منتخب تحریریں

اوئے بختیاریا ہشیار ہو جا!

Share

گزشتہ رات مجھے نیند نہیں آئی۔ بڑی دیر تک بستر پر کروٹیں لینے کے بعد میں اُٹھ کر ٹی وی لائونج میں آ گیا اور ریموٹ ہاتھ میں پکڑ کر ٹی وی چینلز کے ’’دوالے‘‘ ہو گیا۔ اکثر پہ صبح والے پروگرام ہی دہرائے جا رہے تھے۔ چنانچہ اُکتا کر میں کچن میں چلا گیا۔ 

ایک پیالہ دودھ سے بھرا اور مائیکرو ویو اوون پر گرم کرکے اُس میں ڈبل روٹی کے دو سلائس ڈالے۔ مگر پھر ویسے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

کوئی بےچینی سی تھی جو مجھے سونے نہیں دے رہی تھی حالانکہ اس وقت تک صبح کے تین بج چکے تھے۔ 

میں ایک دفعہ پھر ٹی وی لائونج میں آ کر بیٹھ گیا۔ اچانک مجھے ندیم افضل چن کی آواز سنائی دی ’’اوئے بختیاریا وڑ جانی دیا، تینوں نیندر نئیں آرئی۔ 

اوئے وڑیں نیندر کسے نوں وی نئیں آئی، پر حکومت دس دی نئیں پئی‘‘۔ (اوئے بختیار،بدبختا، بیوقوفا، تمہیں نیند نہیں آ رہی، اوئے وڑیں نیند کسی کو بھی نہیں آ رہی، مگر حکومت بتا نہیں رہی)۔ 

لوگوں نے اس طرح کے وائس مسیج کو اور طرح سے لیا مگر مجھے اس میں بہت پیار نظر آیا، میں یہاں اسے مثبت معنوں ہی میں لے رہا ہوں بہرحال اس آواز نے مجھے کچھ سہارا بھی دیا اور اس سے دل کو کچھ تکلیف بھی پہنچی۔ انسان اکیلا کسی پریشانی میں ہو تو اسے تکلیف زیادہ ہوتی ہے لیکن اگر سب کے سب پریشان ہوں تو پریشانی کم ہو نہ ہو مگر اس کی کیفیت بدل جاتی ہے۔

اب مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ مجھے نیند کیوں نہیں آ رہی۔ میں بہت دنوں سے کورونا کی وبا سے دھیان ہٹانے کے لئے ہنس کھیل رہا تھا۔ حسبِ عادت جگتیں کر رہا تھا۔

 ظاہر ہے یہ حقیقت سے فرار کا ایک طریقہ تھا، مگر یہ فرار زیادہ دیر کام نہیں آتا، میں جو سونے کی کوشش کر رہا تھا اور نیند نہیں آ رہی تھی، چنانچہ وقت ’’ٹپانے‘‘ کے لئے کبھی ٹی وی آن کرتا تھا اور کبھی دودھ گرم کر کے اس میں سلائس ڈبو کر کھانے کی کوشش ہی کی، مگر کھایا نہیں گیا، کیونکہ جس حقیقت سے میں منہ چھپا رہا تھا، گزشتہ رات اس حقیقت نے میرا منہ چڑانا شروع کردیا۔

 عجیب خیالات میرے ذہن میں کلبلانے لگے، کبھی میں سوچتا کہ ابھی تو کورونا نے صرف اپنا تعارف کرایا ہے اور جب یہ اپنی ساری کمینگی کے ساتھ میدان میں اُترا، تو کیا ہوگا؟

 امریکہ اور یورپ جیسی سپرپاورز اس کے سامنے بےبس نظر آ رہی ہیں اور ہم کیا، پدی کا شوربا کیا۔ 

نہ ہمارے پاس وسائل ہیں، نہ ہمارے پاس دعائوں کے علاوہ اس کا تدارک کرنے والے ماہرین موجود ہیں۔ جب اسپتال بھر گئے اور میرے منہ میں خاک، غربت، افلاس اور بےروزگاری کے عفریت نے پسے ہوئے طبقوں کو اپنی گرفت میں لیا تو جدید آبادیوں میں چین کی نیند سونے والوں کی یہ لوگ نیندیں اُڑا دیں گے۔ 

سب سے زیادہ خوفناک خیال جس نے میری روح میں بھونچال ڈال دیا، وہ یہ تھا کہ جب گھروں میں کئی کئی دن فاقے ہوتے ہیں تو محلات کو للکارنے کی ہمت نہ رکھنے والے طبقے کی بیبیوں کے سروں سے دوپٹے ہی اُتر جاتے ہیں۔

مگر میری عادت ہے کہ میں جہاں کسی صورت حال کا بدترین پہلو دیکھ کر اور دکھا کر پریشانی کی آخری حدوں کو چھونے لگتا ہوں تو میرے دل کے تاریک گھروندے میں نور کی ایک کرن میرے دل کی دنیا بدل کر رکھ دیتی ہے۔

 چنانچہ ان لمحوں میں ایسا ہی ہوا، مجھے لگا کہ مجھے ندیم افضل چن کی آواز سنائی دے رہی ہے، وہ کہہ رہا ہے ’’بختاریا وڑ جانی دیا، تو کن سوچوں میں پڑ گیا ہے، چل جا کے سو جا، تاکہ تیرا دماغ پُرسکون ہو سکے اور پھر مایوس لوگوں میں اُمید کی کرن جگانا شروع کر دے‘‘۔ 

یہ میرے دل کی آواز تھی، اگر محض پریشانی سے کوئی مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو پھر ہمیں کسی پریشانی سے پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ کورونا اُن لوگوں پر حملہ آور ہوتا ہے جو ایک تو احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے اور اُس کے علاوہ ان لوگوں پر جن میں قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے۔ پریشانی سے انسان کو نہ صرف بلڈ پریشر ہوتا ہے، شوگر ہوتی ہے اور ہارٹ اٹیک ہوتا ہے بلکہ یہ سب سے زیادہ انسان کی قوتِ مدافعت کو کمزور کرتا ہے۔ 

کورونا نزلے ہی کی ایک صورت ہے اور نزلے کے بارے میں ایک فارسی محاورے کا ترجمہ ہے کہ نزلہ انسان کے کمزور حصے پر گرتا ہے۔ چنانچہ پاکستانی قوم کو جہاں نہ صرف یہ کہ ہر قسم کی صورتِ حال کے لئے تیار ہونا چاہئے وہاں ہر پاکستانی کو ایک سپاہی کی طرح اس کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔ 

وہ تمام حفاظتی تدابیر جو ٹی وی سے بیسیوں نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں دفعہ عوام تک پہنچ چکی ہیں، ان پر عمل ہی اس کے خلاف جنگ کرنے والوں کا ہتھیار ہو گا۔

یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے رمضان کے مقدس مہینے سے خوف آ رہا ہے۔ حکومت نے اس سلسلے میں عالمِ اسلام کے دوسرے ملکوں کے برعکس نمازِ تراویح کے حوالے سے علماء کی مشاورت سے کچھ شرائط کے ساتھ نمازِ جمعہ اور تراویح کی اجازت دے دی ہے جبکہ میں ان تمام شرائط کی دھجیاں اُڑتے ابھی سے دیکھ رہا ہوں۔

 تراویح ایک نفلی عبادت ہے اور یہ عبادت، جس میں ہنگامی حالت میں اجتہاد کرکے ہی علماء اگر عوام کو گھروں میں ادا کرنے کی تلقین کرتے تو وہ گناہ گار نہ ہوتے۔ اللہ کی طرف سے اس کا اجرِ عظیم پاتے۔ 

چلو میرے بختیاریو، اگر تمہیں خود پر رحم نہ آئے تو اپنے بچوں پر ہی رحم کرنا۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور پریشان نہیں ہونا، ورنہ یہ دشمن اپنی بدترین کمینگیوں کے ساتھ ہمارے وطن کو برباد کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے۔ اسے اس کے ارادے میں کامیاب نہیں ہونے دینا!