سیاسی موضوعات پر بننے والی فلموں سے شغف رکھنے والوں میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے 1972 میں بننے والی فلم کیبرے (Cabaret) نہ دیکھی ہو۔ کرسٹوفر ایشروڈ کی ایک مختصر کتاب Goodbye Berlin سے ماخوذ یہ فلم جرمنی کے پہلے جمہوری تجربے وائیمر ری پبلک کی ناکامی بیان کرتی ہے۔ وائمر ری پبلک کا کچھ ذکر آج کریں گے لیکن اس وقت اس فلم کا تذکرہ ایک تکنیک کے حوالے سے چلا آیا۔ اسٹیج پر کردار اپنے مکالمے بول رہے ہیں۔ کہانی آگے بڑھ رہی ہے اور پس منظر میں ایک بڑے پردے پر کچھ بے چہرہ سائے ایک اور ہی کھیل دکھا رہے ہیں۔ خاموشی سے ڈوبتے ابھرتے ہیولوں کی یہ کشمکش ہی اصل کھیل ہے اور ہمارے ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کو سمجھنے کے لئے اسٹیج کے کرداروں اور پردے پر لرزاں بے نام ہیولوں کا تعامل سمجھنا ضروری ہے۔ بظاہر تصویر کے ان دو ٹکڑوں میں کوئی ربط نہیں لیکن منیر نیازی نے کہا تھا، ہاتھوں کا ربط حرف خفی سے عجیب ہے / ہلتے ہیں ہاتھ راز کی باتوں کے ساتھ ساتھ۔ اسٹیج پر مائنس اور پلس کا غلغلہ ہے، لندن کی ملاقاتیں ہیں، 38 ارب کے چرچے ہیں، نیب کے ریفرنس کی لین ڈوری بندھی ہے، بلاول بھٹو کی خطابت ہے، مریم نواز کی خاموشی ہے، فضل الرحمٰن کی پراسرار روپوشی ہے اور سراج الحق کی مہمان سرگوشی ہے۔ جہانگیر ترین کی اہلیت ہے، شہباز شریف کی نااہلی ہے، نواز شریف علیل ہیں، پرویز مشرف صاحب فراش ہیں، الیکشن کمیشن کی نامکمل چاردیواری ہے اور مڈ ٹرم کے چرچے ہیں۔ ایک قانون سازی ہونا ہے۔ ایک ترمیم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے۔ حقیقی میدان مگر کہیں اور سجا ہے۔ اونچی اور سنگین دیواروں کے اسیر صرف یہ جانتے ہیں کہ دن چھوٹے ہیں اور راتیں ایسی طویل کہ صبح کی کرن نہیں سوجھتی۔ اندھیری گلیوں کے یہ سناٹے بےسبب نہیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ وائیمر ری پبلک کا بستر لپیٹا جا رہا ہے یا وشی حکومت کا ناٹک ابھی کچھ دیر اور چلے گا۔ وائیمر ری پبلک اور وشی حکومت پچھلی صدی کے دو اہم باب ہیں۔ ان کی کچھ وضاحت ہو جائے کیونکہ تاریخ کا سفر پیچ دار راستوں سے گزرتا ہے اور آج کا نوجوان پڑھنے والا تنک حوصلہ ہے۔
پہلی عالمی جنگ ختم ہوئی تو شکست خوردہ جرمنی میں قیصر ولہلم کو تخت چھوڑنا پڑا۔ 9 نومبر 1918ء کو جرمنی میں پہلا جمہوری تجربہ شروع ہوا۔ جمہوریت صبر طلب ہے اور فرمان شاہی کے عادی معاشرے صدیوں کی کوتاہی کا فوری ازالہ مانگتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں مکالمے کی روایت نہیں ہوتی، اجتماعی فراست پر بھروسہ نہیں ہوتا، دوٹوک فیصلے سنائے جاتے ہیں چنانچہ رائے عامہ میں قطبی تقسیم کا رجحان پایا جاتا ہے۔ وائیمر ریپبلک کا جرمنی بھی ایک منقسم معاشرہ تھا۔ کچھ بادشاہت کے حامی تھے، کچھ جمہوریت کے متلاشی تھے، اشتراکیت کے ہوا خواہ انقلاب کی راہ دیکھ رہے تھے۔ میدان جنگ سے نامراد لوٹنے والے مردانِ تیر و تفنگ کا خیال تھا کہ سیاسی مصلحتیں آڑے نہ آتیں تو جنگ کے میدان میں جیت ان کا مقدر تھی۔ ان رنگارنگ دھاروں میں اتفاق رائے کی توقع عبث تھی۔ جنگ کی فاتح اقوام نے تاوان کی ایسی کڑی شرائط مسلط کی تھیں کہ معیشت کا اٹھنا ممکن ہی نہیں تھا۔ سیاسی رہنماؤں نے گرتے پڑتے معیشت کو کچھ سنبھالا دیا ہی تھا کہ 1929کی قحط بازاری عالمی معیشت پر حملہ آور ہو گئی۔ نتیجہ یہ کہ ہٹلر نام کا ایک شعلہ بیان کارپورل قوم پرستی، نسل پرستی اور عسکریت پسندی کے لاؤ لشکر کے ساتھ جرمنی کا چانسلر بن گیا۔ جرمنی میں وائیمر ریپبلک کا جمہوری تجربہ ناکام ہو گیا۔ ہیجان اور جنون کے طوفان میں فسطائیت کا عفریت نازل ہو گیا۔
اب کچھ تعارف وشی حکومت کا ہو جائے۔ دوسری عالمی جنگ کا ابتدائی مرحلہ تھا۔ جرمنی نے 19 مئی 1940 کو فرانس پر حملہ کیا اور چھ ہفتوں میں پورا ملک فتح کر لیا۔ فرانسیسی قیادت یہی سوچتی رہ گئی کہ شمالی افریقا کے نوآبادیاتی مقبوضات سے مزاحمت جاری رکھی جائے یا فاتح جرمن افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جائیں۔ ڈیگال نے مزاحمت کا راستہ چنا اور پہلی عالمی جنگ کے ہیرو مارشل پٹین نے زورآور سے مفاہمت کا فیصلہ کیا۔ پیرس سے کوئی 360کلومیٹر جنوب میں واقع وشی کے قصبے میں ایک نام نہاد حکومت قائم ہوئی جسے بظاہر مقامی آبادی پر قوت نافذہ مل گئی۔ عملی طور پر یہ ہٹلر کی کٹھ پتلی حکومت تھی جسے جنگ و امن، خارجہ پالیسی اور معاشی وسائل کی تقسیم پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ البتہ مارشل پٹین کو اپنے قدامت پسند مذہبی نظریات کی روشنی میں تعلیم کو تلقین اور عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی آزادی تھی۔ کمیونسٹوں، یہودیوں اور روشن خیال دانشوروں کو گرفتار کر کے عقوبت خانوں میں ڈالنے کا اختیار تھا۔ معیشت کی تطہیر کے نام پر ٹیکس لگانے کی چھوٹ تھی۔ فرانسیسی نوآبادیوں پر تسلط کی آزادی تھی۔ وشی حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس نے مفاہمت کی پالیسی اپنا کر غیرمقبوضہ فرانس کو مکمل تباہی سے بچا لیا ہے۔ نومبر 1942میں ہٹلر کی عارضی ضرورت ختم ہو گئی تو قلم کی ایک جنبش سے وشی حکومت کو بے دست و پا کر کے تمام فرانس پر جرمن تسلط قائم کر لیا گیا۔ مفاہمت کے علمبردار مارشل پٹین جرمنی کے غیرعلانیہ قیدی بن گئے۔
عزیزانِ من، ایک جمہوری تجربے کی کٹھنائیاں آپ کے گوش گزار کیں۔ ایک مفاہمانہ تجربے کا انجام آپ کو سنایا۔ مگر کیوں؟ اس لئے کہ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ مزاحمت کا بیانیہ ہار چکا ہے۔ بلند آہنگ نعرے لگانے والے بھگوڑے ہو چکے یا انہوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ قلم کی نوک کو زنگ لگ چکا۔ دستور کے ساز خاموش ہیں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہارا انتخاب کیا ہے؟ لمبی بات کا یارا نہیں، مہاتما بدھ نے فرمایا تھا، باہر بہت اندھیرا ہو تو اندر کا دیا جلانا پڑتا ہے۔ تانتیا ٹوپے نے کہا تھا، تخت کے لئے لڑنے والے وچن ہار گئے۔ زمیں کے بیٹے دھرتی کی آتما کے لئے لڑا کرتے ہیں اور اس لڑائی کا کوئی انت نہیں ہوتا۔