کالم کے آغاز میں دو غلطیوں کی تصحیح۔ چند روز قبل میں نے کالم کے آخر میں تین شعر درج کئے تھے، اُن پر شاعر قمر ریاض کا نام شائع ہونے سے رہ گیا تھا۔ اور آج کے کالم میں مشہورِ زمانہ مختار بلکہ ’’مختاریا‘‘ کا نام ’’بختیاریا‘‘ لکھا گیا۔ اور اب اصل بات، حکومت نے کورونا کے حوالے سے پچاس سال کی عمر کے لوگوں کو بھی بوڑھوں میں شامل کر دیا ہے چنانچہ میں بھی اپنے کالم میں نہ صرف یہ کہ بوڑھا لکھتا ہوں بلکہ انہیں بوڑھا کہتے اور لکھتے ہوئے خوشی بھی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایک ’’احتجاجی‘‘ خط موصول ہوا ہے۔ اس میں شگفتہ بیانی ہے، براہِ کرم اسے سچ مچ کا غصہ نہ سمجھ بیٹھیں۔ اور اس خط کے آخر میں علی ارمان کی ایک بےپناہ خوبصورت غزل جو آج کے لاک ڈائون کی وحشت کو ظاہر کرتی ہے۔ ’’احتجاجی‘‘ خط ملاحظہ فرمائیں:
انتہائی معذرت کے ساتھ !یہ ناچیز آپ کے آج کے کالم کے حوالے سے اپنے تمام نوجوانوں کی جانب سے پُرزور احتجاج درج کروانا چاہتا ہے تاکہ آپ کی جانب سے کی گئی بہیمانہ شر انگیزی کا تدارک کیا جا سکے۔ آپ نے آج اپنے کالم میں پچاس سالہ نوخیز افراد کو بھی بزرگوں میں شامل کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آپ جیسے دانشور بھی حسد و رشک میں اخلاقی حدود سے تجاوز فرما جاتے ہیں۔ پچاس سال کی کچی عمر تو اٹکھیلیاں و لاڈیاں کرنے کی ہوتی ہے بلکہ اب تو تشنہ امنگوں و آرزوؤں کی تکمیل کا موسم آیا ہے۔ بقول شاعر؎
برس پچاس کہ پچپن کا سن
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن
لیکن آپ نے تو اپنے قلم کے زور پر اُن کی معصوم حسرتوں و خواہشات کا گلا ہی گھونٹ دیا ہے۔ آج کل ویسے ہی کورونا کی ہولناک خبروں کی وجہ سے مدافعتی نظام ڈانواں ڈول ہوا ہے اور آپ کے کالم کی وجہ سے یہ خطرے کی سرخ لکیر عبور کرنے لگا ہے۔ آپ نے لاکھوں انسانی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنے کی بظاہر دانستہ کوشش کی ہے، آپ کے خلاف میرے تمام نوجوان ساتھی مصر ہیں کہ تھانہ مار گلہ میں مقدمہ درج زیر دفعہ (بعد ازاں تھانہ دار کی مشاورت سے لگائی جا سکتی ہے) رجسٹر ہونا چاہئے لیکن چونکہ خادم آپ کا وقتِ پنگھوڑا سے مستقل قاری ہے اور بنا بریں خیر اندیش ہے۔ اس نے سب سے التجا کی ہے کہ کورونا کے اس ابتلا کے دور میں تھانہ کچہری سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ اس وقت ایک دعائے اجتماعیہ کا بندوبست کرنا زیادہ مناسب ہے کہ کورونا کے ساتھ ساتھ ربِ کریم سے گڑگڑا کر آپ کے لئے بھی ہدایت کی دعا کی جائے تاکہ آئندہ آپ کی تحریر انسانی جانوں کے لیے کسی سنگینی و خطرہ کا سبب نہ بن سکے۔
ایک دفعہ پھر خاکسار معافی کا خواستگار ہے ۔
سمیع الرحمٰن خان جامی
اور اب ملاحظہ کریں علی ارمان کی غزل:
کمرے میں تیس روز سے دیوانہ بند ہے
تم رو رہے ہو شہر کو، ویرانہ بند ہے
مکّے میں ہے طوافِ حرم بھی رُکا ہوا
اور میکدے میں گردشِ پیمانہ بند ہے
اک شمع جل رہی ہے اکیلی مزار پر
پروانگی حرام ہے پروانہ بند ہے
مشرک بھی دلِ شکستہ مسلماں بھی دلفگار
مسجد کی تعزیت میں صنم خانہ بند ہے
ممنوع ہے مکالمہ ساحل کی ریت سے
اپنے بدن کو دھوپ میں نہلانا بند ہے
رندوں کو روندنے کا مزہ بھی نہیں رہا
واعظ کو رنج یہ ہے کہ میخانہ بند ہے
ماتم یہ ہے کہ جرم ہے ماتم کی بھیڑ بھی
روتے ہیں سب اکیلے عزا خانہ بند ہے
ہے حجرہ فقیر میں بھی صرف سائیں سائیں
رنگینیِ محافلِ شاہانہ بند ہے
پہلے بھی قیدِ مرگ میں تھی زندگی یہاں
پر اب کے تو بطرزِ جداگانہ بند ہے
وہ بام پر اکیلا ہے سنسان ہے گلی
چاروں طرف سے کوچہ جانانہ بند ہے
تنہائی میں بتوں کو خدا یاد آ گیا
اور کس طرح نہ آئے کہ بتخانہ بند ہے
سرِ عام پھر رہی ہے کھلی موت شہر میں
اور زندگی کا نعرۂ مستانہ بند ہے