’میں ادھر کورونا سے لڑ رہا ہوں اور وہاں گاؤں میں میرے بچے بھوک سے لڑ رہے ہوں گے۔ اسی پریشانی کے باعث میں اس حد تک پہنچ گیا کہ خودکشی کوشش کی۔‘
یہ کہنا ہے سرگودھا کے ایک نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والے کورونا سے متاثرہ عامر (فرضی نام) کا جو لاہور کے میو ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
عامر نے ہسپتال میں خودکشی کرنے کی کوشش کی اور اس واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد بی بی سی نے ان سے رابطہ کرنے اور اس انتہائی قدم کو اٹھانے کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔
’میں اتنا پریشان تھا کچھ سمجھ نہیں آیا‘
میں نے عامر کو فون ملایا تو بہت دھیمی ہوئی آواز میں ایک شخص نے فون اٹھایا۔ ان کی طبیعت کا حال پوچھنے پر کہنے لگے ’بیٹا ٹھیک ہوں۔‘
اپنا تعارف کروایا اور ان کے گھر والوں کی خیریت دریافت کی۔ اتنا ہی پوچھنا تھا کہ عامر کی آواز بھر آئی۔
میں نے پوچھا کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے؟ کیا گھر میں کوئی اور بھی بیمار ہے؟
تو جواب دیا کہ ’نہیں کوئی اور بیمار تو نہیں ہے لیکن میں بہت پریشان ہوں۔ مجھے یہاں 29 مارچ کو لایا گیا تھا اور میں گذشتہ 20 دن سے لاہور کے میو ہسپتال کے کورونا وارڈ میں زیر علاج ہوں۔ اب میں تنگ آ گیا ہوں۔‘
میں نے پوچھا کہ آپ کو کیا پریشانی لاحق ہے کیونکہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ نے خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے، کیا یہ درست ہے؟
جس کے جواب پر ان کا کہنا تھا ’اور کیا کروں، میں جانتا ہوں کہ یہ عمل غلط ہے اور مجھے نہیں پتا کیا ہو گیا تھا۔ میں اتنا پریشان تھا کہ کچھ سمجھ نہیں آیا اور میں نے وارڈ میں ہی اپنے آپ کو پنکھے کے ساتھ لٹکانے کی کوشش کی۔ مگر اسی وقت ہسپتال انتظامیہ نے مجھے قابو کر لیا اور ایک کمرے میں بند کر دیا اور کچھ دیر بعد مجھے دوسرے وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔‘
’میں گھر کا واحد کفیل ہوں‘
میں ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ عامر نے جواب دیا کہ ’چند روز قبل میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے‘ اور پھر زاروقطار رونے لگے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی والدہ جانوروں کے لیے چارہ کاٹ رہی تھیں اور کرنٹ لگنے کے باعث انتقال کر گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اتنا بے بس ہوں کہ اپنی والدہ کے جنازے پر بھی نہ جا سکا۔‘
انھوں نے اپنی پریشانی بتاتے ہوئے کہا کہ ’میری عمر 60 برس ہے اور میں گھر کا واحد کفیل ہوں۔ میری تین بیٹیاں ہیں اور میری بیوی ان پڑھ ہے اسے دنیا کا کچھ نہیں پتا۔ میں ایک قریبی ہوٹل پر کام کرتا ہوں جس سے میرے گھر کا خرچا چلتا تھا۔ اب میں نہیں جانتا کہ میرے گھر والے کس حال میں ہیں۔ کیونکہ میرے بچے اب اللہ کے آسرے پر ہیں۔‘
’گھر والوں سے رابطہ نہیں ہے‘
عامر کو اپنی بیماری، گھر والوں کی بھوک کی فکر، ماں کی موت کے دکھ کے علاوہ گھر والوں کی یاد بھی ستاتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اور نہ ہی میرا اہلخانہ سے کوئی رابطہ ہے کیونکہ ان کے پاس موبائل یا ٹیلی فون کی سہولت نہیں ہے۔ ہم سرگودھا کے ایک نواحی گاؤں میں رہتے ہیں جہاں ایسی کوئی ایسی سہولت بھی موجود نہیں کہ میں اپنے گھر والوں کو کوئی امداد ہی بھیج سکوں تا کہ وہ راشن لے لیں۔ ایسے کاموں کے لیے ہمیں شہر جانا پڑتا ہے۔‘
تاہم انھوں نے بتایا کہ ’ان کی جان پہچان کا ایک شخص سائیکل پر جا کر گھر والوں کو کچھ راشن دے آتا ہے اور اسی نے میری بات میرے گھر والوں سے کروائی۔ تب مجھے خبر ملی کہ میری والدہ کا بھی انتقال ہو گیا ہے۔ میری بیوی اور بچیوں نے ہی میری والدہ کا کفن دفن کیا۔ وہ سب میرے بغیر بہت مشکل میں ہیں۔‘
‘میں گھر جانا چاہتا ہوں’
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے عامر نے بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ انھیں یہ وائرس کہاں سے منتقل ہوا ہے۔ تاہم ان کے باقی گھر والے تندرست ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ وہ چند ہفتے پہلے گردے میں تکلیف کے باعث علاج کے لیے لاہور کے گنگا رام ہسپتال آئے تھے، جہاں ڈاکٹروں نے نھیں دو دن ہسپتال میں رکھا اور معائنے کے انھیں گردے میں پتھری کا بتایا اور کہا کہ وہ گھر جا سکتے ہیں اور ایک ماہ بعد واپس آئیں تاکہ ان کے گردے کی پتھری نکالی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا ’جب ہپستال سے چھٹی ہونے کے بعد جانے لگا تو مجھے کھانسی آئی جس پر ڈاکٹروں نے میرا کورونا ٹیسٹ کروایا جو مثبت آیا، حالانکہ مجھے ایسی کوئی علامات بھی نہیں تھی اور اب بھی میری طبیعت ٹھیک ہے۔ مجھے ایمبولینس میں میو ہسپتال منتقل کر دیا گیا اور تب سے میں ادھر ہوں۔‘
عامر کے کورونا ٹیسٹ میں خرابی
عامر کا دعویٰ ہے کہ اب تک ان کے تقریباً پانچ مرتبہ کورونا ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ’ہسپتال والے مجھے ایک دن کہتے ہیں کہ آپ کی رپورٹ ٹھیک آ گئی ہے اور دوسرے دن کہتے ہیں کہ آپ کی رپورٹ غلط آ گئی ہے۔ میں تو پریشان ہو گیا ہوں کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ان کا پہلا ٹیسٹ 11 دن بعد 8 اپریل کو کیا گیا۔ اس کے بعد دوسرا ٹیسٹ 11 اپریل کو پھر 12 اپریل، 15اپریل اور 17 اپریل کو کورونا ٹیسٹ کیے گئے۔
ان تمام ٹیسٹ میں کچھ کورونا ٹیسٹ منفی آئے اور کچھ مثبت آئے۔ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ایک دن منفی ٹیسٹ رپورٹ آنے کے بعد دوبارہ مثبت ٹیسٹ رپورٹ کیسے آ جاتی ہے۔
ہسپتال انتظامیہ کا موقف
بی بی سی نے اس واقعے پر مزید معلومات کے لیے لاہور میو ہسپتال کے چیف ایگزیکیٹو آفسر ڈاکٹر اسد اسلم سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عامر اپنے گھر کے معاشی مسائل کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور انھوں نے اسی وجہ سے خودکشی کرنے کی کوشش کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وارڈ میں عملے کی موجودگی کے باعث عامر کو بروقت روک لیا گیا۔ جبکہ ان کی والدہ کے انتقال نے بھی انھیں کافی دل برداشتہ کیا ہے۔
ڈاکٹر اسد سلم نے بتایا کہ عامر نے اپنی والدہ کے جنازے میں جانے کے لیے اجازت مانگی تھی لیکن ہم کورونا کے مریض کو اس وقت تک جانے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں جب تک اس کے دو کورونا ٹیسٹ منفی نہ آجائیں۔ اس لیے ہم نے عامر کو نہیں جانے دیا۔
عامر کے ٹیسٹ خراب آنے کے حوالے سے ڈاکٹر اسد اسلم سے پوچھا گیا کہ کیا ٹیسٹنگ کٹس خراب ہونے کے باعث یہ مسئلہ آ رہا ہے یا پھر کورونا وائرس اسی طرح اپنے مخصوص طریقے سے انسانی جسم سے ختم ہوتا ہے۔
اس پر ان کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ لیبارٹری کے ٹیسٹ پر ہی منحصر کرتے ہیں۔ جو رپورٹ ہمیں لیبارٹری کی جانب سے دی جاتی ہے اس کے مطابق مریض کا علاج بھی کیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق ہی اسے ہسپتال سے چھٹی بھی جاتی ہے۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے اگر ایک مریض کا ٹیسٹ منفی آنے کے بعد دوبارہ مثبت آجائے تو ہم اسے ’فالز نیگٹیو‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی تکنیکی خرابی کے باعث رپورٹ غلط آئی ہے۔
اس لیے ہم ایک کے بجائے ہر مریض کی دو ٹیسٹ رپورٹ منفی آنے کے بعد ہی اسے گھر جانے کی اجارت دے رہے ہیں۔