’میرے خیال میں میرے والد کو ایک اے ٹی ایم سے نکالے گئے نوٹوں سے وائرس منتقل ہوا اور پھر یہ بہت سے لوگوں تک پھیل گیا۔‘
مقبول (فرضی نام) کے گھر کے دروازے پر ایک پرچہ چسپاں ہے جس پر یہ تحریر درج ہے، ’خطرہ! اس گھر میں کورونا کا مریض موجود ہے۔ داخلہ ممنوع ہے۔ متعدی وائرس کا علاقہ۔‘
مقبول قرنطینہ میں ہیں اور اس وقت اپنے گھر کی کھڑکی کی دوسری جانب کھڑے ایک پولیس اہلکار کو اپنے والد کے کورونا سے متاثر ہونے کے بارے میں بتا رہے ہیں۔
ان کے والد ہسپتال میں داخل تھے، جبکہ خود مقبول، ان کی والدہ، اہلیہ اور تین دیگر رشتہ داروں میں اب تک کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔
یہ اسلام آباد کے نواحی علاقے ترامڑی کی ان چھ گلیوں میں سے ایک کا منظر ہے جو 9 اپریل کو اس وقت سِیل کر دی گئیں جب یہاں 16 مریضوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔
یہاں تعینات ایک پولیس اہلکار حفاظت کے پیشِ نظر مقبول کے گھر کے باہر کی جانب کھڑے ہیں اور وہ کھڑکی کی ایک جانب رہتے ہوئے مریض سے ان کے مسائل اور خیریت دریافت کر رہے ہیں۔
علاقے کے پولیس ایس پی ملک نعیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس علاقے میں درجنوں افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی کئی لوگوں کے ٹیسٹ کے نتائج آنا باقی ہیں مگر ہم نے یہاں کی چھ گلیوں کو سِیل کیا ہوا ہے۔ ہمارے کچھ اہلکار اس لیے بھی یہاں موجود ہیں کہ کسی گھر میں کچھ اہم ضرورت ہو تو وہ مہیا کی جاتی ہے لیکن کسی کو گھروں سے باہر نکلنے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔‘
اس گنجان آباد علاقے میں وائرس کیسے پھیلا، اس کا جواب دیتے ہوئے ایس پی ملک نعیم نے بتایا کہ وائرس کی تصدیق ایک شخص میں ہوئی لیکن تب تک ان کے اہلخانہ متاثر ہو چکے تھے۔
چونکہ ان میں وائرس کی تشخیص بروقت نہیں ہو پائی تھی اس لیے وہ کھانسی بخار جیسی علامات کے ہوتے ہوئے گلی محلے میں میل جول برقرار رکھ رہے تھے۔
مقامی دکان پر ان کی آمد ورفت جاری رہی جس کی وجہ سے دکاندار میں بھی وائرس منتقل ہوا اور اس دکاندار سے رابطے میں آنے والے افراد کو بھی قرنطینہ کر دیا گیا ہے اور ان کے ٹیسٹ کے لیے نمونے بھی لیبارٹری بھجوائے گئے تھے۔‘
اسلام آباد کے سیکٹر آئی سے محض دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ علاقہ دارالحکومت میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا دوسرا بڑا مرکز بن کر سامنے آیا ہے۔
اس سے قبل بارہ کہو کے علاقے کوٹ ہتھیال میں اس وقت کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی بڑی تعداد سامنے آئی تھی جب یہاں تبلیغی اجتماع میں شرکت کی غرض سے آئے ایک غیرملکی شخص میں وائرس کی تصدیق ہوئی۔
’ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہیں‘
ترامڑی کے علاقے سے متعلق ضلعی افسران بھی تصدیق کرتے ہیں کہ اس پھیلاؤ کا باعث ابتدائی طور پر ایک ہی شخص بنا۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘مقبول کے والد میں ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد ان کی اہلیہ، ان کے بیٹے اور بہو کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا۔ بیماری کی تشخیص سے قبل وہ قریب ہی واقع اپنے والد کے گھر جاتے رہے جس کی وجہ سے اس گھر کے کم از کم تین افراد میں اب تک کورونا وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے۔ جبکہ علاقہ کے جنرل سٹور پر کام کرنے والے چار افراد کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا، یہ وہی سٹور ہے جس پر مذکورہ خاندان کا آنا جانا تھا۔ جبکہ سٹور پر کام کرنے والے ملازمین کے بعض اہلخانہ کے ٹیسٹ بھی مثبت آئے ہیں۔ اور یوں اس علاقے کو سیل کر دیا گیا۔‘
بی بی سی کے پاس موجود سرکاری دستاویزات میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کا ریکارڈ موجود ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے ایک شخص درجنوں افراد میں اس وائرس کی منتقلی کا باعث بنتے رہے۔
یہ تب ہوا جب سماجی دوری کی بنیادی ہدایات پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا یا ان مریضوں کی بروقت ٹیسٹنگ نہیں ہو پائی۔
اور یہی شکایت خود مقبول نے بھی اپنی ایک ویڈیو میں کی۔ اس ویڈیو پیغام میں وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد کی طبیعت خراب ہوئی اور انھیں ایک ہفتے میں دو بار پہلے پمز اور پھر بینظیر بھٹو ہسپتال لے جایا گیا ’مگر ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہیں۔‘
مقبول دونوں ہسپتالوں کی دستاویزات دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ میرے والد کو کھانسی اور بخار تھا جبکہ اب مجھے اور میری والدہ میں بھی یہی علامات ہیں، آپ ہمیں کورونا کا ٹیسٹ تجویز کر دیں، مگر دونوں ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے ایک ہی بات کہی کہ نہیں، کورونا نہیں ہے۔ دو تین دن بعد جب حالت زیادہ خراب ہوئی اور میرے والد نے اپنے سرکاری ادارے سے منسلک ہسپتال میں بتایا تو انھوں نے کورونا ٹیسٹ کیا جو مثبت آ گیا۔‘
یہ اپنی طرز کا ایک واقعہ نہیں ہے۔ ملک میں سامنے آنے والے سینکڑوں افراد کو یہ وائرس تب لگا جب اس سے متاثرہ شخص نے لاعلمی یا بے احتیاطی کے باعث سماجی دوری پر عمل نہیں کیا۔ اب تک سامنے آنے والے اعداد و شمار میں ایسے افراد جو تبلیغی اجتماع کا حصہ تھے، بڑے پیمانے پر دیگر افراد میں یہ وائرس میں منتقل کرنے کا باعث بنے ہیں۔
راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے موصول ہونے والی ایک دستاویز میں ایسے درجنوں افراد کی نشاندہی کی گئی ہے جو ’سپر سپریڈرز‘ ہیں یعنی ان سے وائرس ان کے اہلخانہ، اہلِ محلہ یہاں تک کے دفاتر میں کام کرنے والے افراد تک پہنچا۔
کراچی سے آئے پچپن سالہ سہیل خالد (فرضی نام) کے ذریعے دس افراد میں یہ وائرس منتقل ہوا جن میں ایک ڈاکٹر بھی شامل ہیں، جو بعد میں ڈاکٹر کی اہلیہ میں بھی منتقل ہوا۔ سہیل خالد کچھ دن ہسپتال میں رہنے کے بعد کووڈ 19 سے ہلاک ہو گئے۔
’لوگ اپنے ماں باپ کا آخری بار چہرہ بھی نہیں دیکھ سکتے‘
راولپنڈی کے علاقے گوجر خان میں ایک ہی خاندان کے 16 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے۔ انھیں یہ وائرس اس وقت منتقل ہوا جب ان کی ایک رشتہ دار شائمہ طفیل (فرضی نام) فرانس سے پاکستان پہنچیں۔
دستاویزات کے مطابق خاتون ہسپتال پہنچنے کے دوسرے روز ہی ہلاک ہو گئیں۔ مگر ان کے خاندان کے بیشتر افراد اس وقت زیرعلاج ہیں یا گھر میں ہی قرنطینہ کیے گئے ہیں۔
خاتون کی ہلاکت کے بعد ان کی میت راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی لائی گئی تاکہ ہسپتال میں موجود ان کے اہلخانہ، جن میں ان کی بیٹی بھی شامل تھیں انھیں تدفین سے قبل آخری بار دیکھ سکیں۔
ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر خالد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت تکلیف دہ ہے کہ خاندان کے لوگ اپنی ماں یا باپ کی میت تک نہیں دیکھ سکتے۔ جب شائمہ طفیل نامی خاتون کی ہلاکت کا علم ہوا تو ہم نے سوچا کہ ہم ان کے اہلخانہ جو پہلے ہی تکلیف اور غیریقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں کے درد میں کچھ کمی کریں۔ اس لیے ہم نے پروٹوکول تشکیل دیا اور ہلاک ہونے والی خاتون کی میت ایمبولینس میں ہسپتال لے آئے۔ جس کے بعد ان کے لواحقین باری باری مخصوص راستے سے ہوتے ہوئے ایمبولینس میں گئے اور میت کا چہرہ دیکھا۔ اس سے ان کی تکلیف میں کچھ کمی ہوئی۔ مگر ہم سب کے لیے یہ بہت دردناک منظر تھا جو شاید ہم کبھی نہ بھلا سکیں۔‘
ڈاکٹر خالد نے بتایا کہ کورونا وائرس کے شکار مریض کا اپنے اردگرد موجود لوگوں سے رابطہ زیادہ ہو گا تو وائرس پھیلے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی خاتونِ خانہ اس سے متاثر ہیں تو وہ اپنے گھر کے دیگر افراد میں یہ وائرس منتقل کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ اگر کوئی مرد متاثر ہے اور وہ گھر سے باہر جاتا ہے تو کئی دیگر افراد کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگ گھروں میں رہیں اور سماجی دوری پر مکمل عمل کریں۔‘
واضح رہے کہ راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی پنجاب کا دوسرا بڑا ہسپتال ہے جہاں کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے سب سے زیادہ مریض لائے جا رہے ہیں۔ یہاں دو ہزار افراد کے داخلے کی گنجائش موجود ہے۔ جبکہ لاہور کے میو ہسپتال میں اس وقت سب سے زیادہ مریض ہیں۔
سُپر سپریڈرز یعنی وائرس کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ بننے والے افراد کی موجودگی تو اس تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ بنی ہی ہے، لیکن انہی میں بعض افراد ایسے بھی ہیں جنھوں نے شک ہوتے ہی خود کو اپنے اہلخانہ سے دور کیا اور میل جول مکمل طور پر بند کر دیا۔
ڈاکٹر بروقت ٹیسٹ کی ہدایت کریں
فرانس سے حال ہی میں پاکستان آنے والے عباس قیصر انہی افراد میں سے ایک ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک واپس آنے کے بعد انھیں شک گزرا کہ ان میں بھی یہ وائرس موجود ہو سکتا ہے یہی سوچ کر وہ اپنے بچوں سمیت تمام اہلخانہ سے علیحدہ ہو گئے۔
ان کا ٹیسٹ تو مثبت آ گیا تاہم بیماری کے دوران چار روز تک گھر میں رہنے کے باوجود ان کے اہلخانہ میں سے کوئی بھی اس سے متاثر نہیں ہوا۔
دوسری جانب شائمہ طفیل کی ایک کزن عائشہ ملک جو دو روز قبل ہسپتال سے گھر منتقل ہوئی ہیں، کہتی ہیں کہ ’کورونا سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ سماجی دُوری اختیار کی جائے اور ایسا اس وقت بھی کریں جب آپ کو محض شک ہو کہ آپ اس وائرس سے متاثر ہیں۔‘
اور مقبول جن کے والد اب صحتیاب ہو کر گھر پہنچ چکے ہیں، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ’اگر ڈاکٹر بروقت ٹیسٹ کی ہدایت کریں یا مریض کو یہی کہہ دیں کہ آپ خود کو کچھ دن کے لیے قرنطینہ کر لیں تو گلیاں محلے سِیل کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔‘