وہ 18ویں صدی میں انڈیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا زمانہ تھا جب پٹنہ میں پیدا ہونے والے دین محمد 11 برس کی کچی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں بھرتی ہوئے۔
یہاں ان کا کام جنگ لڑنا نہیں تھا بلکہ فوجی کیمپ میں اپنے پیشے کی مناسبت سے مختلف خدمات انجام دینا تھا۔ یہیں انھیں برطانوی راج کی فوج کے میجر بیکر ملے جنھوں نے دین محمد کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور پھر انھیں ہندوستان میں ہر اس جگہ جانے کا موقع ملا جہاں میجر بیکر کی پوسٹنگ ہوئی۔
یہی نہیں بلکہ دین محمد میجر بیکر کے ساتھ ہندوستان سے برطانیہ بھی آ گئے اور ابتدائی طور پر آئرلینڈ میں قیام کیا۔
یہاں لوگ ان سے ہندوستان کے بارے میں سوال کرتے تھے اور اس کا جواب انھوں نے ‘ٹریولز آف دین محمت’ کی صورت میں دیا۔ ‘دین محمد کا سفرنامہ’ (ٹریولز آف دین محمت) 1794 میں آئرلینڈ میں شائع ہوا اور یہ کسی بھی جنوبی ایشیائی کی طرف سے انگریزی زبان میں لکھی جانے والی پہلی کتاب تھی۔یہ بھی پڑھیے
اس کتاب کے ذریعے دین محمد نے اپنے قارئین کو ایک ایسا ہندوستان دکھایا جو ایک جانب تو سونے چاندی سے لدا تھا تو دوسری جانب وہیں لوگ قحط کی وجہ سے جان دینے پر بھی مجبور تھے۔
بی بی سی اردو کے اسد علی آپ کو اس تحریر میں دین محمد کے سفرنامے کے اقتباسات کے ذریعے 18ویں صدی کے اس ہندوستان کی سیر کروا رہے ہیں۔
مرشد آباد کے نواب صاحب
مرشد آباد پہنچنے پر سب سے پہلا منظر جو میری آنکھوں نے دیکھا وہ ہزاروں خادموں پر مشتمل نواب کی سواری تھی جو محل سے مندر جا رہی تھی۔ یہ خوبصورت منظر انتہائی چونکا دینے والا تھا۔
نواب صاحب کا جلوس تین ہزار لوگوں پر مشتمل تھا جو انتہائی متانت کے ساتھ باوقار انداز میں مندر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پہناووں کی خوبصورتی اور شان و شوکت کے اعتبار سے میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔
اس جلوس کے بیچ میں نواب کی انتہائی چمکدار پالکی تھی جو سرخ وردی میں ملبوس 16 افراد نے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی۔ پالکی کی چھت چاندی کے چار بھاری ستونوں کے سہارے کھڑی تھی
یہ چھت ٹشو کے کپڑے کی تھی جس کے کناروں پر قرمزی رنگ کے کڑھائی دار ویلوٹ کی پٹی تھی اور پٹی کے کناروں پر چاندی کے تاروں کا کام تھا۔
بازوؤں والی کرسی کی مانند اس پالکی میں سنہرے تاروں کے گلاب کے پھولوں سے سجے قرمزی رنگ کے نفیس تکیوں کے بیچ ٹانگ پر ٹانگ رکھے نواب صاحب براجمان تھے۔
نواب کی پالکی کے دونوں طرف دو خادم چل رہے تھے جو ہاتھوں میں کسی نامعلوم جانور کی دم سے بنے چاندی کے دستوں والے پنکھے لیے مکھیاں اڑانے کے لیے ہوشیار تھے۔
نواب کی اپنی تیاری کی بات کریں تو ان کے سر پر ریشم سے بنی بظاہر چھوٹی سی پگڑی تھی جس میں حقیقت میں 44 گز ریشم استعمال ہوا تھا۔ ریشم کی نفاست کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس کا کل وزن ڈیڑھ پاؤنڈ سے زیادہ نہیں تھا۔ پگڑی پر اسی ریشم کا بینڈ تھا جس سے نواب کی دائیں آنکھ کے اوپر چاندی کا پھندنا جھول رہا تھا۔ پگڑی پر سامنے کی طرف ستارے کی شکل کا انتہائی شفاف ہیرا چمک رہا تھا۔
نواب کا لباس بھی ریشم کا تھا اور اس پر کریم رنگ کے ساٹن کی تہہ تھی اور اس کے پاجامے پر چاندی کے تار اور بٹن جڑے ہوئے تھے۔ اونٹ کے بالوں سے بنی ایک شال لاپرواہی سے ان کے کندھے پر رکھی تھی جبکہ اسی طرح کی ایک شال کمر کے گرد بھی بندھی ہوئی تھی۔
نواب کی کمر پر شال کے نیچے سے ایک خنجر جھانک رہا تھا جو اپنے آپ میں کاریگری کا نمونہ تھا۔ خنجر کا دستہ خالص سونے کا تھا جس پر ہیرے جڑے ہوئے تھے اور صرف یہی نہیں خنجر کے دستے سے سونے کی چھوٹی چھوٹی لڑیاں بھی لٹک رہی تھیں۔ نواب کے جوتے موتیوں سے سجے شوخ سرخ مخمل سے بنے تھے اور ان پر چاندی کا کام بھی کیا گیا تھا۔
پالکی کے دونوں طرف گھوڑوں پر سوار ایک ایک خصوصی معاون تھا۔ ان کے اور نواب صاحب کے بیش قیمت لباس میں بڑا فرق صرف نواب صاحب کی پگڑی میں جڑے ہیرے کا ہی تھا باقی ان کی سجاوٹ ایک جیسی ہی تھی۔
نواب کے معاونین کے گھوڑوں کی کاٹھیاں بھی پھندنوں سے سجی تھیں اور کڑھائی کا اعلیٰ نمونہ تھیں۔ نواب کی پالکی کے آگے اور پیچھے پیدل خدمت گزار تھے اور پالکی کے سب سے قریب گھوڑوں پر سوار پہرے دار تھے۔
نواب کی سواری میں شامل لوگوں کی تیاری کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ گمان ہوتا تھا جیسے زمین نے اپنی چھاتی کھول کر ان لوگوں کو سجانے کے لیے خزانے اگل دیے ہوں اور پھر یہاں کے کاریگروں نے اپنی مہارت سے ان خزانوں کو وہ شکلیں دیں جو ان کی شان و شوکت کا باعث بن سکیں۔
نواب کے حقے کی نالی بل کھاتی ہوئی ان کے ہاتھ سے حقے تک جاتی تھی جو اس کے جلوس میں شامل ایک خادم کے ہاتھ میں تھا۔ حقے کے لیے تمباکو میں عرق گلاب اور مشک ملایا جاتا تھا۔ حقہ اور اس کی چلم چاندی کے تھے اور اس کی نالی کے دونوں سروں پر سونا لگا تھا اور جو حصہ نواب کے ہاتھ میں تھا اس پر تو ہیرے بھی جڑے تھے۔ حقے کی نال ریشم، ساٹن اور ململ کی تہوں کے بیچ میں تاریں لگا کر بنائی گئی تھی۔ حقے کے اس حصے پر جہاں پانی بھرا جاتا تھا سونے کا باریک کام کیا گیا تھا۔
نواب کی سواری کے آگے سازندے مقامی دھنیں بجاتے چل رہے تھے اور انھیں میں ایک اونٹ پر رکھا بہت بڑا ڈھول بھی شامل تھا جس کی گونج دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ سواری کے سب سے آگے ہرکارہ تھا جو نواب کی آمد کے بارے میں سب کو ہوشیار کر رہا تھا جس سے آگے بڑھنے کے لیے راستہ صاف ہوتا جاتا تھا۔
اس نظارے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آئے تھے۔ میں نواب کے مندر میں داخل ہونے تک وہاں رکا اور دیکھا کے سب نے اندر جانے سے پہلے جوتے اتارے تھے۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد میں نے کچھ دیر اور مرشد آباد میں رکنے کا فیصلہ کیا۔
ختنوں کی رسم
مرشد آباد میں نواب کا جلوس دیکھنے کے بعد دین محمد کو ایک عام شہری کے ہاں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کا بھی موقع ملا تھا۔
اس موقع کا منظر وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔ ’نواب کی سواری دیکھنے کے کچھ ہی دیر بعد میری اپنے ایک رشتہ دار سے ملاقات ہوئی جس نے مجھے اپنے بیٹے کے ختنوں کی رسم میں شرکت کی دعوت دی۔
ختنے کی رسم کے لیے بچے کی عمر سات سال ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ اس رسم سے پہلے بچے کو اپنے مذہب کے بنیادی عقائد کے بارے میں کچھ آگاہی بھی ہو جائے۔
ختنے کی رسم کے لیے لوگ پہلے سے بچت شروع کر دیتے ہیں تاکہ وہ اس کو زیادہ سے زیادہ دھوم دھام سے پورا کر سکیں۔ ختنے کی رسم کا وقت آنے پر لڑکے کے خاندان کی طرف سے حجام شہر میں تمام مسلمان گھروں میں دعوت لینے کے لیے جائفل لے کر جاتے ہیں۔ جائفل لے جانا ایسے ہی ہے جیسے آئرلینڈ میں کسی کے گھر میں کارڈ بھیجنا۔
صاحب حیثیت مسلمان اس تقریب میں شریک ہو کر اس کی شان بڑھاتے ہیں۔ زبردست لباس پہنے ان امیر زادوں کی آمد خوبصورتی سے سجے گھوڑوں پر ہوتی ہے اور اونٹ بھی ان کے قافلوں میں شامل ہوتے ہیں۔
ختنوں کے دن بڑے سے میدان میں شامیانے لگائے جاتے ہیں جن میں کم سے کم دو ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے اور اس میں صرف مسلمان شریک ہو سکتے ہیں۔ مولوی کی آمد کا اعلان بینڈ باجے سے کیا جاتا ہے۔ مولوی بچے کے ساتھ شامیانے میں قائم کی گئی ریشم کی ایک خوبصورت چھتری کے نیچے اپنی جگہ سنبھالتا ہے۔
’بچے کا لباس قرمزی ململ کا تھا اور اس نے زیورات بھی پہنے ہوئے تھے وہ کرسی پر مخمل کے تکیوں میں بیٹھا وقت گزرنے کا انتظار کرتا ہے۔ ختنوں سے پہلے بچے کو ایک گھوڑے پر بٹھا کر مختلف درباروں کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ اسے اس کے چار تلوار بردار رشتہ دار اٹھا کر گھوڑی پر بٹھاتے ہیں۔ بچے اور اس کے ان رشتہ داروں کا لباس ایک سا ہوتا ہے۔
بچے کو جب کسی دربار پر لے جایا جاتا ہے وہ وہاں پر سجدہ کرتا ہے اور ماں باپ کی طرف سے یاد کروائی گئی دعائیں پڑھتا ہے کہ ختنے کا عمل بغیر کسی نقصان کے تکمیل پا جائے۔ اس دعائیہ دورے سے فارغ ہو کر بچے کو واپس شامیانے کے نیچے لایا جاتا ہے۔
اس سارے عمل میں بینڈ باجے والے ساتھ ساتھ تھے لیکن وہ مولوی کے دوبارہ شامیانے میں داخل ہونے پر خاموش ہو گئے۔ مولوی کے ہاتھ میں پانی سے بھرا ایک برتن تھا۔ اس نے دم پڑھ کر بچے پر پانی چھڑکا اور اسی دوران حجام نے تیزی سے بچے کے ختنے کر دیے۔ اسی وقت پورا مجمع ایک ٹانگ پر کھڑا ہو گیا اور سب نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بچے کی صحت کے لیے دعا کی۔ ایک بار پھر موسیقی کا شور ماحول پر چھا گیا جس میں خوشی کے ساز بجائے گئے۔ بچے کو گھر لے جا کر لٹا دیا گیا اور محفل کا دھیان کھانے کی طرف ہو گیا۔
حجاموں نے حاضرین کے پانی سے ہاتھ دھلوائے اور انھیں تولیے پیش کیے۔ اس کے بعد وہ جوتے اتار کر وہاں بچھے ہوئے خوبصورت قالین پر بیٹھ گئے جہاں ان کی اس علاقے کے ایک پسندیدہ پکوان، گوشت والے پلاؤ سے خاطر کی گئی۔ ہر طرف مشعلیں روشن تھیں جن کی روشنی میں مہمانوں کا قیمتی لباس اور ہر چیز اور بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
انگریز افسروں کے انڈیا میں ٹھاٹھ باٹھ
دین محمد نے جہاں اپنے سفر نامے میں نوابین اور راجاؤں کی آن بان بیان کی وہیں برطانوی راج کے افسران کے ہندوستان میں ٹھاٹھ باٹھ کا بھی ذکر کیا ہے۔
پٹنہ میں راجہ ستپ رائے کے محل میں یورپی افسران کی دعوتوں کی منظر کشی کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’راجہ ستپ رائے شاندار محل میں یورپی افسران کے لیے پرتکلف ضیافتوں کا اہتمام کرتے رہتے تھے۔ ان ضیافتوں پر بہت خرچ اٹھایا جاتا تھا۔ میری والدہ کا گھر راجہ کے محل سے زیادہ دور نہیں تھا اور میرا دھیان ہر وقت ادھر سے گزرنے والے یورپی افسران کی طرف رہتا۔
’محل کے دروازے پر چوکیدار موجود تھے لیکن میرے والد کی شہرت (دین محمد کے والد راجہ کی فوج میں ملازم تھے) کی وجہ سے مجھے داخلہ مل گیا۔ یورپی افسران شام سات اور آٹھ بجے کے درمیان محل کا رخ کرتے۔ سب سے پہلے ان کی چائے اور قہوے سے تواضع کی جاتی۔
وہ لوگ مِل کر ناچ کا بھی لطف اٹھاتے تھے۔ پھر گرمی دالان کا رخ کرنے پر مجبور کر دیتی جہاں ان کو خوبصورت ریشم کی دوہری تہہ سے بنے ہوئے شامیانوں کے نیچے بٹھایا جاتا۔ یہ شامیانے آٹھ بانسوں کے سہارے کھڑے تھے۔ فرش پر خوبصورت قالین تھا۔
’راجہ مہمانوں کے بیچ میں اپنی نشست سنبھالتا۔ راجہ کے ذاتی معاون خاص اور خادم خدمت کے لیے چوکنا رہتے۔ پھر رقاصائیں پیش ہوتیں جو سازندوں کی مدد سے نہ صرف انتہائی مدھر اور سریلے گیت سناتیں بلکہ اپنے بےباک ناچ میں ایسی ادائیں دکھاتیں جو کسی سنیاسی کا بھی دل گرما دیں۔
’اسی دوران راجہ کے خادم آتش بازی کا حیرت انگیز مظاہرہ جاری رکھتے جس میں پرندوں اور جانوروں کی شکلیں بنائی جاتیں۔ ایسے مظاہرے کی نظیر میں نے یورپ میں بھی نہیں دیکھی۔ ہر طرف روشن شاخیں تھیں اور چراغاں کا سا ماحول تھا۔
’اس سب خاطر مدارت کے بعد یورپی مہمان دسترخوان کا رخ کرتے۔ کھانا راجہ کے خاص ملازم کی طرف سے تیار کیا گیا ہوتا تھا۔ آئس کریم، طرح طرح کے پرندوں کے گوشت اور دنیا کے بہترین پھلوں سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی۔ راجہ کی خوشی کا یہ عالم ہوتا کہ وہ غیر مسلموں کے ہاتھ سے بھی پھل قبول کرتا حالانکہ اس کا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
’یہ محفل آدھی رات کو برخاست ہو جاتی۔ راجہ اپنے محل کا رخ کرتا اور یورپی افسران اپنے کوارٹروں کا۔‘
یورپی چھاؤنی
دین محمد نے اپنے سفر نامے میں برطانوی فوج کی ان چھاؤنیوں کا منظر بھی بیان کیا ہے جہاں انھیں قیام کا موقع ملا۔
’بانکی پور پٹنہ سے چند کلومیٹر دور ہے اور ہم نے گنگا کے کنارے ایک وسیع میدان میں پڑاؤ ڈالا۔ یہ سن 1769 کی بات ہے۔ اس مقام سے اردگرد کے علاقے کا انتہائی خوبصورت نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ ہمارا کیمپ چار رجمنٹوں، ایک یورپی رجمنٹ، دو گھڑ سوار کمپنیوں اور توپخانے کی ایک یورپی کمپنی پر مشتمل تھا۔ کرنل لیزلی ہمارے کمانڈر ان چیف تھے۔
’کیمپ دو سیدھی قطاروں میں پھیلا ہوا تھا۔ ایک طرف دریا کے ساتھ ساتھ پٹنہ کی طرف پھیلے ہوئے یورپی افسران کے بنگلے تھے۔ اس سے بالکل متوازی قطار میں تقریباً دو سو گز کے فاصلے پر سامنے افسران کی بیرکیں تھیں اور ان کے پیچھے عام فوجیوں کی۔ ان کے درمیان والی جگہ مشقوں کے لیے مخصوص تھی جو ہر صبح باقاعدگی سے ہوتیں۔ سپاہیوں کی چھاؤنیاں اس سے ایک میل دور تھیں اور ان سے کچھ فاصلے پر گھوڑوں کے اصطبل تھے۔
’افسران کے بنگلے مقامی طرز تعمیر پر بنائے گئے تھے۔ بنگلے تقریباً چوکور تھے جن کی چھت مقامی کسانوں کے گھر کی چھتوں کی طرح بانس اور تنکے سے بنی تھی۔ چٹائی سے دیوراوں کا کام لیا گیا تھا اور چھت کے سہارے کے لیے ستون تھے۔ کرنل اور میجر صاحب کے بنگلے دوسرے افسران سے بڑے تھے۔ ان بنگلوں کے ساتھ ہی نوکروں کے کمرے اور اصطبل تھے۔ سامنے کی طرف بائیں جانب کرنل کا گارڈ ہاؤس تھا۔ افسران کے بنگلوں کے بیچ میں درختوں کا سدا بہار جھنڈ تھا۔ وہاں نوابوں کی بنائی ہوئی خوبصورت عمارات بھی تھیں۔ ان میں جناب ہربرٹ اور ہیلمبری کا بینک، مسٹر بیری اور کنٹریکٹ ایجنٹ کی رہائش گاہیں اور بارودخانہ بھی تھا۔
بانکی پور میں چند ہی سرکاری عمارات تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر مسٹر گولڈن کا گھر تھا جو کیمپ سے تقریباً ایک میل دور تھا۔ یہ بلندی پر انگریزی طرز تعمیر پر بنی ایک کشادہ عمارت تھی۔ اس کا شاندار گنبد نیچے معطر میدانوں اور مصالحوں کے جھنڈوں سے سجے ماحول پر حاوی تھا۔ اس عمارت سے بل کھاتی ہوئی گنگا کے پھولوں سے لدے کنارے اور ارد گرد زرخیز علاقے کے خوبصورت منظر کا لطف اٹھایا جا سکتا تھا۔
مکان کے مالک مسٹر گولڈن کی دیگر افسران میں بہت عزت تھی۔ وہ بہت وضع دار اور مہمان نواز انسان تھے۔ مسٹر گولڈن سے کچھ ہی دور مسٹر رمبل کی رہائشگاہ تھی جن کے پاس کمپنی کے لیے کشتیاں اور دیگر سامان فراہم کرنے کا ٹھیکہ تھا۔
قحط
دین محمد نے اپنے سفر نامے میں جہاں آن بان اور خوبصورتی کی جھلکیاں دکھائی ہیں وہیں لوگوں کی زندگی کی مشکلات پر بات کی ہے۔ انھوں نے ایک قحط کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کیا۔
’مجھے یاد ہے میں نے اس برس بڑی تعداد میں لوگوں کو قحط سے مرتے دیکھا تھا۔ بارش کی کمی اور گرمی کی زیادتی سے زمین سوکھ گئی تھی۔ زمین سے حاصل ہونے والی تمام نعمتیں پانی کی کمی کا شکار ہو کر مر گئی تھیں۔ بڑی تعداد میں لوگ گلیوں اور شاہراہوں میں گرے پڑے تھے۔
’صرف وہی لوگ فائدے میں رہے جن کی زمینیں کنوؤں سے سیراب ہوتی تھیں۔ ایسے کچھ نوابین اور یورپی افسران نے جس حد تک ممکن تھا اپنے آنگنوں اور گھروں میں جمع ہونے والے ہجوموں میں چاول اور کھانے پینے کی دیگر اشیا تقسیم کیں لیکن کمزوری کا شکار بیچارے لوگ جو بھوک سے ہار چکے تھے ان کی موجودگی میں ہی زمین پر گر کر بے جان ہو رہے تھے۔
’کچھ رینگ کر باہر نکلنے کی کوشش کرتے اور سب کی نظروں کے سامنے مر جاتے۔ اس موقع پر اس ملک کے خزانے ان لوگوں کے کسی کام نہ آئے۔ اس وقت ان لوگوں کے لیے تھوڑے سے چاولوں کی بروقت فراہمی سونے اور چاندی سے زیادہ اہم تھی۔
پانی کی قدر
دین محمد نے پھُلوریا سے چرمنسا کا سفر کیا۔ ایک تو راستے میں دریا بھی تھا جسے پار کرنے میں تین روز لگ گئے لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ گرمیوں کے موسم میں سفر کا تجربہ جو انہوں نے بیان کیا۔
دین محمد لکھتے ہیں ’سڑک کے کنارے لگے پھل دار درختوں کے سائے کی وجہ سے سفر خوشگوار تھا۔ کیلے، آم اور املی کے درختوں کی ٹہنیاں پھلوں کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھیں۔ ان درختوں کے ساتھ ساتھ بہت سے کنویں اور ندیاں تھیں جن کے پانی کی مثال پوری کائنات میں نہیں ملتی۔
’ایسے کنویں اور ندیاں ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ قدرت کی مہربانی تھی جس نے تھکے ہارے مسافروں کے لیے اس علاقے کی گرمی کا سامنا کرنے کا ایسا انتظام کیا تھا۔‘
دین محمد نے اپنے انگریز قارئین کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں کے ’پرانے لوگوں نے پانی کے ذخائر کے تحفظ کے لیے لوگوں کے دلوں میں کنوؤں کا ایسا تقدس پیدا کیا کہ کوئی بدکردار شخص بھی ان میں ملاوٹ کا نہیں سوچ سکتا۔ اسی لیے یہ پانی آج تک پاک اور صاف ہے۔
’راستے میں جب بھی کنویں آئے ہم نے سپاہیوں کو تازہ ہونے اور بیل گاڑیوں پر لدی ہوئی چمڑے کی مشکیں پانی سے بھرنے کا موقع فراہم کیا۔ کچھ خادم بھی مشکیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلتے تھے۔‘
سات کنوؤں والا گاؤں
دین محمد اپنی کمپنی کے ساتھ 1772 میں سیتاکنڈ نامی چھوٹے سے گاؤں پہنچے جس کی خاص بات اس کے گرد سات کنویں تھے۔
وہ لکھتے ہیں ’دو کنویں صرف برہمنوں کے لیے مخصوص ہیں۔ وہ کسی غیر برہمن کو وہاں کے پانی کے قریب نہیں آنے دیتے۔ ہاں ان لوگوں کو ضرور اجازت مل جاتی ہے جو بیمار ہوں اور اس ایمان کے ساتھ وہاں آئیں کہ اس پانی کے استعمال سے ان کا علاج ہو جائے گا۔ باقی پانچ کنویں کوئی بھی استعمال کر سکتا تھا۔
’برہمنوں کے دونوں کنویں ساتھ ساتھ ہیں لیکن دونوں سے حاصل ہونے والے پانی کا معیار ایک دوسرے سے بہت فرق ہے۔ ایک میں شفاف اور ٹھنڈا پانی ملتا ہے جبکہ دوسرے کے پانی کی رنگت سیاہ ہے اور ہر وقت ابلتا رہتا ہے۔
’برہمنوں کے کنووں کا پانی مٹی کے برتنوں میں دور دور تک پہنچایا جاتا تھا۔ لوگوں کا اندھا اعتقاد ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو رہا تھا۔ ان کنوں کا پانی گنگا کے شمال میں کلکتہ اور بنگال کے دیگر اضلاع سے بھی منگوایا جاتا تھا جہاں کہ ہندو اس پانی کو بہت مقدس سمجھتے تھے۔‘
عقائد اور روز مرہ زندگی
دین محمد کا سفر نامہ اپنے پڑھنے والوں کو ہندوستان کے باشندوں کی روزمرہ زندگی کے علاوہ ان کے عقائد کے بارے میں بھی بتاتا ہے۔
دربار کی خدمت کرنے والا شیر
’مونگ ہیر سے 12 میل دور پیپاہارا کی پہاڑی تھی جس پر ایک مشہور تاریخی عمارت تھی۔ ہماری تاریخ میں دلچسپی ہمیں اس طرف کھینچ لے گئی۔
’یہ کسی بزرگ کا مزار تھا جو گول ستونوں پر سنگ مرمر کی چٹان کے سہارے کھڑا تھا اور اِس پر تراشے ہوئے پتھر سے بنی ایک محراب بھی تھی لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ تھی کہ ہر پیر اور بدھ کو پہاڑی کے دامن میں ایک غار سے ایک شیر یہاں آتا تھا اور اپنی دم سے اس کی سیڑھیوں کی صفائی کرتا تھا۔
’اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا بلکہ اس کے راستے میں آنے والے بچے اور عورتیں بھی اس سے محفوظ تھیں۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ مزار مقدس جگہ تھی لیکن ہمارے آرٹلری کے ایک افسر کے ساتھ جو کچھ یہاں پر ہوا اس کے بعد یہاں کے لوگوں کا اس جگہ پر اعتقاد یقیناً اور بڑھ گیا ہو گا۔ تجسس اس افسر کو مزار تک کھینچ لایا تھا۔ اس نے مقامی لوگوں کے اس مزار اور اس میں دفن بزرگ کے بارے میں اعتقاد کو توہم پرستی سے تعبیر کیا اور ان کا مذاق بھی اڑایا۔
’کپتان نے کسی کی پرواہ کیے بغیر مزار کی سیڑھیوں پر پیشاب کر دیا۔ واپسی کے لیے ابھی وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا ہی تھا کہ کسی ان دیکھی قوت نے اسے جکڑ لیا اور وہ زمین پر آ گیا جہاں وہ کچھ دیر بے حرکت لیٹا رہا۔ اسے پالکی پر مونگ ہیر پہنچایا گیا لیکن وہ زیادہ دیر نہ جی سکا اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
’اس واقعے میں ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو اپنی تنگ نظری کی وجہ سے اپنے ہی جیسے انسانوں کے عقائد کا صرف اس لیے مذاق اڑاتے ہیں کہ ان کی عبادت کا طریقہ مختلف ہے۔‘
دریا کے بیچ میں فقیر کا گھر اور دعوت
دین محمد لکھتے ہیں ’یہ سن 1771 کی بات ہے۔ ہم مونگ ہیر سے 30 میل دور تھے جب ہمیں گنگا کے بیچ بڑی سی چٹان پر بنا ہوا ایک گھر نظر آیا۔ ہم نے شام کو اس جگہ سے کچھ دور پڑاؤ ڈالا۔
اگلے روز ہم سب شکار کھیلنے گئے۔ دوپہر کے وقت شکار سے فارغ ہو کر ہم گنگا کے بیچ میں گھر دیکھنے کے لیے دریا کے کنارے کی طرف گئے اور کشتی پر وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ گھوڑے نوکروں کے حوالے کر کے ہم مچھیروں کی کشتیوں میں دریا کے بیچ میں خشکی کی طرف بڑھنے لگے۔
چٹان پر بنا یہ مکان ایک فقیر کا گھر تھا جو ہمیں آتا دیکھ کر استقبال کے لیے آگے بڑھا۔ اس نے لمبا نارنگی رنگ کا چوغا پہنا ہوا تھا اور سر پر سفید کپڑا تھا۔ سینے تک بڑھی ہوئی داڑھی کی وجہ سے اس کی شخصیت میں بزرگی کا تاثر تھا۔ اس کے کندھوں تک لمبے بالوں سے چاندی جھلک رہی تھی۔ وہ ایک صحت مند اور ہشاش بشاش انسان تھا جس میں ٹھہراؤ اور سکون صاف نظر آ رہا تھا۔
اس کے چھوٹے سے گھر میں اس وقت کھانے کے لیے جو تھا وہ اس نے ہمارے سامنے رکھ دیا۔ بات کرتے ہوئے وہ مسلسل اپنی کلائی سے لٹکتی لمبی سی مالا کے دانے پھیرتا رہا اور اس کی آنکھیں ہر تھوڑی دیر بعد آسمان کی طرف اٹھتی تھیں۔
میں نے اتنے صاف ستھرے گھر کم ہی دیکھے تھے۔ اس کا سائز پانچ مربع گز سے زیادہ نہیں تھا۔ چھت اونچی اور ہموار تھی اور اوپر جانے کے لیے ایک سیڑھی بھی وہاں موجود تھی۔ وہاں کسی جانور کی کھال بھی بچھی ہوئی تھیں جس پر لیٹ کر وہ پڑھائی کرتا تھا۔ مکان کے ایک کونے میں تین اینٹوں کا چولہا جل رہا تھا۔ اس کی خوراک زیادہ تر چاول اور اس کے اپنے باغیچے کے پھلوں پر مشتمل تھی۔
مہمانوں کے لیے اس نے باہر بڑی آگ پر کھانا تیار کیا تھا۔ ہم اس کے مکان کا اچھی طرح معائنہ کر چکے تو اس نے ہمیں آم اور دیگر پھل پیش کیے۔ روانہ ہوتے ہوئے ہم نے اسے چھوٹا سا نذرانہ دیا اور اس کے گھر اور باغیچے کی تعریف کی۔ واپسی کے لیے ہم نے اس فقیر کی ہی کشتی استعمال کی۔
ناک اور کان کاٹنے والا انصاف
اس سفرنامے میں دین محمد نے دورانِ سفر پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’ابھی ہمیں فلوہیریا میں ایک رات ہی گزری تھی کہ قریبی دیہات سے کچھ لوگوں نے ہمارے خیموں میں لوٹ مار کی واردات کر ڈالی۔ وہ ہمارے افسروں اور سپاہیوں کی سبھی قیمتی اشیا چرا کر لے گئے۔
اتفاق سے جب وہ میجر بیکر کی مارکی کے ساتھ والے سٹور میں داخل ہوئے تو میں وہیں پالکی پر لیٹا سو رہا تھا۔ حملہ کرنے والے دیہاتی میرے خیمے میں داخل ہوئے اور مجھ سمیت میری پالکی کو لے کر چلتے بنے اور ڈیڑھ میل دور جا کر رکے۔ انہوں نے تیزی سے پالکی سے جڑا ہوا قیمتی سامان اتارا اور میری جیب سے بھی پیسے نکال لیے۔
وہ اتنے ظالم تھے کہ ایک بار تو انھوں نے میرے قتل کا بھی ارادہ باندھ لیا کہ کہیں میری وجہ سے وہ پکڑے نہ جائیں لیکن پھر ان میں سے کچھ نرم دل افراد نے میری عمر کا لحاظ کرتے ہوئے مجھے جانے دیا۔ میں ہوا کے گھوڑے پر سوار واپس پہنچا اور سیدھا میجر بیکر کے خیمے میں گیا۔ انھیں میرے بارے میں بہت تشویش تھی اور جب میں انہیں سنایا کہ کس طرح میری جان بخشی کی گئی ہے تو وہ بھی حیران رہ گئے۔
محافظوں نے کچھ لٹیرے جو اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے تھے دیکھ لیے اور پیچھا کرنے کے بعد انھیں پکڑ لیا۔ اس کے بعد ان کے کچھ دیگر ساتھی بھی پکڑے گئے۔ ان کو اپنے کیے کی وہ سزا ملی جو ان کا حق تھا۔ انھیں کوڑے مارتے ہوئے کیمپ میں لایا گیا اور ناک اور کان کاٹ دیے گئے۔ اس واردات کی وجہ سے ہمیں فلوہیریا میں پروگرام سے زیادہ رکنا پڑ گیا تھا۔
گیدڑوں کا حملہ
ابھی ہم ان سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ رات کو گیدڑوں کے حملے نے ہمارا سکون برباد کر دیا جو اس علاقے میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ گیدڑ یورپی لومڑیوں کے برعکس انتہائی خونخوار جانور ہیں۔
گیدڑ آدھی رات کو خاموشی سے ہمارے کیمپ میں داخل ہوئے اور مرغیوں کی بڑی ختم تعداد ختم کرنے کے علاوہ چھوٹے بچے بھی جو وہ اٹھا لے جا سکتے تھے لے گئے۔ ان کا پیچھا کرنا بیکار تھا ہمارے پاس صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
پہاڑی لٹیرے
بھاگل پور سے سکل گری کے سفر کے دوران دین محمد کے قافلے کو پہاڑی علاقے کے لٹیروں نے بھی نشانہ بنایا۔
’ہمارا قافلہ بہت بڑا تھا اور اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہاڑی لٹیرے پیچھے چلنے والے تاجروں پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے لوٹنے کے علاوہ بہت سے تاجروں کو نیزوں اور تیروں سے زخمی بھی کر دیا۔
ان حملہ آوروں میں سے کئی ایک حفاظتی دستوں کا نشانہ بنے جبکہ تیس، چالیس گرفتار کر لیے گئے۔ اس سے اگلے روز جب ہمارے قافلے میں شامل گھاس کاٹنے والے اور بازار کے کچھ لوگ ہاتھیوں اور گھوڑوں کا چارہ اور کیمپ کے لیے ایندھن لینے پہاڑوں پر گئے تو ان کا نشانہ بن گئے اور سات آٹھ افراد انتہائی بےدردی سے قتل کر دیے گئے۔ حملہ آور کئی ہاتھی، گھوڑے اور دیگر جانوروں کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
حملے کی شکایت ملنے پر ہمارے کمانڈنگ افسر نے حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے دو کمپنیاں روانہ کیں۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ کچھ حملہ آور انہیں کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے مل گئے جبکہ باقی ان کی مدد کے لیے پہاڑی پر جمع ہو رہے تھے۔ ہمارے سپاہیوں نے پوزیشن سنبھال کر ان پر فائر کیے۔ کچھ جنگلی وہیں پر ڈھیر ہو گئے اور کچھ زخمی ہوئے۔
ان میں سے زیادہ تر نے کچھ دیر تلواروں، نیزوں اور تیروں سے مزاحمت کی لیکن ہمارے اسلحے کے سامنے بے بس ہو کر پہاڑوں میں بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ ہمیں پیچھا کرنے سے روکنے کے لیے وہ بھاگتے ہوئے جگہ جگہ آگ لگا گئے لیکن پھر بھی ان میں سے 200 کو گرفتار کر لیا گیا۔
پکڑے جانے والوں کو ان کے جرائم کی کڑی سزا دی گئی۔ کچھ کے ناک اور کان کاٹ دیے گئے اور کچھ کو سولی پر لٹکنا نصیب ہوا۔ بعد میں فتح کی پریڈ میں ان سے پکڑے گئے اسلحے کی نمائش کی گئی جس میں تیروں اور نیزوں کے علاوہ ان کی پندرہ پندرہ پاؤنڈ وزنی تلواریں بھی شامل تھیں۔
کچھ دیر کے بعد ہمیں اپنے دو ساتھی انتہائی بری حالت میں ملے جن کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ وہ مارے جا چکے ہیں۔ ان کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ انتہائی بری حالت میں رینگ کر کیمپ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ہمارے بہت سے جانور ہمیں اپنے ہی خون میں نہائے ہوئے ملے۔ ان میں گھوڑوں اور ہاتھیوں کے پیروں میں میخیں ٹھکی ہوئی تھیں۔ زخمی جانوروں کو بڑی مشکل سے کیمپ تک لایا گیا لیکن ان میں سے کچھ ہی زندہ بچ سکے۔‘