لئو کر لئو مقابلہ…
پیریز برگ میں سردیاں آ چکی ہیں۔ یہاں دو قسم کے درخت ہیں‘ سدا بہار اور پت جھڑ والے۔ سو کچھ درختوں پر ابھی بھی سبز پتوں کی بہار دکھائی دیتی ہے لیکن بیشتر درخت ٹنڈ منڈ ہو چکے ہیں۔ زمین پر سوکھے پتوں کا قالین سا بچھا نظر آتا ہے۔ ان پتوں میں نمایاں چنار کے پتے ہیں۔ انسانی ہاتھ سے مشابہہ پانچ کونوں والے۔ اکثر لان ان پتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ پیلے‘ نارنجی اور سرخ۔ تینوں رنگوں والے پتے۔ جہاں سرخ رنگ والے پتے زیادہ ہوں یہ قالین سرخ رنگ کا نظر آتا ہے۔ اللہ جانے میں غلطی کر رہا ہوں یا نہیں … یہاں اسے میپل (Maple) کہتے ہیں‘ لیکن میپل چنار نہیں ہے اور چنار میپل نہیں ہے ‘تاہم پتے بالکل ایک جیسے ہیں۔ صرف پتوں کی شکل ہی نہیں بلکہ سوکھنے کے بعد رنگ بھی ایک جیسا ہو جاتا ہے۔ کشمیر میں بے شمار چنار کے درخت ہیں اور اسی طرح سوکھ کر سرخ ہو جاتے ہیں‘ لگتا ہے جیسے درختوں پر آگ سی لگی ہو۔ کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کی آپ بیتی کا نام اسی تناظر میں ”آتشِ چنار‘‘ ہے۔ صاحبِ علم قارئین میری غلطی سے درگزر فرمائیں اور میپل اور چنار کو گڈ مڈ کرنے پر میری غلطی نکالنے کی بجائے اگر میری تصحیح کر دیں تو ان کی نوازش ہوگی۔ تاہم میپل اور چنار کے مابین کچھ زیادہ فرق نہیں (ممکن ہے دونوں واقعتاً ایک ہی درخت ہوں) سو میری اس تشبیہ اور موازنے میں اتنا فرق ہرگز نہیں جتنا جناب عثمان بزدار اور شیر شاہ سوری کے مابین ہے (شیر شاہ سوری سے میری جانب سے ڈیڑھ کروڑ معذرت)
صبح کافی پیتے ہوئے سوچا کہ قبلہ عثمان بزدار اور شیر شاہ سوری کی صلاحیتوں کے مابین جو بعد المشرقین ہے اس پر کچھ روشنی ڈالوں‘ مگر پھر خیال آیا کہ میں نے خود ابھی گزشتہ سے پیوستہ کالم میں لکھا تھا کہ ایف سولہ اور گدھا گاڑی کے مابین موازنہ نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا اپنی اس احمقانہ سوچ پر تین حرف بھیجے۔ حالانکہ دل کر رہا تھا کہ تین سے زیادہ حرف بھیجوں مگر محاورے کے ہاتھوں مجبور ہو کر تین حرف سے ہی کام چلانے کی کوشش کی‘ تاہم دنیا کے اس بے جوڑ ترین موازنے کے باعث شیر شاہ سوری کی وفات کے چار سو چوہتر سال بعد ہونے والی اس کی توہین کو بہر حال اتنی آسانی سے ہضم نہیں کیا جا سکتا۔ اب معاملہ ایسا آن پڑا کہ ”نہ پائے رفتن‘ نہ جائے ماندن‘‘ جیسی صورتحال در پیش تھی۔ موازنہ تو بذاتِ خود مرحوم شیر شاہ سوری کی عظیم ہتک کے مترادف تھا‘ لہٰذا سوچا کہ صرف اور صرف شیر شاہ سوری پر ہی کچھ لکھا جائے ‘تا کہ اس عظیم شخص کو خراج تحسین کی کوئی صورت نکل سکے اور موازنے سے پیدا ہونے والی توہین کا تھوڑا بہت مداوا کیا جا سکے۔
شیر شاہ سوری 1488ء میں بہار کے قصبہ سہسرام میں پیدا ہوا۔ چون سال کی عمر میں 1540ء میں ہندوستان کا بادشاہ بنا اور پانچ سال پانچ دن حکومت کرنے کے بعد 22 مئی1545 ء کو کالنجر قلعہ میں بارود خانہ پھٹنے کے باعث جاں بحق ہوا اور اپنے آبائی قصبے سہسرام میں دفن ہوا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ شیر شاہ سوری کی پانچ سال اور پانچ دن کی حکومت کو اگر ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسری طرف پورے مغلیہ دور کو (جو 1526ء میں ظہیر الدین محمد بابر کے دور سے شروع ہوا اور درمیان کے شیر شاہ سوری کے پانچ سال نکال کر 1857ء میں ختم ہوا تو انکا کُل دورِ حکومت تین سو چھبیس سال بنتا ہے) رکھا جائے تو یہ پانچ سال ان تین سو چھبیس سال پر بھاری ہیں۔
ہندوستان کا پہلا بندوبستِ اراضی شیر شاہ سوری نے کروایا اور بعد ازاں اسی بندوبست کی بنیادوں پر اکبر کے زمانے میں راجہ ٹوڈرمل نے دوسرا بندوبستِ اراضی کروایا۔ ہندوستان میں مواضعات کا نظام‘ زمین کا کھاتہ نمبر اور کھتونی نمبر‘ کھیوٹ اور فرد ملکیت وغیرہ کے ذریعے قطعہ ارضی کی نشاندہی کا طریقہ کار تبھی سے چلا آ رہا ہے۔ پورے ہندوستان کی اراضی کا بندوبست اور ریکارڈ بنوانا خالہ جی کا کھیل نہیں تھا‘ یہ کام شیر شاہ نے محض پانچ سال کے اندر اندر مکمل کروایا۔ تب ہندوستان کا کل رقبہ 4227356 مربع کلو میٹر تھا۔ اس ساری زمین کا پہلا بندوبست‘ جب اس زمین کا سرے سے کوئی ریکارڈ ہی نہیں تھا‘ پانچ سال کے اندر اندر مرتب کروا لیا۔ پاکستان کا کل رقبہ اس ٹوٹل رقبے کا محض 18.83 فیصد ہے اور پنجاب کا رقبہ 205344 مربع کلو میٹر ہے‘ جو تب کے ہندوستان کے کل رقبے کا محض چار اعشاریہ پچاسی فیصد ہے۔ صرف یہ پانچ فیصد سے بھی کم رقبہ سارے ریکارڈ کی موجودگی کے باوجود گزشتہ کئی برس سے کمپیوٹرائزیشن کے مرحلے سے گزر رہا ہے اور شہباز شریف اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں یہ سارا رقبہ پٹواری کے رجسٹر سے کمپیوٹر میں ٹرانسفر نہ کر سکا۔ تاہم بقیہ دس فیصد رقبہ (پنجاب کے کل رقبہ کا دس فیصد جو ہندوستان کے کل رقبے کے آدھے فیصد سے بھی کم ہے گزشتہ ڈیڑھ سال سے مکمل نہیں ہوسکا۔ اگر شیر شاہ سوری (اصلی) اس کام کو شیر شاہ سوری (نقلی) کی رفتار سے کرتا تو ہندوستان کی اراضی کا بندوبست تین سو سال میں مکمل کرواتا اور اگر اس کے الٹ کا حساب کریں تو جو کام شیر شاہ سوری (نقلی)ڈیڑھ برس میں یعنی 438 دن میں مکمل نہیں کر سکا شیر شاہ سوری (اصلی) یہ کام صرف اور صرف آٹھ دن میں مکمل کر لیتا۔ لئو کر لئو مقابلہ…!
شیر شاہ سوری کا سب سے بڑا کارنامہ جرنیلی سڑک یعنی جی ٹی روڈ کی تعمیر ہے۔ عام خیال ہے کہ یہ سڑک پشاور سے کلکتہ تک ہے ‘جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 4900 کلو میٹر طویل یہ سڑک افغانستان کے شہر کابل سے شروع ہو کر بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ تک ہے۔ پانچ ہزار کلو میٹر کے لگ بھگ اس طویل سڑک کا درمیانی پندرہ سو میل کا ٹکڑا‘ یعنی پشاور سے کلکتہ تک کا حصہ شیر شاہ سوری نے نئے سرے سے نہ صرف تعمیر کروایا بلکہ اس کے روٹ میں تبدیلی کر کے اس کے کنارے پر دو میل کے فاصلے پر ایک سرائے تعمیر کروائی۔ سایہ دار درخت لگوائے‘ پانی کے تالاب تعمیر کیے‘ ڈاک کے نظام کو تیز تر کرنے کے لیے ہر دس کوس بعد تازہ دم گھوڑوں کا اصطبل بنوایا۔ باولیاں تعمیر کیں اور باغات لگوائے۔ یہ سارا کام محض پانچ سال کے مختصر سے عرصے میں مکمل کروائے‘ جبکہ ادھر یہ عالم ہے کہ لاہور عبدالحکیم موٹروے (M-3) کی کل لمبائی 230 کلو میٹر ہے اور اس پر دونوں اطراف صرف دو دو سروس ایریاز ہیں جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے اسی ایک حالت میں کھڑے ہیں‘ اور ابھی ان کے مکمل ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اگر اصلی والا شیر شاہ سوری اس رفتار سے اپنی پندرہ سو میل لمبی جرنیل سڑک کو مکمل کرنے لگتا تو آج 2019ء کے آخر تک چار پانچ سو کلو میٹر کا ٹکڑا تو بہر حال مکمل ہو چکا ہوتا۔ باقی ہزار گیارہ سو کلو میٹر مکمل کرنے کے لیے مزید ایک ہزار سال کے قریب کا عرصہ درکار تھا۔ لئو کر لئو مقابلہ…!
میں نے بہار والے روہتاس قلعے کے نام اور یاد میں تعمیر کردہ دینہ کے پاس جرنیلی سڑک پر لاہور سے راولپنڈی جاتے ہوئے بائیں ہاتھ پر سڑک سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر شیر شاہ سوری کے تعمیر کردہ روہتاس قلعے کو دوبار دیکھا ہے۔ ہر بار حیرت پہلے سے دو چند ہو گئی اور ملال بھی اسی حساب سے بڑھا۔ گکھڑوں کی شورش دبانے کے لیے تعمیر ہونے والا یہ قلعہ اپنی مثال آپ ہے اور ایسا پر ہیبت اور عظیم الشان قلعہ ہے کہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ۔ یونیسکو کی ”ورلڈ ہیریٹیج سائٹ‘‘ ہے۔ چار کلو میٹر سے زیادہ لمبی فصیل کا حامل یہ قلعہ ایسا مضبوط اور پر شکوہ ہے کہ تفصیلات کے لیے ایک علیحدہ کام کا متقاضی ہے۔ دیواریں تیس سے پچیس فٹ تک بلند اور فصیل کی موٹائی تیس سے چالیس فٹ تک۔ دیواریں اپنے آخری سرے پر اتنی چوڑی کہ اس پر گھوڑا گشت کر سکے۔ آج اس قلعے میں سینکڑوں لوگ آباد ہیں اور انہوں نے اپنے گھروں کی ساری تعمیرات قلعے سے اکھاڑے ہوئے میٹریل سے کی ہیں۔ اگر آج کے شیر شاہ سوری کو یہ قلعہ دکھا کر کہا جائے کہ ایسا قلعہ بنا کر دکھائو تو وہ کہتا کہ ”دھاڑوئے‘ ہم بیس سالہ اقتدار کے دوران اپنے گائوں میں بجلی نہیں لگوا سکے ‘ آپ قلعہ بنانے کی بات کرتے ہو۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شیر شاہ سوری‘ جس کا اصلی نام فرید خان تھا افغان مہاجر تھا اور کسی سردار کا نہیں سپاہی کا بیٹا تھا جو اپنی محنت‘ بہادری‘ زورِ بازو اور جہدِ مسلسل کے باعث ایک سپاہی سے سردار اور بہار کے نواب کے سپہ سالار سے ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ بابر جب بہار آیا تو ایک کھانے کے دوران فرید خان نے سامنے پڑے ہوئے گوشت کو کاٹنے کے لیے پہلو میں لگے خنجر کو نکالا اور گوشت کاٹ کر کھا لیا۔ سامنے بیٹھے ہوئے بابر بادشاہ نے ساتھ بیٹھے مصاحب سے پوچھا کہ یہ نوجوان کون ہے؟ مصاحب نے بتایا کہ یہ فرید خان ہے۔ بابر نے کہا: اسے فوراً قتل کروا دو۔ ہمیں اس میں حکمرانی کی خو بو نظر آ رہی ہے۔ بابر نے یہ کہہ کر پلٹ کر دیکھا تو فرید خان کی جگہ خالی تھی۔ وہ بھی بابر کے ارادے کو بھانپ گیا تھا اور اُٹھ کر چلا گیا۔ بابر کا اندازہ بھی درست ثابت ہوا اور فرید خان کی معاملہ فہمی بھی سو فیصد ٹھیک نکلی۔ وہ خالی ہاتھوں سے شیر مار کر فرید خان سے ”شیر شاہ‘‘ بنا۔ اسے حکمرانی نہ تو خیرات میں ملی اور نہ ہی خوابوں اور استخاروں کے طفیل بخشش میں ملی۔ اس کا کوئی باس نہیں تھا جو ہر ہفتے اس کو بچانے کے لیے دارالحکومت سے بھاگا چلا آتا ہو اور اس کے حسبِ خواہش ٹرانسفروں کا طومار لگا دیتا ہو‘ اور نہ وہ ایسا حکمران تھا کہ اس کے دو چار دوستوں اور تازہ تازہ پیدا شدہ ان گنت رشتے داروں کے علاوہ پوری سلطنت میں ایک بھی شخص ایسا نہ ملے جو اس کے بارے میں کلمۂ خیر کہہ سکے۔ لئو کر لئو مقابلہ…