صحت

کورونا وائرس کچھ ممالک میں زیادہ جان لیوا کیوں؟ جواب سامنے آگیا

Share

نئے نوول کورونا وائرس سے ایشیا کے مقابلے میں یورپ اور امریکا میں زیادہ اموات ہوئی ہیں اور طبی ماہرین کے لیے یہ سوال معمہ بنا ہوا تھا کہ مختلف خطوں میں ہلاکتوں کی شرح میں اتنا فرق کیوں ہے۔

اب چین کے سائنسدانوں نے اس کا جواب دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیا وائرس کچھ ممالک میں بہت زیادہ جان لیوا کیوں ثابت ہورہا ہے۔

چین کی ژجیانگ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر لی لان جوآن اور ان کی ٹیم نے مریضوں کے ایک چھوٹے گروپ میں اس وائرس کی اتنی اقسام کو دریافت کیا، جو اس سے پہلے رپورٹ نہیں ہووئی تھیں۔تحریر جاری ہے‎

درحقیقت وائرسز میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں عموماً نہیں ہوتیں اور سائنسدانوں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ کورونا وائرس کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے۔

اس ٹیم نے پہلی بار لیبارٹری شواہد کی بنا پر یہ بھی ثابت کیا کہ اس وائرس کی کچھ اقسام دیگر کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔

اس تحقیق کو ابھی کسی طبی جرنل میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ اس کے نتائج ایک اوپن ویب سائٹ medRxiv.org میں شائع ہوئے جس میں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ نیا کورونا وائرس اپنے اندر متعدد تبدیلیاں لانے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے۔

تحقیق میں پہلی بار یہ شواہد بھی فراہم کیے گئے کہ اس وائرس کی اقسام امراض کی شدت یا نقصان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

تحقیق میں وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں کی تفتیش کے لیے غیرمعمولی طریقہ کار کو اپنایا گیا اور ہانگ زو کے 11 کووڈ 19 کے مریضوں میں سے وائرل اقسام کے نمونے حاصل کیے گئے اور پھر دیکھا گیا کہ وہ خلیات کو متاثر کرنے اور مارنے میں کتنے موثر ہیں۔

محققین نے دریافت کیا کہ یورپ بھر کے بیشتر مریضوں میں اس وائرس کی جان لیوا اقسام موجود ہیں جبکہ امریکا کے مختلف حصوں جیسے ریاست واشنگٹن میں اس کی معتدل شدت کا باعث بننے والی اقسام کو دریافت کیا گیا۔

مگر نیویارک میں اسی ٹیم کی ایک الگ تحقیق میں اس وائرس کی جو قسم دریافت ہوئی، وہ یورپ سے وہاں پہنچی تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہاں شرح اموات بیشتر یورپی ممالک سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔

مگر محققین کے مطابق کمزور اقسام کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایک کے لیے خطرہ کم ہوگیا، درحقیقت 30 اور 50 سال کی عمر کے 2 مریضوں میں وائرس کی کمزور قسم موجود تھی مگر وہ بہت زیادہ بیمار ہوگئے، اگرچہ وہ دونوں آخر میں بچ گئے، مگر زیادہ عمر والے مریض کو آئی سی یو میں داخل کرنا پڑا۔

اس تحقیق سے مختلف خطوں میں اموات کی شرح میں فرق پر روشی ڈالی گئی، کیونکہ ابھی ہر ملک میں اموات اور کیسز کی شرح مختلف ہے اور سائنسدانوں کی جانب سے مختلف وضاحتیں کی جاتی ہیں۔

جینیاتی سائنسدانوں نے پہلے شبہ ظاہر کیا تھا کہ وائرس کی مختلف اقسام اموات کی شرح میں اس فرق کا باعث بنتی ہیں مگر کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔

اس نئی تحقیق کے نتائج اس وبا کو مزید پیچیدہ بناتی ہے کیونکہ بچنے کی شرح کا انحصار متعدد عناصر جیسے عمر، پہلے سے کوئی بیماری یا خون کے گروپ پر بھی ہوتا ہے۔

ہسپتالوں میں کووڈ 19 کے تمام مریضوں کا علاج ایک ہی بیماری سمجھ کر کیا جاتا ہے یعنی ایک جیسا علاج ہوتا ہے، مگر چینی سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ کسی خطے میں وائرس کی قسم کی وضاحت کی جانی چاہیے تاکہ اس کے مطابق علاج کیا جاسکے۔

چینی میڈیا کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر لی لان جوآن پہلی سائنسدان تھیں جنہوں نے ووہان کو لاک ڈائون کرنے کی تجویز دی تھی اور حکومت نے جنوری کے تیسرے عشرے میں اس پر عمل بھی کیا تھا۔

اس تحقیق کا حجم چھوٹا تھا جس کا مطلب ہے کہ وائرس کی اقسام پر دیگر تحقیقی رپورٹس میں سیکڑوں یا ہزاروں اقسام بھی دریافت ہوسکتی ہیں۔

اس تحقیق میں 30 سے زائد اقسام کو دریافت کیا گیا جن میں سے 19 اقسام بالکل نئی تھیں۔

تحقیق کے مطابق ان تبدیلیوں سے وائرس کے اسپائیک پروٹین (وہ حصہ جو یہ وائرس کسی خلیے کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے) کے افعال میں تبدیلیاں آتی ہیں۔

اس خیال کو ثابت کرنے کے لیے تحقیقی ٹیم نے خلیات کو اس وائرس کی مختلف اقسام سے متاثر کیا اور معلوم ہوا کہ سب سے زیادہ جارحانہ اقسام کمزور اقسام کے مقابلے میں 270 گنا زیادہ وائرل لوڈ کا باعث بنتی ہیں جبکہ وہ خلیات کو بھی بہت تیزی سے مارتی ہیں۔