“امتیاز گورکھپوری”
باہر کالی آندھی نیزہ ہاتھ میں لئے گھوم رہی ہے
کہرام مچا رہی ہے
یہ سزا ہے یا کہ بیماری ہے
لاک ڈاؤن جاری ہے
قید ہیں سب سہمے سہمے ہوئے
گھبراۓ گھبرائے
آتما پہ اپنی بوجھ اٹھائے
اپنے ساۓ سے بھاگ رہے ہیں
لوگ اب ڈر ڈر کے جاگ رہے ہیں
نہ کوئی اپنا ہے نہ کسی سے یاری ہے
لاک ڈاؤن جاری ہے
کوئی روٹی کو ترس رہا ہے
آنکھ سے آنسو برس رہا ہے
بھوکے پیٹ ہے پھر بھی جئے جا رہا ہے
اپنوں کی خاطر ہر غم پئے جا رہا ہے
مانو کی مانوتا سے کیسی مکاری ہے
لاک ڈاؤن جاری ہے
اور پھر اک روز آسمانی فیصلہ آۓ گا
کھل جائیں گے سب دروازے
کھڑکیوں سے ٹھنڈی ہوائیں آئیں گی
پھر ہم سب رہا ہو جائیں گے
سوال یہ ہے
کیا ؟
وہ بھی آزاد ہو جائیں گے
جو اپنےذہنوں میں
برسوں سے لاک ڈاؤن ہیں
لاک ڈاؤن جاری ہے