پوری دنیا لاک ڈاؤن کے دور سے گزر رہی ہے جب کہ پاکستان میں اسے جزوی طور پر ہٹایا جا چکا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ مختلف شعبہ جات جن میں درزی، دھوبی، حجام، بک شاپس، کال سینٹرز، سپئیر پارٹس کی دوکانیں، آٹو سٹورز، تعمیراتی مٹیریل سے متعلق دوکانیں، پینٹ شاپس، ہارڈوئیر سٹورز، ماربل فیکٹریز وغیرہ کھل چکی ہیں۔ جب کہ ایسی فیکٹریاں جن کی لیبر فیکٹری کے اندر تک ہی محدود رہتی ہے وہ بھی کھول دی گئی ہیں۔ سادہ الفاظ میں تمام کارخانے کھل چکے ہیں۔ آ جا کے صرف ریستوران، میرج ہالز، سینما ہالز اور کپڑوں وغیرہ کی دوکانیں بند رہیں گی تو ایسے میں ان دکانداروں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ گھر میں پڑی ہوئی کوئی پرانی سلائی مشین اٹھا کے دوکان کے باہر سجا لیں اور اپنے آپ کو کلاتھ مرچنٹ کے ساتھ ساتھ ٹیلر ماسٹر بھی ڈکلئیر کر دیں امید ہے وہ بھی لاک ڈاؤن سے مبرا گردانے جائیں گے۔
دراصل حکومت پہلے دن سے ہی لاک ڈاؤن کے نام پر کھلواڑ کرتی آ رہی ہے۔ جب یہ وباء پھیلنا شروع ہوئی اور سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن لگا دیا تو وفاق کی طرف سوالیہ نگاہیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ تب وزیراعظم کا دوٹوک موقف سامنے آگیا کہ ہم لاک ڈاؤن نہیں لگا سکتے ایسے ہمیں شدید غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر آنے والے دنوں صوبائی حکومتوں نے اٹھارہویں ترمیم کا سہارا لیتے ہوئے لاک ڈاؤن لگا بھی دیا۔ سوچنے کی بات ہے جب وفاق میں بھی آپ کی حکومت ہو اور صوبوں میں بھی آپ ہی کے وسیم اکرم پلس تخت نشین ہوں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ آپ کی مرضی کے خلاف فیصلے لیں۔ تو کمال ہوشیاری سے بندوق صوبوں کے کندھوں پر رکھ کر چلائی گئی۔ بعد میں وزیراعظم کی طرف سے چندہ کی اپیل کی گئی اور ساتھ ہی ٹائیگر فورس کے قیام کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ تب سنجیدہ حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ڈیم فنڈ کی مد میں جمع کیے گئے پیسے تجوریوں سے نکال کر عوام پر لگائے جائیں۔ لیکن کسی نے اس بات پر کان نہ دھرے۔ پھر کرونا فنڈ کی مد میں بھی اربوں روپے اکٹھے کر لئے گئے اور امید ہے کہ ٹائیگر فورس کے قیام میں اتنے پیسے خرچ بھی ہو چکے ہوں گے کیوں کہ تب فورس کی تنظیم سازی کے علاوہ رضا کاروں کے لئے ڈیزائن کئے گئے یونیفارمز اور کرائے پہ حاصل کرنے کے لئے گاڑیوں کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی تھیں۔
اور اب صورتحال یہ ہے کہ لاک ڈاؤن تو تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹائیگر فورس کے قیام کا مقصد بھی ختم ہو چلا ہے کیوں کہ یہ منصوبہ تو سراسر لاک ڈاؤن کے لئے ترتیب دیا گیا تھا۔ اور اب وہ فنڈ جو مستحقین کے نام پر اکٹھا کیا گیا تھا اسے بھی قصہ پارینہ ہی سمجھیں۔ کیوں کہ اب لوگوں کو گھروں سے نکل کر کام کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ اور ویسے بھی ماضی کا ڈیم فنڈ بھی اس بات کی کھلی دلیل ہے۔ آپ کو یاد ہو گا جب ڈیم فنڈ کا شور بلند ہوا تو یہ کہا گیا کہ اگر ہم نے ڈیم کی تعمیر نہ کی تو پانی کی ایک ایک بوند کو ترس جائیں گے اور پھر شفافیت کا تاثر دینے کے لئے ریاست کے ایک ‘بڑے’ کا نام بھی اس میں شامل کر لیا گیا۔ چنانچہ عوام جوق در جوق اس میں پیسے جمع کروانے لگے۔ اور اب کبھی خیال ستاتا ہے کہ کدھر گیا وہ ڈیم فنڈ؟ کیا کبھی اس فنڈ کی تفصیلات سامنے آئی ہیں؟ ڈیم کی تعمیر تو ایک طرف رہی کیا اب کبھی اس کا ذکر خیر بھی سننے کو ملا ہے؟ ہاں، امید کی جاتی ہے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ڈیم کی چوکیداری ضرور کرتے ہوں گے۔ دعا ہے اللہ انہیں استقامت عطاء کرے۔
اور اب لاک ڈاؤن اٹھانے کے ساتھ ہی وزیراعظم نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے ‘ساڈے تے نہ رہنا’ یعنی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی صورت میں ہمارے پاس صحت کی سہولیات کافی نہ ہوں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے صاف اپنا دامن بھی بچا لیا ہے۔ تو پھر میرا یہ ماننا ہے کہ کرونا فنڈ ریزنگ سے ایسا ہی ایک کھیل رچایا گیا ہے جیسا ڈیم فنڈ ریزنگ سے رچایا گیا تھا کہ بس کاروبار حکومت چلانے کے لیے پیسے اکٹھے کئے جائیں اور پھر بے شک عوام جائیں بھاڑ میں۔
موجودہ حکومت جو کہ الزامی سیاست میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اس کے لچھن دیکھتے ہوئے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ ایک گھر میں چور گھس آیا۔ اس نے سامان باندھنے کی غرض سے اپنی قمیض اتار کر صحن میں پھیلا دی اور خود اندر چوری کرنے چلا گیا۔ اس کی غیر موجودگی میں مالک مکان نے وہ قیمض اٹھا لی۔ چور باہر آیا قمیض کو نہ پا کر اس نے اپنی بنیان اتاری اور بچھا کر پھر سے اندر چلا گیا۔ اب کی بار مالک مکان نے اس کی بنیان بھی اٹھا لی۔ چور باہر آیا اور بنیان کو موجود نہ پا کر اپنا آخری اثاثہ دھوتی بھی کھول دی اور فرش پر بچھا کر پھر سے اندر چلا گیا۔ مالک مکان نے اس کی دھوتی بھی غائب کر دی۔ اب جو چور باہر آیا مالک مکان نے شور مچانا شروع کر دیا۔ چور چور چور۔۔۔
چور بیچارا مسکین سی صورت بنا کر کہنے لگا، او ظالما! ابھی بھی میں ہی چور ہوں؟
قارئین! بات طول پکڑ چکی ہے اس لئے اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیجئے گا کہ دراصل چور کون ہے۔ وہ جنہیں عدالتوں نے کلئیر قرار دے دیا تھا یا وہ جن کا کام ہی صرف فنڈز اکٹھے کرنا اور ڈکارنا ہے؟