کورونا اور ایدھی: کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں صفِ اوّل پر کام کرنے والے ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار
کراچی کے مشہور میری ویدر ٹاور کے قریب سڑک پر واقع کیمپ کے باہر ایک ایمبولینس آ کر رکتی ہے۔ ڈرائیونگ سیٹ سے ایک بھاری جسامت کا شخص اترتا ہے اور غمزدہ لہجے میں کہتا ہے کہ ’کورونا کی مریض چھوڑ کر آیا ہوں۔ میرے تو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘
کیمپ میں موجود لوگ اس سمجھاتے ہیں کہ حوصلہ رکھیں، کچھ نہیں ہو گا، پریشان نہ ہوں۔ پھر اسے ہاتھ صاف کرنے کے لیے سینیٹائزر دیا جاتا ہے۔
یہ منظر فلاحی ادارے ایدھی ویلفیئر کے ایک کیمپ کا ہے۔ کراچی میں ٹاور سمیت سات مقامات پر ایسے خصوصی کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں سے کورونا کے مشتبہ مریضوں کی ہسپتال اور وہاں فوت ہو جانے والوں کی میتوں کی منتقلی کی جاتی ہے۔
پاکستان میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے بعد ملک کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ایدھی فاؤنڈیشن نے اپنی خصوصی ٹیمیں تیار کی ہیں۔ ان میں تین اقسام کی ٹیمیں ہیں ایک مریض کو ہسپتال منتقل کرتی ہے، دوسری انتقال کے بعد میت پلاسٹک میں لپیٹ کر سرد خانے پہنچاتی ہے جہاں انھیں غسل و کفن دیا جاتا ہے۔
تیسری ٹیم ماہرین کی ہدایت کی روشنی میں تدفین کرتی ہے۔ یاد رہے کہ کورونا وائرس میں ہلاک ہونے والے افراد کی قبر زیادہ گہری کھودنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس عمل کے لیے ایدھی کی ان خصوصی ٹیموں میں کام کرنے والے ملازمین کو خصوصی لباس اور تربیت فراہم کی گئی ہے اور وہ حفاظتی لباس، دستانے، سرجیکل ماسک اور لانگ بوٹ پہنتے ہیں۔
کراچی میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ایدھی فاونڈیشن کے یہ رضاکار صفِ اول پر کام کر رہے ہیں اور ان کے بعد طبی عملہ اور ڈاکٹرز آتے ہیں۔
ایدھی فاونڈیشن سے گذشتہ دس برس سے منسلک فاروق بلوچ نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے انھیں تربیت فراہم کی تھی کہ دستانے اور ماسک ضرور پہننا ہے، اگر کسی مشتبہ مریض کو لینے جانا ہے تو وہاں اس کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا، اگر مریض گاڑی میں بیٹھتا ہے تو گاڑی واپس لا کر اس پر مکمل طور پر سپرے کرنا ہے۔
کورونا کی مشتبہ مریضہ کو ہسپتال چھوڑ کر آنے والے ایمبولینس ڈرائیور شہزاد احمد کی گاڑی کے اندر اور باہر بھی وہ جراثیم کش سپرے کیا گیا جسے ماہرین کی تجویز پر تیار کیا گیا ہے۔
شہزاد احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں علم نہیں تھا کہ وہ جس مریضہ کو لے جانے والے ہیں اس میں کورونا کی موجودگی کا شبہ ہے۔
ان کے بقول کال آئی کہ گلستان جوہر میں خاتون کو تکلیف ہے اور انھیں سول ہسپتال لے جانا ہے۔ شہزاد کا کہنا ہے کہ وہ مریضہ کو لے کر جب سول ہسپتال کے قریب پہنچے تو خاتون کے بیٹوں نے بتایا کہ ان کی والدہ پر کورونا کی مریض ہونے کا شبہ ہے جبکہ ایمبولینس بلاتے ہوئے انھوں نے ایسا نہیں بتایا تھا۔
کورونا کے مشتبہ مریضوں کی اطلاعات بی اسی ایدھی کنٹرول روم میں موصول ہوتی ہیں جہاں عموماً زخمی، بیمار یا کسی انہونی میں ہلاک ہونے والے کی لاش اٹھانے کے لیے بھی اطلاع دی جاتی ہے۔
ڈیوٹی پر موجود آپریٹر کال کرنے والوں سے بنیادی معلومات حاصل کرتا ہے جس کے بعد ٹیم روانہ کی جاتی ہے لیکن ایدھی کے رضاکاروں کے مطابق تمام معلومات درست نہیں ہوتیں۔
فاروق بلوچ کا کہنا ہے کہ ’لوگوں نے خود پر ایک خوف طاری کر لیا ہے اس لیے کئی غلط کالز بھی آتی ہیں۔ اگر رات کو کسی نے غلطی سے بھی کہہ دیا کہ مجھے بخار ہو رہا ہے اور وہ شخص کھانسے تو علاقے والے پریشان ہو جاتے ہیں کہ اس کو تو 100 فیصد کورونا ہو گیا ہے۔
’جب وہاں ٹیم پہنچتی ہے اور کالر سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ آپ مجھے سامنے نہ لائیں بس نیچے والے فلیٹ میں رہنے والے سے معلوم کریں کہ وہ کیوں کھانس رہا ہے۔ ہمیں شک ہے کہ یہ وائرس پوری عمارت میں پھیل جائے گا‘۔
فاروق کے مطابق ’جب ہم ایسے افراد کے پاس جاتے ہیں جن کے بارے میں شکایت آئی ہو تو وہاں ان سے ہماری تلخ کلامی بھی ہو جاتی ہے۔ وہ سوال کرتا ہے کہ آپ کو کس نے بلایا ہے، کیا میں نے آپ کو کال کی تھی۔ کبھی کبھار ہمیں پولیس بھی طلب کرنی پڑتی ہے جو اس شخص کو ہسپتال منتقل کرنے میں مدد کرتی ہے اگر ٹیسٹ نگیٹو آئے تو وہ پرچہ لے کر آ جاتا ہے‘۔
ایدھی کے خصوصی مرکز پر بی بی سی کی ٹیم کی موجودگی کے دوران کنٹرول روم پر لیاری میں ایک مشتبہ مریض کی موجودگی کی اطلاع آئی، ٹیم گئی لیکن کچھ دیر کے بعد واپس آ گئی۔
اس ٹیم کے رکن کے مطابق ’اس شخص کو کھانسی تھی۔ لوگوں کو شبہ ہوا کہ کورونا ہے۔ مقامی ڈاکٹر نے بتایا کہ نہیں صرف کھانسی ہے اور علاج جاری ہے۔‘
فاروق بلوچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی میں کورونا کے پھیلاؤ اور مقامی منتقلی کے مریضوں کی بڑی تعداد سامنے آنے کے بعد جب بھی وہ کسی علاقے میں پہنچتے ہیں تو وہاں ایک خوف کا ماحول دکھائی دیتا ہے۔
’کال پر پہنچتے ہیں تو محلے میں ایک خوف سا ہوتا ہے جیسے یہاں سے ایک عجیب سے مخلوق نکل آئی ہے۔ ہمارے سامنے مریض ہوتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ مجھے ٹیم لینے کے لیے آ گئی ہے، یہ میری مدد کریں گے، اب میں بچ جاؤں گا ہم اس کو بس تسلی ہی دے سکتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا بس ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں‘۔
پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن کے چار ہزار ملازم کورونا آپریشن میں شامل ہیں اور کراچی میں فاروق بلوچ سمیت متعدد ملازم گذشتہ تین ہفتوں سے گھر نہیں گئے ہیں۔
فاروق بلوچ کا کہنا ہے کہ نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر جو خبریں اور افواہیں چل رہی ہیں کہ یہ وائرس اس سے پھیل رہا اور یوں پھیل رہا ہے اس سے ان کے خاندان بھی متاثر ہوتے ہیں۔
’میرے بچے کال کرتے ہیں کہ اب بس کر دیں۔ ایک مہینہ ہو گیا ہے، آپ گھر کیوں نہیں آ رہے۔ ظاہر ہے میں مریض اٹھا رہا ہوں، لاشیں اٹھا رہا ہوں، مجھے ہے تو کچھ نہیں لیکن میں پھر بھی کہتا ہوں کہ مجھے گھر نہیں جانا چاہیے۔
’پہلے میں اس کام سے فارغ ہوں، اپنا چیک اپ کروا لوں، تسلی کر لوں۔ اگر اس میں ایک دو تین لگتے ہیں تو لگ جائیں، مطمئن ہونے کے بعد اپنے خاندان میں جاؤں گا۔‘
کراچی میں ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینسز کے ذریعے 250 سے زیادہ مشتبہ مریضوں اور 30 سے زیادہ میتوں کی منتقلی کی گئی ہے۔ کورونا وائرس میں ہلاک ہونے والوں کی میتوں کی تدفین بھی ان کی ہی ذمہ داری ہے جس پر انھیں لواحقین کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فاروق بلوچ نے بتایا کہ ’جب ہسپتال میں کوئی ہلاکت ہو جاتی ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے۔ ہم لاش کو ایک خاص پلاسٹک میں لپیٹتے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ لاش ورثا کے حوالے نہیں کرنی ہے۔ انتظامیہ اور پولیس موبائل ہمراہ ہوتی ہیں۔
’ورثا سے ہم باہر ہی بات کرلیتے ہیں کہ یہ میت آپ کے گھر نہیں لے جائیں گے بلکہ یہ ایدھی سرد خانے جائے گی۔ اس کے بعد گھر لے کر آئیں گے لیکن میت کا صرف چہرہ آپ کو دکھائیں گے۔ آپ صرف قبر کی نشاندہی کریں وہاں ہماری ایک ٹیم قبر کی کھدائی اور تدفین کرے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورتحال میں بعض اوقات لواحقین ہم سے خفا بھی ہوتے ہیں لیکن ہمیں ہدایات کی پیروی کرنی ہوتی ہے۔‘
کورونا کی وبا کے دور میں ان رضاکاروں کو کچھ ایسے واقعات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے جو انسانیت کے نام پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔
رضاکار ذیشان مغل نے بتایا کہ کورنگی باغ علاقے میں کورونا میں مبتلازبیدہ نامی عورت کو جب ٹیم نے دفنایا تو اسی دوران ضلعی انتظامیہ کا ایک افسر دوڑتا ہوا وہاں پہنچا اور بتایا کہ یہ خاتون تو مسیحی تھیں انھیں مسلمانوں کے قبرستان میں کہاں دفن کر دیا۔
ذیشان کے مطابق اس انکشاف کے بعد ان کی ٹیم نے قبر کشائی کی، لاش قبر سے نکالی گئی اور پھر دوبارہ مسیحی قبرستان میں خاتون کی تدفین ہوئی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک مرتبہ جب ٹیم ہجرت کالونی سے ایک مشتبہ مریض کو لینے گئی تو کئی پڑوسیوں نے موبائل سے ویڈیو ریکارڈنگ شروع کر دی۔
ان کے مطابق ایسے واقعات سے مریض اور ان کے اہلخانہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور اس صورتحال میں لوگ ایمبولینس بلانے کی بجائے ٹیکسی میں چلے جاتے ہیں یا پھر بتاتے ہی نہیں ہیں۔