زلف تراش کی بپتا ۔ نیو ڈیل ضروری

Share

اسلام آباد میں کرونا کی وجہ سے لاگو ہوئے لاک ڈائون کو تقریباََ دو ہفتے گزر گئے تو ایک صبح مجھے اپنے فون پر ایک Missedکال نظر آئی۔فون اس بال تراش کی جانب سے تھا جس کی دوکان میرے گھر کے قریب ہے۔اس کی دوکان پر گئے ہوئے مجھے ایک ماہ سے زیادہ کا وقت گزر جائے تو وہ اکثر مجھے فون پر اپنی فراغت کی اطلاع فراہم کردیتا ہے۔بسااوقات اس نے میرے گھر آکر بال بنانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ۔

اس کی Missedکال دیکھ کر میں نے فرض کرلیا کہ وہ فارغ بیٹھا ہوگا۔مجھے بتانا چاہا کہ اگر میں اپنے بال بنوانا چاہتا ہوں تواس سے رجوع کروں۔ یہ سوچتے ہی مگر خیال آیا کہ میں نے لاک ڈائون لاگو ہونے سے تقریباََ ایک دن قبل ہی اس سے بال بنوائے تھے۔ویسے بھی لاک ڈائون میں اس کی دوکان بند ہونا چاہیے۔غالباََ وہ جس کمرے میں رہتا ہے وہاں فارغ بیٹھا کسی گاہک کی تلاش میں ہے۔روز کی روٹی کے بندوبست کے لئے۔

میں نے کال بیک کی تو پتہ چلا کہ وہ اپنے گائوں جاچکا ہے۔اس کی آواز میں تھکن اور اداسی تھی۔اس نے بتایا کہ گزشتہ دو دنوں سے وہ بخار میں مبتلا ہے۔لاک ڈائون لاگو ہوتے ہی دوکان بند کرکے اپنے گائوں چلا گیا تھا۔اس کا گائوں قصور کے ایک نواحی علاقے میں ہے۔گھر کا خرچ چلانے کے لئے اس نے کچھ لوگوں سے اُدھار لیا۔اب مگر کہیں سے سہارا میسر نہیں ہورہا۔میں اسے کچھ پیسے بھجوادوں تو بہت شکرگزار محسوس کرے گا۔میں اپنے حالات کے مطابق جورقم اسے بھیج سکتا تھا اسے فراہم کرنے کا وعدہ کرلیا۔میرا شکریہ ادا کرنے کے بعد وہ مجھ سے پریشان ہوا بہت بے تابی سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ اسلام آباد میں حجام کی دوکانیں کب کھلیں گی۔میں اس ضمن میں حتمی وقت کا تعین کرنے سے قاصر تھا۔

اسلام آباد میں حجام کی دوکانیں کھولنے کی اجازت چند دن قبل مل چکی ہے۔گزشتہ ہفتے کے آخری تین دن مجھے گھر کا سودا سلف لانے مارکیٹ جانا پڑا تو اس کی دوکان مگر بند نظر آئی۔ سینکڑوں دیہاڑی داروں کی طرح غالباََ وہ بھی اسلام آباد آنے کے لئے ٹرانسپورٹ کھلنے کا منتظر تھا۔

اس کی بابت سوچتے ہوئے مجھے خیال یہ بھی آیا کہ وہ جس دوکان پر کام کرتا ہے اس کا ماہانہ کرایہ پندرہ ہزار روپے ہے۔وہ اسلام آباد لوٹا تو اس دوکان کا مالک اس سے یکمشت 30ہزار روپے طلب کرے گا۔مجھے کامل یقین ہے کہ وہ یہ رقم ادا نہیں کر پائے گا۔اس رقم کی ادائیگی کے بغیر اس کے پاس دو ہی راستے باقی رہ جاتے ہیں۔پہلا یہ کہ اسلام آباد لوٹنے کا ارادہ ترک کردے۔قصور یا لاہور میں کوئی نئی دوکان لے کر ازسرنودھندا شروع کردے۔زیادہ مناسب اگرچہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اسلام آباد لوٹ کر کسی دوکان میں کاریگر کی صورت کام شروع کردے۔ وہ ایک ماہر بال تراش ہے۔گاہکوں کو مہذب گفتگو سے راضی رکھتا ہے۔اپنے باقاعدہ گاہکوں کے اس کے پاس ٹیلی فون نمبر بھی ہیں۔اسے کسی دوکان پر کام نہ بھی ملے تو وہ ان کے گھروں میں جاکر گزارہ چلاسکتاہے۔اس کی آمدنی مگر ہرگز اتنی نہیں رہے گی جو لاک ڈائون سے پہلے ہوا کرتی تھی۔

لاک ڈائون لاگو ہونے سے قبل اگرچہ اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ عمران حکومت کے قیام کے بعد سے اس کی دوکان پر گاہکوں کی آمد بتدریج کم ہونا شروع ہوگئی۔اس کی وجہ سے اسے دوکاریگروں کو فارغ بھی کرنا پڑا تھا۔اس کی معاونت کو اب فقط اس کا ایک رشتے دار تھا۔وہ مگر بال تراشنے کا ماہر نہیں تھا۔اس کی آمدنی مسلسل کم ہورہی تھی۔دوکان کا مالک مگر تقاضہ کررہا تھا کہ وہ کرائے میں اضافہ کرے۔دوکان وگرنہ خالی ہوجائے تو اس کا مالک کسی اور شخص سے کم از کم 20ہزار روپے ماہوارحاصل کرسکتا ہے۔یہ بات تو اب تقریباََ یقینی نظر آرہی ہے کہ کرونا کی وجہ سے آئے عذاب کے بعد میرے بال تراش کو وہ دوکان خالی کرنا ہوگی جو اس نے بہت لگن اور مان سے اب تک چلائی ہے۔

ایک بال تراش کے بارے میں یہ کالم لکھنے کی حقیقی وجہ Downward Slipکے اس عمل کو ٹھوس حوالوں سے سمجھنے کی کوشش ہے جو میری دانست میں کرونا وطنِ عزیز میں اٹلی جیسی اموات نہ لانے کے باوجود مسلط کرچکا ہے۔ڈاکٹر حفیظ پاشا جیسے ماہرینِ معیشت یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے سنگین تر ہوا معاشی بحران کم از کم 40لاکھ لوگوں کو بے روزگار کرے گا ۔ایک کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے چلے جائیںگے۔ٹھوس اعدادوشمار جسے انگریزی میں Dataکہتے ہیں محض Numbersہی سنائی دیتے ہیں۔ غالباََ چرچل، سٹالن یا کسی جنرل نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کہا تھا کہ جنگوں میں ہوئی اموات بالآخرStatisticsیعنی محض نمبر یا اعدادوشمار محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔اموات کی کثیر تعداد ہمیں انسانوں کی حقیقی مشکلات سے بیگانہ بھی بنادیتی ہیں۔ہمیں کسی ایک فرد کی زندگی پر نازل ہوئے مصائب کا ادراک تک نہیں ہوتا۔ہم اس تناظر میں گویا بے حس ہوجاتے ہیں۔مصائب کے ٹھوس حوا لوں سے ادراک کے لئے ضروری ہے کہ افراد کی ذاتی زندگیوں کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔امریکہ میں جب Great Depressionآیا تو ان دنوں کے تخلیقی اذہان نے اس کی وجہ سے مختلف شعبوں میں روزمرہّ زندگی کے تناظر میں اُبھرے مسائل پر توجہ دی تھی۔وہ مسائل اجاگر ہوئے تو امریکی صدر روزویلٹ New Dealکا اعلان کرنے کو مجبور ہوا۔

پاکستان کو بھی اس وقت ٹھوس معاشی حالات کی وجہ سے دُنیا کے دیگر ممالک کی طرح ایک New Dealکی ضرورت ہے۔ عمران حکومت نے مگر فی الحال توجہ دیہاڑی داروں پر ہی مرکوز رکھی ہے۔ان کی مشکلات میں نرمی لانے کے لئے لاک ڈائون کو بتدریج ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔دریں اثناء لاک ڈائون کے دنوں میں احساس پروگرام کے ذریعے گھروں میں محصور ہوئے دیہاڑی داروں کو امدادی رقوم اور راشن پہنچانے کا بندوبست بھی ہوا۔یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ لاک ڈائون ختم ہوگیا تو ہمارے ہاں کاروباری رونق ازخود بحال ہوجائے گی۔

اس رونق کی بحالی کے لئے مختلف پیکیج بھی دئیے گئے ہیں۔تعمیراتی سرگرمیوں کو اس ضمن میں ترجیح ملی۔یوٹیوب پر حکومت کے با رے میں Feel Goodکہانیاں فروغ دینے والے اس امر پر بہت شاداں ہیں کہ عمران خان صاحب کی تقریر سن کر IMFنے پاکستان کو ایک ارب ڈالر سے زائد رقم ہنگامی بنیادوں پر فراہم کرنے کا بندوبست کردیا۔ اس رقم پر سود کی شرح تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہے۔ورلڈ بینک وغیرہ قرضوں کی ان قسطوں کو بھی مؤخر کرنے کو آمادہ ہوچکے ہیں جو 2020میں پاکستان کو ادا کرنا تھیں۔ریگولر اور سوشل میڈیا پر بہت اطمینان سے اس Spaceکا ذکر ہورہا ہے جو ایمان دار اور خوش نصیب عمران خان صاحب کو ان کی کرشماتی شخصیت کی وجہ سے Fiscalیعنی مالیاتی معاملات کے حوالے سے نصیب ہوئی ہے۔یہ گفتگو سنتا ہوں تو اکثر یہ گماں ہوتا ہے کہ کرونا پاکستان پر عذاب کی صورت میں نازل نہیں ہوا۔وباء کا موسم بلکہ خیر کی بے تحاشہ خبریں بھی لایا ہے۔خیر کی مبینہ خبریں یوٹیوب پر چھائے کئی حق گو افراد کو یہ دعویٰ کرنے پر بھی اُکسارہی ہیں کہ وطنِ عزیزکو ربّ کریم ہمیشہ آفتوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

ذاتی طورپر میں ڈھٹائی کی حد تک امید پرست رہا ہوں۔کرونا کی وباء شروع ہوتے ہی صحت عامہ کے ایک عالمی ماہر سے گفتگو کے بعد میں نے پاکستانیوں کی ’’ڈھیٹ ہڈی‘‘کا ذکر بھی کیا تھا۔خوش گوار حیرت کا اظہار اس امر پر بھی کیا کہ پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیاء کے تمامتر ممالک جہاں دُنیا کی تقریباََ ایک چوتھائی آبادی رہتی ہے اب تک کرونا کی وجہ سے تباہی کے وہ مناظر دیکھنے سے محفوظ رہے جو اٹلی اور امریکہ جیسے ممالک میں نظر آئے۔اس ضمن میں میری خوش گوار حیرت اب صحت عامہ کے عالمی ماہرین کی توجہ بھی حاصل کررہی ہے۔بہت سنجیدگی سے یہ دریافت کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ جنوبی ایشیاء کے باسیوں کے فطری مدافعتی نظام میں وہ کونسی قوت ہے جو کرونا کے آگے بے بس نظر نہیں آئی۔ فی الوقت ٹی بی اور ملیریا کے خلاف اپنائے نظام کو اس کا سبب تصور کیا جارہا ہے۔

کرونا نے یقینا انسانی اموات کے حوالے سے ہمارے ہاں وہ عذاب مسلط نہیں کیا جو دُنیا کے کئی ممالک میں نظر آیا۔پاکستان کی معاشی صورتحال جو کرونا کی ا ٓمد سے قبل ہی کسادبازاری کی شدید زد میں آچکی تھی وباء کے موسم میں سنگین تر ہورہی ہے۔اس سنگینی کو اجاگر کرنے کے لئے میں نے ’’دیگ کا ایک دانہ‘‘ یعنی اپنا بال تراش چنا۔برسوں کی محنت کے بعدبالآخر کرائے پر ایک دوکان حاصل کر کے Upward Mobilityکو بڑھتا یہ شخص نظر بظاہر محض ایک فرد ہے۔یہ فرد مگر وسیع تر تناظر میں ان سینکڑوں لوگوں کا نمائندہ بھی ہے جنہیں اب Upward Mobilityکے امکانات میسر نہیں رہے۔ یہ افراد فقط ایک شعبے سے متعلق ہی نہیں۔مختلف ا لنوع کاروبار سے وابستہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد اور ان کے گھرانے ہیں۔انہیں IMFیاورلڈ بینک کوئی Reliefپہنچانہیں سکتے۔ حکومت کو ان اداروں کی وجہ سے جو Spaceملی ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے پالیسی سازوں کو اجارہ دار سیٹھوں ہی کو Stimulusفراہم کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ہماری حکمران اشرافیہ باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سرجوڑ کر بیٹھے اور کوئی ایسی New Dealسوچے جو متوسط طبقے تک بہت محنت سے پہنچے سینکڑوں افراد کو دوبارہ خطِ غربت کے نیچے نہ دھکیل دے۔