Site icon DUNYA PAKISTAN

بھارت کا مسلمان

Share

بھارت کا مسلمان 1947ء سے عرصہ آزمائش میں کھڑا ہے۔ اس کا امتحان کب ختم ہو گا؟ ہو گا بھی یا نہیں؟
کورونا پھیلا تو اس کے خلاف مرتب کی گئی فردقراردادِ جرم میں ایک نئے جریمہ کااضافہ ہو گیا۔ شہریت کے امتیازی قانون سے بات کہیں آگے بڑھ گئی۔ ہندوستان کی سرزمین اس پر آئے دن تنگ سے تنگ ترہو تی جا رہی ہے ۔ تہتر برس میں بات ‘مسلما ن پانی، ہندو پانی‘ سے ‘مسلمان وارڈ اورہندو وارڈ‘ تک ہی پہنچ سکی۔ بھارت کے مسلمانوں کے لیے تاریخ جیسے تھم گئی ہے۔
زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہو تو وقت گرفت میں نہیں آتا۔ وبا کے دنوں میں اس کی چال بھی بدل جا تی ہے۔ پہلے وقت ملتا نہیں تھا، اب وقت کٹتا نہیں ہے۔ کتاب کی رفاقت اس مسئلے کا حل ہے مگرایک حد تک۔ یکسانیت بہر حال بوریت پیداکرتی ہے۔ دل تبدیلی چاہتا ہے۔ آنکھوں کو رزق چاہیے اور کانوں کو بھی۔انسان محض دماغ تو نہیں ہے۔ اس کے سوا بھی بہت کچھ ہے۔
فلم دیکھنے کا مجھے شوق رہا مگرزندگی نے اس کا موقع بہت کم دیا۔ نوجوانی کے دنوں میں ایک دور ایسا گزرا کہ بھارت کی آرٹ فلموں کا چسکا لگا۔ بہت جلد مگر دوسرے مشاغل نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ آج میں پاکستان کے فلمی منظر نامے سے قطعاً بے خبر ہوں۔ شاید ہی تصویر دیکھ کر کسی اداکار کا نام بتاسکوں۔ آرٹ سے وابستگی انسان کو متوازن رکھنے کے لیے لازم ہے۔ ادب سے اس کا مداوا کرتاہوں مگر جانتا ہوں کہ موسیقی،فلم اور مصوری سے شغف ،مزاج کی لطافت کے لیے کتنا ضروری ہے۔
کورونا نے بالجبر فرصت مسلط کی تو خیال ہواکہ فلم نگری کا رخ کیا جائے۔ یو ٹیوب سے مدد چاہی تومعلوم ہوا کہ فلموں کی تعداد اتنی ہے کہ انتخاب کیے بغیر چارہ نہیں۔ میرے ایک خوش ذوق دوست نے داد رسی کی اور چند بھارتی فلموں کے نام لکھ بھیجے،جو ان کا خیال ہے کہ مجھے دیکھنی چاہئیں۔ان میں سے دو فلموں کا تعلق اس کالم کے موضوع سے ہے۔
ایک فلم کا نام ہے ”گرم ہوا‘‘۔ عصمت چغتائی کی کہانی کو کیفی اعظمی نے فلم کے لیے لکھا۔ یہ ایک ایسے مسلمان خاندان کی داستان ہے جو تقسیمِ ہند کے نتیجے میں تقسیم ہو گیا۔ بھارت میں رہ جانے والے خاندان پر کیا بیتی، یہ فلم اس کی دل خراش کہانی ہے۔ دوسری فلم ہے”فراق‘‘۔ یہ اس کرب اور خوف کا بیان ہے جو2002 ء کے مسلم کش فسادات کے بعد، گجرات کے مسلمانوں کی نفسیات میں رچ بس گئے۔ یہ فلم2008ء میں بنی۔ مجھے ہندو فلمسازوں کی جرأت نے متاثر کیا جنہوں نے ردِ عمل کے خوف سے بے نیازہو کر یہ فلم بنائی۔
‘گرم ہوا‘ 1973ء میں بنی۔ کہانی کا پیغام یہ ہے کہ مسلمان اگر اپنی بقا چاہتے ہیں تو انہیں بھارتی سماج میں رچ بس جا نا چاہیے۔ اگر وہ اپنے منفرد تشخص پر اصرار کریں گے تو اکثریت کا جبر انہیں مٹا دے گا۔ کیفی اعظمی کے خاندان نے اس پر عمل بھی کیا لیکن چند ماہ پہلے، خود ان کی بیٹی شبانہ ا عظمی اس جبر کا شکارہوئیں، باوجود اس کے کہ انہوں نے بھارت میں رہتے ہوئے کسی تہذیبی شناخت کا کوئی غیر معمولی مظاہرہ نہیں کیا۔ ا ن کے جیون ساتھی جاوید اختر بھی کسی مسلم تشخص کے علم برادر نہیں۔ اس کے باوصف،ہندو انتہا پسند انہیں قبول کر نے پر تیار نہیں۔
یہ تو خیرصاحبانِ وسائل ہیں۔یہ اپنی حفاظت کا اہتمام کر سکتے ہیں مگر ارتی گجرات کا مسلمان کیا کرے؟وہ تو غریب ہے اور اکثریت کے رحم و کرم پر ہے۔ 2002 ء کے فسادات پرسامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹس سے بالکل واضح ہیں کہ ریاستی مشینری کس طرح بلوائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کی مرتکب ہوئی۔ یہ سلسلہ تھمنے کو نہیں آ رہا۔ کشمیر کے کرفیو سے لے کر شہریت کے نئے قانون تک، مسلمانوں کا خوف اور کرب بڑھتا جا رہا ہے۔ مودی صاحب کے اقتدارمیں تو گویا ظلم کے واقعات کو مہمیز مل گئی۔ کیا بھارتی مسلمانوں کے مسائل کا کوئی حل بھی ہے؟
علامہ اقبال نے جب آزاد مسلم ریاستوں کا تصور دیا تو ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ آئے دن کے ہندو مسلم فسادات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ مسلمان اکثریتی علاقوں کو ہندو اکثریتی علاقوں سے الگ کر دیا جائے۔ یہ تجویز واقعہ بن گئی مگر فسادات ختم نہیں ہوئے۔ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں تو پہلے بھی ان کے مسائل زیادہ نہیں تھے۔ اکثریت کو بہرحال اقلیت پر ایک برتری حاصل ہوتی ہے۔ مسئلہ تو ان مسلمانوں کا تھا جو ہندو اکثریتی علاقوں میں رہتے تھے۔ مسلم اکثریتی علاقوں کو الگ کر دینے سے ان کے مسائل کیسے حل ہو سکتے تھے؟
کیا وہ ہجرت کر جاتے؟ یہ ایک ناقابلِ عمل بات تھی، اس لیے یہ کسی طرح بھی تقسیمِ ہند کے فارمولے کا حصہ نہیں تھی۔ یہی سبب ہے کہ تقسیم کے وقت جب فسادات پھوٹ پڑے اوربڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی تویہ سب کے لیے غیر متوقع صورتِ حال تھی۔ پاکستان کی قیادت کے پاس اس مسئلے کو کوئی حل موجود نہیں تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُس وقت جذبہ جوان تھا اور قائد اعظم جیسی شخصیت موجود تھی۔ یوں مہاجرین کو سر چھپانے کی جگہ مل گئی۔ تاہم اس تقسیم کے نتیجے میں جولاکھوں لوگ مر گئے، تاریخ پڑھاتے وقت ان کے ذکر سے آج بھی گریز کیا جا تا ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تقسیم نہ ہوتی توپاکستان کے لوگ بھی ہندواکثریت کے رحم وکرم پر ہوتے؟ کیوں ہوتے،اس کی وجہ میں نہیں جان سکا۔ پنجاب کے پی وغیرہ میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ یہاں کے ہندو مسلمانوں کے رحم وکرم پر تھے، مسلمان ان کے رحم و کرم پر نہیں تھے۔ اگر تقسیم نہ ہوتی تو بھی یہی صورتِ حال باقی رہتی۔ ہاں، ہندو اکثریت کے علاقوں میں مسلم اقلیت ان کے رحم وکرم پر تھی اور آج بھی ان ہی کے رحم وکرم پرہے۔ ان کواس تقسیم سے کوئی تحفظ نہیں مل سکا۔
اس باب میں ایک رائے مولانا وحید الدین خان کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہند کے مسلمانوں نے شعوری طور پر بھارتی معاشرت کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنی بربادی کے خود ذمہ دار ہیں۔ مولانا کی دینی خدمات کے اعتراف کے باوجود ، میں اس مقدمے کو کبھی نہیں سمجھ سکا۔ 2002ء میں گجرات کے مسلمانوں کا قتلِ عام کیااس وجہ سے ہواکہ انہوں نے معاشرت سے بغاوت کی؟ شہریت کا نیا قانون کیوں بنا؟ آر ایس ایس کیا مسلمانوں نے بنائی؟ کیا بھارت کے شہری کے طور پر انہیں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا حق نہیں؟ کیا جمہوریت کا مطلب اکثریت کا جبر ہے؟ شبانہ اعظمی جیسوں نے تو عملاً مولانا کی رائے پر عمل کیا۔ اس کے باوجود انہیں شکایت کیوں ہے؟
تاریخ اور سیاسیات کے ایک طالب علم کے طور پر،میںبھارت کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کا کوئی حل تلاش نہیں کر سکا۔ تقسیمِ ہند ان کے مسائل کو حل کر پائی اور نہ مولانا وحید الدین خان کا فارمولا۔ اکٹھا رہتے تھے،تو بھی آئے دن فسادات ہوتے تھے۔ انہی فسادات کی وجہ سے تقسیم کے حل کو پذیرائی ملی۔ جب اکٹھا رہنا ممکن نہ ہوتوالگ ہو کر بھی بات نہ بنی۔ تو کیا بھارت کے مسلمان ہمیشہ اسی خوف اور کرب کی حالت میں رہیں گے؟
میرا احساس ہے کہ اس خطے کے باسیوں کی نفسیاتی ساخت تاریخی ہے،عصری نہیں۔ میرا تعلق اس نسل سے ہے جو تقسیم کے بہت بعد پیدا ہوئی۔ میری ذہنی ساخت ایسی ہے کہ میں14 اگست 1947ء کواپنی تاریخ کا نقطہ آغاز نہیں بنا سکا۔ میں آج بھی محمد بن قاسم یا مسلمان حکمرانوں سے اپناتاریخی تسلسل قائم کر تا ہوں۔ سرحد کے اس پار ‘ہندوتوا‘ کے تصور کی حکمرانی ہے جس کی تاریخ اس سے بھی قدیم ہے۔ لگتا ہے جغرافیہ تقسیم ہو گیا مگرتاریخ تقسیم نہیں ہو سکی۔ جب تک تاریخ تقسیم نہیں ہوگی،بھارت کے مسلمان اس اذیت سے نکل پائیں گے نہ ‘ہندوتوا‘ کے علم برادر۔ تاریخ کی تقسیم،کیا ممکن ہے؟ اس باب میں دیگر اقوام کے تجربات کیا ہیں؟بھارتی مسلمان کا مستقبل انہی سوالات کے جواب میں ہے۔

Exit mobile version