کورونا سے متعلق غلط بیانی کرنے پر امریکی ریاست نے چین پر مقدمہ کردیا
کورونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار کرنے کے حوالے سے جہاں امریکی حکومت نے خفیہ اداروں کے تحت تفتیش شروع کر رکھی ہے، وہیں اب امریکا کی ایک ریاست نے کورونا وائرس کو دنیا بھر میں پھیلانے اور اس وائرس کے حوالے سے غلط بیانی کرنے پر چین پر مقدمہ ہی دائر کردیا۔
گزشتہ ہفتے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ امریکی حکومت نے اس بات کی تفتیش شروع کردی ہے کہ کیا واقعی کورونا وائرس چین کی لیبارٹری میں تیار ہوا، تاہم ان الزامات کو جہاں چین نے مسترد کیا ہے، وہیں عالمی ادارہ صحت اور خود ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی نے بھی جھوٹا قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ افواہیں درست نہیں۔
تاہم اب کورونا سے متاثرہ امریکی ریاست میسوری نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے چینی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ریاست میسوری کے اٹارنی جنرل نے ریاست میں موجود فیڈرل کورٹ میں چین کے خلاف مقدمہ دائر کیے گئے مقدمے میں دعویٰ کیا ہے کہ چین نے کورونا وائرس سے متعلق غلط بیانی کی اور دنیا کو یہ نہیں بتایا کہ مذکورہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔
ریاست میسوری کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں چین کو غفلت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین نے عالمی ادارہ صحت کو بھی کورونا وائرس کے حوالے سے تاخیر سے بتایا اور چین نے یہ معلومات بھی فراہم نہیں کی کہ مذکورہ وائرس کیسے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔
مقدمے میں دعویٰ کیا گیا کہ چینی سرکاری حکام نے ووہان شہر میں کورونا کے کیسز سامنے آنے کے بعد تقریبا 4 ہزار افراد کے لیے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور پھر ووہان سے لوگوں کو دنیا بھر میں جانے کی اجازت بھی دی۔
دعوے میں یہ نہیں کہا گیا کہ کورونا وائرس چین نے لیبارٹری میں تیار کیا یا نہیں، البتہ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے امریکی ریاست کو جانی، مالی و جذباتی نقصان اٹھانا پڑا اور وہاں پر زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
ریاست میسوری امریکا کی وہ پہلی ریاست بن گئی ہے، جس نے کورونا وائرس کے حوالے سے امریکی عدالت میں چین کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے، اس سے قبل امریکا کے متعدد کاروباری حضرات نےبھی امریکی فیڈرل عدالت میں چین کے خلاف مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا کی مرکزی حکومت نے چین کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کیا اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ریاست میسوری اور امریکی کاروباری حضرات نے چین پر امریکی عدالتوں میں ہی مقدمہ دائر کیا ہے، جس سے کئی عالمی قوانین کے ماہرین بھی حیران ہیں۔
عالمی قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست میسوری اور امریکی کاوروباری افراد کی جانب سے چین پر دائر کیے گئے امریکی عدالتوں کے مقدمات کی سماعت نہیں ہو سکتی، کیوں کہ چین کو عالمی قوانین کے تحت خود مختاری حاصل ہے اور چینی ریاست کے خلاف دائر کیے گئے کسی بھی مقدمے کی سماعت امریکی عدالتوں میں نہیں ہوسکتی۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے انٹرنیشل لا ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ٹام گنسبرگ کا کہنا تھا کہ عالمی خود مختاری قوانین کے تحت چینی ریاست کے خلاف کسی بھی مقدمے کی سماعت امریکی عدالتوں میں نہیں ہو سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکا کی کسی بھی ریاست کو چین کے خلاف مقدمہ دائر ہی کرنا ہے تو وہ کسی عالمی فورم پر چین کے خلاف مقدمہ دائر کر سکتی ہیں۔
امریکی عالمی قوانین کے ماہرین نے ریاست میسوری کی جانب سے چین کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دیا اور کہا کہ اس سے امریکی حکام اپنی نااہلی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ممکنہ طور پر اس قدم کو ٹرمپ کی سیاسی جماعت رواں برس نومبر میں ہونے والے انتخابات کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
خیال رہے کہ ریاست میسوری میں 22 اپریل کی صبح تک کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 7 ہزار کے قریب جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 280 تک جا پہنچی تھی۔
مجموعی طور پر کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا ہے، جہاں 22 اپریل کی صبح تک کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 8 لاکھ 25 ہزار سے زائد جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 45 ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔
دنیا بھر میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 22 اپریل کی صبح تک 25 لاکھ 65 ہزار سے زائد جب کہ ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 77 ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔