صحتہفتہ بھر کی مقبول ترین

قدرتی طریقے اور سیزیرین سے پیدا ہونے والے بچوں کے بیکٹریا میں کیا فرق ہوتا ہے؟

Share

بچوں کی پیدائش سے متعلق اب تک کے سب سے بڑے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو بچے قدرتی طور پر پیدا ہوتے ہیں اور جو بچے سیزیرین یا آپریشن کے ذریعے ہوتے ہیں ان کے معدے کے بیکٹریا ایک دوسرے سے ڈرامائی انداز میں مختلف ہوتے ہیں۔

برطانیہ کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان مائیکروبس سے زندگی کی ابتدا ہی میں سامنا بچوں کے مدافعت کے نظام کے لیے ‘تھرمو سٹیٹ’ کا کام کرتا ہے۔

اور اس سے اس بات کی وضاحت میں مدد مل سکتی ہے کہ آخر آپریشن کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کو بعد کی عمر میں صحت کے حوالے سے قدرے زیادہ پریشانیاں کیوں پیش آتی ہیں۔

ماہرین نے خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اندام نہانی کی رطوبت سے جسے ‘ویجائنل سیڈنگ’ کہتے ہیں بچوں کو پھریری نہ کریں یعنی ان پر نہ رگڑیں۔

معدے کے بیکٹیریا کتنے اہم؟

ہمارا پورا جسم انسان نہیں ہے بلکہ ایک ایکو سسٹم یعنی نظام حیات ہے جس میں ہمارے جسم کے نصف خلیے بیکٹریا، وائرس اور پھپھوند جیسے مائیکروبس سے بنے ہوئے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر ہمارے معدے میں ہوتے ہیں اور انھیں مجموعی طور پر ‘مائیکروبایوم’ کہا جاتا ہے۔

ان مائیکروبایوم کا تعلق الرجی، موٹاپے، شکم کی سوزش والی بیماریوں، پارکنسن جیسے بیماریوں سے ہوتا ہے یہاں تک کہ کینسر کی دوا کام کرے گی یا نہیں یا پھر ڈیپریشن اور آٹزم وغیرہ سے بھی یہ منسلک ہے۔

ویلکم سینگر انسٹی ٹیوٹ، یو سی ایل اور یونیورسٹی آف برمنگھم کی جانب سے کیے جانے والے اس مطالعے میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ جب ہم رحم مادر سے نکلتے ہیں اور جراثیم سے بھری دنیا میں آتے ہیں تو کس طرح مائیکروبایوم تیار ہوتا ہے۔

تقریباً 600 نوزائیدہ بچوں کی پہلے ماہ کی نیپیز کا مسلسل نمونہ لیا گیا اور بعض معاملے میں ایک سال تک کے پاخانے کے نمونے لیے گئے۔

جسم
ہمارے جسم کا نصف سے زیادہ حصے دوسرے اجسام ہیں

یہ تحقیق تحقیقی مجلے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ قدرتی طور پر پیدا ہونے والے بچوں نے زیادہ تر بیکٹریا اپنی ماں سے حاصل کیے۔

لیکن آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں کے اندر کلیبسیلا اور سیوڈوموناس جیسے ہسپتال کے بگز کی اونچی سطح تھی۔

ویلکم سینگر انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر ٹریور لالی نے کہا کہ ‘جس چیز نے مجھے حیرت میں ڈال دیا اور مجھے خوفزدہ کیا وہ ان بچوں میں نظر آنے والے ہیلتھ کیئر بگز کی مقدار تھی۔’ ‘یہ ان کے مائیکروبایوم کی 30 فیصد ہو سکتا ہے۔‘

لیکن جو چیز مجھ میں جوش بھرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس حیرت انگیز اعداد و شمار ہیں جس کی بنیاد پر ہم اس بات پر غور کریں کہ ہم پیدائش کی ابتدا پر ہی کس طرح انسانی نظام کو مناسب ڈھنگ سے تیار کرسکتے ہیں۔’

  • اگر آپ اپنے جسم کے تمام خلیوں کی گنتی کریں تو آپ انسان سے زیادہ مائیکروب ہیں کیونکہ آپ کا صرف 43 فیصد ہی انسان ہے۔
  • باقی سارے مائیکروبایوم ہیں جن میں بیکٹریا، وائرس، پھپھوند اور یک خلیائی آرکیا شامل ہیں۔
  • انسانی جینوم یعنی انسانوں کی جینیاتی ہدایات کا پورا سیٹ زیادہ سے زیادہ 20 ہزار ہدایات پر مبنی ہے اور اسے جین کہا جاتا ہے۔
  • لیکن جب آپ اپنے تما جینز کو مائیکروبایوم کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں تو سب مل کر دو کروڑ مائیکروبیل جینز ہو جاتے ہیں۔
  • ہمارے مائیکروبایوم کو ‘جینوم ثانی’ بھی کہا جاتا ہے۔

کیا اس سے بچے کی صحت متاثر ہوتی ہے؟

اس بات کا علم پہلے سے ہی ہے کہ جو بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں انھیں ٹائپ 1 کی ذیابیطس، الرجیز اور دمے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

قوت مدافعت کا نظام جو معمول کے مطابق نہ چل رہا ہو ان سب میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

قدرتی طور پر پیدا ہونے والے بچے اور آپریشن کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں میں فرق وقت کے ساتھ ختم ہوتا جاتا ہے اور اپنے پہلے یوم پیدائش تک برابر ہو جاتے ہیں۔

اس شعبے میں قوی خیال یہ ہے کہ جو بگز پہلے پہل ہمارے جسم میں آ بستے ہیں وہ ہمارے قوت مدافعت کے نظام کو دشمن اور دوست کی پہچان کرانے کے لیے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔

یو سی ایل کے محقق ڈاکٹر نائیجل فیلڈ نے کہا: ‘مفروضہ یہ ہے کہ ولادت کا لحمہ تھرموسٹیٹ لمحہ ہو سکتا ہے جو کہ مستقبل کے لیے ہمارے قوت مدافعت کے نظام کو طے کر دیتا ہے۔’

بیبی بایوم پروجیکٹ نامی یہ مطالعہ جاری رہے گا اور بچوں کو ان کی ولادت کے ساتھ نگرانی کرتا رہے گا اور امید کی جاتی ہے کہ اس سے مزید وضاحت سامنے آئے گی۔

معدہ

کیا کسی دوسری طرح سے بچے کے مائیکروبایوم کو تبدیل کر سکتے ہیں؟

ولادت کا طریقہ بچوں کے مائیکروبایوم پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے لیکن اینٹی بایوٹکس اور ماں کا اپنے بچوں کو دودھ پلانا بھی ہمارے انسانی نصف اور مائیکروبیل نصف کے نوخيز رشتے پر اثرات ڈالتا ہے۔

اس شعبے میں پہلے کی جانے والی تحقیق سے ‘ویجائنل سیڈنگ’ کا ٹرینڈ سامنے آيا ہے جس کے تحت آپریشن کے ذریعے ولادت کی صورت میں مائیں اپنے اندام نہانی سے نکلنے والی رطوبت کو بچے کے جسم اور منھ پر ملتی ہیں۔

لیکن تازہ تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ قدرتی طور پر پیدا ہونے والے بچوں کو بھی آپریشن کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں بہت زیادہ اندام نہانی کا بیکٹریا نہیں مل پاتا ہے۔

اس کے بجائے درد زہ کے دوران ماں کے فضلے سے بچے میں زیادہ بیکٹریا منتقل ہوتا ہے۔ محققوں کا خیال ہے کہ ویجائنل سیڈنگ ملنے سے بچوں کو خطرناک گروپ بی سٹریپ کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

مستقبل میں یہ ممکن ہے کہ آپریشن کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے کو پیدائش کے وقت ہی اچھے بیکٹریا کا مرکب دیا جا سکتا ہے تاکہ جراثیم کی دنیا میں ان کی ابتدا درست راستے پر ہو۔

ڈاکٹر لالی نے کہا: ‘یہ وہ بگز ہیں جو ہم سے منسوب ہیں اور ہم ان سے منسوب ہیں۔ میری دلچسپی یہ جاننے میں ہے کہ ماں سے بچے میں کون سے مائیکروبس یا جراثیم منتقل ہوتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ یہ بگز انسانوں کے ساتھ ہی گہرائی سے نشونما پاتے ہیں۔

‘ماں اور بچے کے رشتے سے ہم یہی سمجھنا اور محفوظ کرنا چاہتے ہیں ۔’

حاملہ خواتین کو کیا کرنا چاہیے؟

رایل کالج آف آبسٹریشین اینڈ گائناکلوجی کی نائب صدر ڈاکٹر الیسن رائٹ نے کہا کہ یہ دریافت بہت اہم ہیں اور اس سے خواتین کو سیزیرین سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔

انھوں نے کہا: ‘بہت سے معاملے میں سیزیرین جان بچانے والا طریقہ ہے اور یہ زچہ بچہ کے لیے مناسب چوائس ہو سکتی ہے۔

‘نوزائیدہ میں مائیکروبایوم کے اصل کردار اور اس کو تبدیل کرنے والے عوامل کے بارے میں ابھی وضاحت نہیں ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ اس تحقیق سے خواتین آپریشن سے منحرف نہیں ہوں گی۔’