سیاست بیچاری تو تائب ہو چکی۔ سابق حکمرانوں کا حال اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ کچھ کہنے کے قابل نہیں رہے۔ مسئلہ معیشت کو تائب کرنا ہے۔ اس بارے میں لگتا ہے ہمارے موجودہ حکمرانوں کے پاس کچھ زیادہ سوچ نہیں۔ ٹامک ٹوئیوں سے کام چلا رہے ہیں لیکن جسے کہتے ہیں کوئی ہمہ گیر ایجنڈا وہ ان کے پاس نہیں۔
اس کورونا بیماری نے تو ایک ایسا موقع فراہم کیا ہے جس میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ حالات نارمل نہیں رہے، غیر معمولی ہو چکے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پہ چند ماہ پہلے یہ کہنا ناممکن تھا کہ یک طرفہ طور پہ غیر ملکی قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسی بات بے وقوفی کے زمرّے میں سمجھی جاتی لیکن جہاں اس وائرس نے ہر چیز اُلٹ پُلٹ کر دی ہے وہاں غیر معمولی خیالات کو نارمل بنا دیاہے ۔ اب تو عین میانہ روی کی بات لگتی ہے اگر قرضوں کو ری شیڈول کرنے کا کوئی کہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قرضوں کی بات کی تو ہے لیکن جس زوردار طریقے سے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہم اگلے دو تین سال قرضوں کو واپس کرنے کی کسی پوزیشن میں نہیں ہوں گے ایسا نہیں کیا گیا۔ عمران خان کے پاس موقع ہے کہ اس موضوع پہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری تیسری دنیا کی آواز بنیں۔
قرضے واپس نہ کریں تو آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہم تو آئی ایم ایف کے پاس اس لئے گئے تھے کہ خزانہ خالی تھا، اپنی ضروریات کیلئے نہیں بلکہ قرضے واپس کرنے کے لئے‘ یعنی آئی ایم ایف کے قرضے سے پرانے قرضے ہم نے واپس کرنے تھے۔ باالفاظ دیگر نیا ادھار پرانے ادھار کو چکانے کیلئے ناگزیر سمجھا گیا۔ اس بیماری نے کچھ حالات ہی ایسے پیدا کر دئیے ہیں کہ باغیانہ روشیں نارمل لگنے لگی ہیں۔ جہاں تک آئی ایم ایف پروگرام پہنچا ہے اب نادر موقع ہے کہ وہیں پہ ختم کر دیا جائے۔
نارمل حالات میں تو کہاجاتا کہ یہ کیسے ممکن ہے ، پابندیاں لگ جائیں گی، پاکستان کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑے گا، عالمی مالیاتی دنیا سے ملک الگ کر دیا جائے گا‘ لیکن اب جو حالات ہیں اور جو بنتے جا رہے ہیں وہ تو کسی عالمی ادارے کی طرف سے مالیاتی پابندیوں سے کہیں سخت ہیں۔ صرف پاکستان کی معیشت نہیں بلکہ عالمی معیشت پریشر میں آ چکی ہے ۔ پوری عالمی معیشت کو ری سیشن (recession) میں جانے کا خطرہ ہے۔ پاکستان کو پھر کس چیز کا ڈر ہے؟ حکمران ہمت دکھائیں۔ قرضہ جات کی اگلے دو تین سال نہ واپسی کرنے کااعلان کر دیں اور ساتھ ہی آئی ایم ایف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پروگرام کو ختم کر دیں۔
پاکستانی معیشت کو تیل کی قیمتوں کا ایک سنگین مسئلہ رہا ہے‘ لیکن تیل کی قیمتیں ایسے گر رہی ہیں کہ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا۔ اس صورتحال سے بھی ہمارے حوصلے بڑھنے چاہئیں کہ اگر ہم آئی ایم ایف اور قرضوں کے حوالے سے کوئی بڑا اعلان کرتے ہیں تو ہمیں کسی بڑی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تیل سستا لیں اور اپنے خرچے کم کریں۔ کورونا بیماری کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کی آمدورفت میں ویسے بھی فرق پڑ چکاہے ۔ اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے موٹر کاروں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ پاکستان کو موٹر کاروں کی ضرورت نہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے۔ جو دو نمبر کاریں پاکستان میں بنتی ہیں اس کی ہمیں کیا ضرورت ہے؟ ہمیں تو بسوں اور ٹرکوں کی مینوفیکچر نگ پردھیان دینا چاہیے۔ کاروں کی تیاری پاکستان میں بند ہونی چاہیے ۔ بسیں تیار ہوں پھر تو کوئی بات ہے۔
داخلی محاذ پہ اور بھی بہت اقدامات کی گنجائش نکلتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) راہ راست پہ نہیں آ رہے اوراس بات پہ ڈٹے ہوئے ہیں کہ پرانے ٹیرف میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اگرایسا ہے تو ریاستِ پاکستان کس مرض کی دوا ہے۔ چند آئی پی پیز ہیں اور وہ تائب نہ ہوں۔ ہمارے جیسے ملک میں ایک تو ہوتا ہے قاعدہ و قانون۔ ساتھ ہی ہوتی ہے ریاست کی قوت ۔ نون لیگ کی سیاست کیسے تائب ہوئی؟ قانون حرکت میں آیا لیکن قانون کے پیچھے نیب کا ڈنڈا تھا اور وہ ایسے چلا کہ نون لیگ کی قیادت کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ اگر آج وہ قیادت چپ ہے تو قانون کی وجہ سے نہیں بلکہ قانون کے پیچھے اُس جبر کی وجہ سے ۔ سعودی شاہی خاندان کتنا طاقتور ہے لیکن پرنس محمد بن سلمان نے طاقتور شہزادوں کے ساتھ کیا روّیہ اپنایا۔ اُن میں سے بہتوں کو اُٹھا لیا گیا اور ریاض کے پرتعیش ہوٹل رٹز کارلٹن میں رکھاگیا۔ پھر اُن کی گرم و سرد تفتیش ہوئی اور اُن سے پتہ نہیں کتنی رقم نکلوا لی گئی۔ کسی شہزادے نے چُوں بھی نہ کی۔ رٹز کارلٹن والی تفتیش ختم ہو چکی ہے لیکن جو شہزادے اُس تجربے سے گزرے اُن میں سے کسی ایک کی ہمت نہ ہوئی کہ باہر کی دنیا کو بتائے کہ پرنس محمد نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ اور یہاں آئی پی پیز راہ راست پہ نہیں آ رہے۔ کچھ نیب سے پوچھ لیں ، کچھ پرنس محمدکی مثال اپنے سامنے رکھیں۔
پاور پروڈیوسرز نے بہت کچھ کما لیاہے۔ اپنی لگائی گئی پونجی کئی مرتبہ پوری کرچکے ہیں۔ انہیں نرم ہاتھوں سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ سیاست تائب ہوسکتی ہے تو آئی پی پیز نئی حقیقتوں کا ادراک نہیں کرسکتے؟ لیکن کسی درست پالیسی کے مرتب ہونے سے پہلے لازم ہے کہ حکومت میں کوئی شخص یااشخاص تو ہوں جو پاورپالیسی کی تمام پیچیدگیاں سمجھتے ہوں ۔ پہلے تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آئی پی پیز کو اتنی ڈھیل کیوں دی گئی۔ کسی تگڑے آدمی کو پاورپالیسی کاانچار ج بنایا جائے اوروہ پھر سرکولر قرضہ جات کے بارے میں کوئی پالیسی وضع کرے۔
کراچی سٹیل مل کا بوجھ کب تک ریاستِ پاکستان اُٹھاتی پھرے گی۔ دھیلے کی پروڈکشن وہاں ہونہیں رہی لیکن قومی
خزانے سے تنخواہیں ورکروں کو جارہی ہیں ۔ ورکر بھی کیاہیں‘ ہزاروں کی تعداد میں ضرورت سے زیادہ ہیں ۔ سالوں سے مفت کی کھارہے ہیں ۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ گولڈن ہینڈ شیک دیں اوراس مسئلے سے جان چھڑائیں۔ کوئی انویسٹر آتاہے تو جو رقم ملتی ہے اُس پہ اسے فروخت کردیں۔
قومی ائیر لائن کے بارے میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک اور سفید ہاتھی بن چکاہے ۔ یہ اب افسانوں کی بات ہے کہ پی آئی اے بہترین ادارہ ہوا کرتاتھا ۔ یہ ماضی کے قصّے ہیں۔ موجودہ حالت میں پی آئی اے نے درست ہونا نہیں۔ بیکار کی یونین بازی وہاں بہت طاقتور ہے اورحکومتیں اُن کا سامنا کرنے سے گھبراتی ہیں‘ لیکن موجودہ حکمرانی کا پھر فائد ہ کیا اگر بڑے فیصلے لینے سے قاصرہے ؟
موجودہ بندوبست اپنی نظیر پاکستانی تاریخ میں نہیں رکھتا۔ پاکستان میں ڈکٹیٹر رہے ہیں لیکن اُن کو بھی سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ موجودہ بندوبست اُس لحاظ سے ڈکٹیٹر شپ نہیں۔ سامنے سویلین چہرہ ہے اورسویلین حکمرانی کی جو بھی کمزوریاں یا خامیاں ہیں پیچھے سے معاونت مضبوط ہاتھوں کی ہے ۔ اس وجہ سے جو بھی حکمرانی کا بندوبست چل رہاہے وہ ہر لحاظ سے مستحکم ہے ۔ اسے خطرہ کسی اور طرف سے نہیں صرف اپنی نالائقی سے ہے ۔ اگر ایسا استحکام ہے ،اوریقینا ہے ، تو اس کا ملک کو تب ہی فائدہ ہے اگر اِس کی کوکھ سے بڑے فیصلے نکلیں۔ سیاست بھی تائب ہو ، سیاسی پارٹیاں دَبی ہوں ، حکمرانی کو کہیں سے بھی کوئی خطرہ نہ ہو لیکن اس کا فائدہ کیا اگر ملک کی تقدیر پہ کوئی خاطر خواہ اثر نہ پڑ ے۔
پرابلم یہ ہے کہ بڑے فیصلوں کیلئے اُس قسم کا ذہن بھی چاہیے۔ ہمت اورسوچ نہ ہو تو حالات جتنے بھی ساز گار ہوں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اس قسم کی سوچ موجودہ حکمرانی میں نظر نہیں آتی ۔ مسائل بڑے اور اُن سے نبرد آزما ہونے والے انسان محدود صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔یہ فرق کیسے پورا ہوگا ؟کون پورا کرے گا؟