Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس: کووڈ 19 کے مردوں اور عورتوں پر اثرات مختلف کیوں؟

Share

کورونا وائرس لوگوں کی صحت پر ہی نہیں بلکہ کئی اعتبار سے ہر شخص میں مختلف اثرات مرتب کرتا ہے۔ لیکن مردوں اور عورتوں پر اس کے اثرات یکسر مختلف ہیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک وائرس جو بلا تفریق ہر شخص کو متاثر کر رہا ہے، مردوں اور خواتین پر اتنے مختلف طریقوں سے اثر انداز ہو؟

بس ڈرائیوروں سے لے وزرائے اعظم تک ہر، طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ کووڈ 19 کی لپیٹ میں آ کر شدید بیمار ہو رہے ہیں جس کے باعث لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ وائرس انسانوں میں کوئی امتیاز نہیں کرتا۔ کورونا وائرس آخرکار ایک بےحس جنیاتی مادہ ہے اور یہ امتیاز کرنے کے قابل نہیں ہے۔

اس کے باوجود یہ وائرس مختلف لوگوں کو مختلف لحاظ سے متاثر کر رہا ہے۔ صنف کے اعتبار سے اس کے اثرات سب سے زیادہ مختلف انداز میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ کووڈ 19 کی لپیٹ میں آ کر خواتین اور مرد صرف مختلف انداز میں ہی بیمار نہیں ہو رہے بلکہ اس کے ان کی صحت اور معاشی خوشحالی پر بھی طویل المدتی اثرات مختلف ہوں گے۔

بیماری کے مختلف اثرات

سب سے حیران کن فرق جو نظر آیا ہے وہ اس بیماری میں مبتلا ہو کر خواتین اور مردوں کی شرح اموات میں ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں بیمار ہو کر مرنے والے مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں دگنی ہے۔ اسی طرح مغربی یورپ کے ملکوں میں مردوں میں اموات کا تناسب 69 فیصد ہے۔ چین اور دوسرے متاثرہ ملکوں اور خطوں سے بھی اسی قسم کے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔

برطانیہ میں یونیورسٹی کالج آف لندن میں تحقیق کاروں کی ایک ٹیم، جس کی سربراہی اینا پرڈی کر رہی ہیں وہ مختلف ملکوں میں مردوں اور عورتوں میں اس وائرس کے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے، لیکن اس فرق کی وجہ ابھی معلوم نہیں کی جا سکی۔

برطانیہ ہی کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ گولڈر کا کہنا ہے کہ ایک مفروضہ یہ ہے کہ خواتین میں اس وائرس کے خلاف مدافعتی قوّت زیادہ ہے۔ ان کے مطابق خواتین میں ویکسین اور وباؤں سے بچاؤ کے لیے مدافعتی رد عمل مردوں کے مقابلے میں عام طور پر زیادہ تیز اور زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ حقیقت ہے کہ خواتین کے خون میں ‘ایکس کروموسموز’ کی تعداد مردوں کے مقابلے میں دگنی ہے، خواتین کے پاس دو ہوتے ہیں اور مردوں کے پاس ایک۔ جب اس وائرس کی بات آتی ہے تو یہ چیز بہت اہم ہے۔

پروفیسر گولڈر کا کہنا ہے کہ جن پروٹینز یا لحمیات سے کورونا وائرس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے وہ ایکس کروموسومز میں موجود ہوتے ہیں۔ خواتین کے خون کے سالموں میں پروٹین کی مقدار مردوں کے مقابلے میں دگنی ہوتی ہے۔ اس لیے خواتین میں مدافعتی قوّت مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔

وائرس کے مختلف اثرات کی ایک وجہ ممکنہ طور پر مردوں اور عورتوں کے مختلف طرز زندگی بھی ہو سکتا ہے۔ پروفیسر گولڈر کا کہنا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی عادات مختلف ہوتی ہیں مثال کے طور پر سگریٹ نوشی کی وجہ سے ان کی صحت کے مسائل جیسا کہ دل اور پھیپھڑوں کی بیماریاں یا سرطان وغیرہ۔ ان سب عوامل کے سبب کورونا وائرس کے نتائج بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔

مختلف صنف کے افراد میں سگریٹ نوشی کی عادت میں فرق چین جیسے ملکوں میں بہت واضح ہے جہاں پچاس فیصد مرد اور صرف پانچ فیصد خواتین سگریٹ نوشی کے عادی ہیں۔

کورونا وائرس کی وبا کے اس مرحلے تک ابھی اتنے شواہد دستیاب نہیں ہیں کہ یہ تعین کیا جا سکے کہ اس کی وجہ مرد اور عورتوں کے جسموں میں قدرتی فرق ہے یا ان کی عادات و اطوار یا یہ دونوں عوامل ہی کار فرما ہیں۔

بے روز گاری کی شرح میں یکساں طور پر اضافہ نہیں ہو رہا اور جزوی طور پر اس کی وجہ وہ خاص حالات ہیں جس میں یہ معاشی بحران آیا ہے

معاشی اثرات:

عورتوں اور مردوں کو یہ وبا ایک اور لحاظ سے مختلف انداز میں متاتر کر رہی ہے اور اس کے شواہد سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

جرمنی کی یونیورسٹی مینہیم کے ‘ماہر معاشیات مائیکل ٹرٹلٹ اور ان کے ساتھی ماہرین اس عالمی وبا کے امریکہ میں کام کرنے والی خواتین اور مردوں پر معاشی اثرات کے شواہد اکھٹا کر رہے ہیں۔ اس وبا کے باعث کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک کروڑ 70 لاکھ کے قریب لوگ بےروزگار ہو چکے ہیں اور بہت سی عالمی معیشتوں کو بحران کا سامنا ہے۔

بے روزگاری کی شرح میں یکساں طور پر اضافہ نہیں ہو رہا اور جزوی طور پر اس کی وجہ وہ خاص حالات ہیں جس میں یہ معاشی بحران آیا ہے۔ مائیکل ٹرٹلٹ کا کہنا ہے ‘یہ عام معاشی بحران سے بالکل مختلف صورت حال ہے۔‘

امریکہ میں وبا کے آغاز کے بعد دو کروڑ سے زیادہ افراد بےروزگار ہوئے ہیں جو کہ سنہ 1975 کے بعد سے بےروزگاری کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اس کا اثر عورتوں پر زیادہ شدید پڑا ہے جن کی بے روزگاری کی شرح میں اعشاریہ نو فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ مردوں کی بے روزگاری کی شرح میں اعشاریہ سات فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

اس اعتبار سے بھی یہ معاشی بحران عام حالات سے مختلف ہے کہ عمومی طور خراب معاشی حالات میں مردوں میں بے روز گاری زیادہ بڑھتی ہے کیونکہ زیادہ مرد فیکٹریوں، صنعتی، تجارتی اور تعمیراتی اداروں میں مزدوری اور ملازمت کرتے ہیں جن کا تعلق براہ راست معیشت سے ہوتا ہے۔ خواتین کا روزگار زیادہ تر ایسے شعبوں مثال کے طور پر تعلیم یا صحت عامہ سے ہوتا ہے جن پر خراب معاشی حالات کا براہ راست اثر نہیں پڑتا۔

لیکن اس مرتبہ دوسرے عوامل لوگوں کے روزگار پر زیادہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ایک یہ چیز کہ آیا کوئی شخص کسی ایسے شعبے سے روز گار کے حوالے سے وابستہ تو نہیں ہے جن کا شمار انتہائی اہم یا ہنگامی نوعیت کی ملازمتوں میں ہوتا ہے۔ ٹرٹلٹ کی ٹیم نے صحت عامہ، ٹرانسپورٹ، پولیس، زراعت، ماہی گیری، جنگلات اور مرمتوں اور نگہداشت کے شعبوں میں کام کرنے والوں کو اہم یا کلیدی کارکنان میں شمار کیا ہے۔ کارکنوں کو اس لحاظ سے تقسیم کرنے سے 17 فیصد خواتین اور 24 فیصد مرد کے روز گار کا انحصار ان کلیدی یا انتہائی اہم شعبوں سے ہے۔

دوسرا بڑا عنصر یہ ہے کہ کیا لوگ اپنے کام دفتروں سے دور رہ کر ‘ٹیلی کمیوٹنگ’ یا کمپیوٹر کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں۔ ٹرٹلٹ اور ان کے ساتھی ماہرین نے اس اعتبار سے بھی تقسیم کی، مثال کے طور پر بزنس کا تجزیہ کرنے والا کمپیوٹر کے ذریعے اپنے گھر سے بیٹھ کر بھی کام کر سکتا ہے لیکن کسی بار یا شراب خانے میں کام کرنے والا گھر سے بیٹھ کر کام نہیں کر سکتا۔

ایسا کرنے سے ٹرٹلٹ اور ان کی ٹیم کو یہ معلوم ہوا کہ زیادہ مرد ایسے کام کر رہے ہیں جو دفتروں سے دور رہ کر گھروں سے بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے شعبوں میں مردوں کے روزگار کی شرح 28 فیصد ہے جبکہ صرف 22 فیصد خواتین ملازم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ بات حیران کن تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ ایسی ملازمتوں میں جن میں گھروں پر رہ کر کام کیا جانے کا امکان ہے یا جن کے لیے زیادہ سفر نہیں کرنا پڑتا مثال کے طور پر سرکاری دفاتر اور نجی دفاتر کی ملازمتیں ان میں خواتین کی شرح زیادہ ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ جب اپ غور کرنا شروع کرتے ہیں تو یہ بات واقعی درست لگتی ہے کہ زیادہ تر خواتین سیاحت کی صنعت یا ریستوانٹ وغیرہ میں ملازم ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں ہوٹل، ریستورانٹ وغیرہ بند ہیں اور سیاحت کی صنعت بھی ٹھپ پڑی ہے۔

برطانیہ کے اداراے انسٹی ٹیوٹ آف فسکل سٹڈیز میں ہونے والی تحقیق کے بھی تقریباً ایسے ہی نتائج سامنے آئے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ برطانیہ میں ایسے شعبوں میں مثال کے طور پر مہمان نوازی اور ریٹیل جو اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں یا بالکل بند پڑے ہیں ان میں خواتین کے کام کرنے کا تناسب مردوں کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ ہے۔

زیادہ تر خواتین سیاحت کی صنعت یا ریستوان وغیرہ میں ملازم ہوتی ہیں

‘ورلڈ وی وانٹ ‘ نامی ایک نجی ادارے کی سربراہ اور بانی، نتاشا مدھر کا کہنا ہے کہ معاشیات کے نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو کم اجرتوں پر کام کرنے والی ورکنگ کلاس طبقے کی نوجوان خواتین کے بارے میں یہ ہی خیال ہے کہ وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

صنف کی بنیادوں پر اجرتوں میں فرق سے اس عدم مساوت نے زیادہ پیچیدہ صورت حال پیدا کر دی ہے۔ نہ صرف یہ کے خواتین بڑی تیزی سے بے روز گار ہو رہی ہیں بلکہ ان کی آمدنی جو پہلے ہی کم تھی اب ختم ہو گئی ہے۔

نتاشا مادھر کا کہنا تھا کہ جہاں مرد اپنی ضروریات زندگی پر ایک پونڈ خرچ کرتا ہے وہیں ایک عورت اسی ‘پینی’ (پیسے) خرچ کر پاتی ہے۔

امریکہ میں بھی صنف کی بنیادوں پر اجرتوں میں عدم توازن پایا جاتا ہے اور مردوں کی اجرت کے مقابلے میں عورتوں کی اجرتیں 15 فیصد کم ہوتی ہیں۔ آسٹریلیا میں مردوں کی اجرتوں کا 86 فیصد عورتوں کو ادا کیا جاتا ہے جبکہ انڈیا میں یہ صورت حال اور بھی ابتر ہے جہاں مردوں کو جس کام کے 100 روپے ادا کیے جاتے ہیں اسی کام کے عورتوں صرف 75 روپے ہیں ملتے ہیں۔

اس میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر بھی تفریق پائی جاتی ہے اور نسلی اقلیتوں کی خواتین کا اس ضمن میں زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں سیاہ فام خواتین کی اجرتیں سفید فام خواتین کے مقابلے میں 21 فیصد کم ہیں۔

جو مرد یا خواتین بچوں کے تناہ پالنے والے ہوتے ہیں یا جنہیں ‘سنگل پیرنٹ’ کہا جاتا ہے ان پر بھی اس صورت حال کا بڑا برا اثر پڑا ہے۔ ٹرٹلٹ کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں تقریباً دو کروڑ لوگ ‘سنگل پیرنٹ’ ہیں جن میں سے تین چوتھائی تعداد خواتین کی ہے۔

ٹرٹلٹ کا کہنا ہے کہ ‘ذرا سوچیئے کہ یہ لوگ کام نہیں کر پا رہے۔’ اگر وہ نرس ہیں یا ڈاکٹر، اگر وہ کسی اہم شعبے سے وابستہ ہیں اور ان کے پاس کام ہے تھی تب بھی ان کے بچے گھر پر ہیں اور وہ کام پر نہیں جا پا رہے۔’

ایسے ‘سنگل پیرنٹ’ جو گھر سے کام کر سکتے ہیں اور ان کے بچے بہت چھوٹے ہیں جن کو ہر وقت کی توجہ چاہیے تو ان کے لیے کام کرنا کس قدر مشکل ہے۔ خاص طور پر ایسی خواتین کے لیے جو تنہا بچوں کی پرورش کر رہی ہیں ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ٹرٹلٹ کا کہنا ہے وہ بچوں کی دیکھ بحال کے لیے کوئی ملازم یا ملازمہ نہیں رکھ سکتیں، اپنے کسی پڑوسی یا نانا نانی سے مدد نہیں لے سکتیں، ان کی نوکریاں خطرے میں ہیں۔’۔

ان ملکوں جیسے برطانیہ، جرمنی اور امریکہ میں جہاں حکومت کی طرف سے عارضی چھٹیوں کی سہولت موجود ہے وہاں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنی نوکری چھوڑتے ہیں تو وہ فرلو لینے کے حق دار نہیں ہوتے۔ نوکری چھوڑنے کی صورت میں وہ حکومت سے بے روزگاری آلاونس کا بھی تقاضہ نہیں کر سکتے۔

ٹرٹلٹ کا کہنا ہے کہ ‘اگر ورکر رضاکارانہ طور پر اپنے بچوں کی خاطر نوکری چھوڑتے ہیں تو انھیں حق دار قرار دینا چاہیے۔’ انہوں نے کہا کہ یہ شرائط کہ لوگ نوکریوں کی تلاش میں ہوں یا انہیں عارضی طور پر بچوں کی نرسریاں یا سکول کھلنے تک عارضی طور پر نکال دیا گیا ہو ان حالت میں ان کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

ٹرٹلٹ کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں تقریباً دو کروڑ لوگ ‘سنگل پیرنٹ’ ہیں جن میں سے تین چوتھائی تعداد خواتین کی ہے

عدم مساوات کو آشکار کرنا:

کووڈ 19 ان وبائی امراض کی طویل فہرست میں نئی وباء ہے جس نے معاشی عدم مساوات اور خاص طور صنف کی بنیادوں پر معاشرے میں پائے جانے والی تفریق کو اجاگر کیا ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس اور سیاسیات کے شعبے میں پروفیسر کلیئر ونہام کا کہنا ہے کہ ‘تمام وباؤں کا صنفی اثر ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو حکومتی سطح پر اس بارے میں کوئی بات ہوتی ہے اور نہ ہی پالیسی ساز لوگوں مسئلے سے پوری طرح آگاہ ہیں۔

ونہام اور ان کے ساتھیوں نے کورونا وائرس سے پہلے زیکا اور ایبولا وائرس کی وباؤں کے خواتین اور مردوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا تھا اور اب وہ کووڈ 19 کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ایبولا وائرس کا سیارا لیون میں خواتین پر یہ اثر پڑا تھا کہ وہاں زچہ خواتین کے ہلاک ہونے کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہو گیا تھا۔ عالمی ادارۂ صحت اس بات پر زور دیتا ہے کہ زچگی کے دوران خاص طور پر جب کوئی وباء پھیلی ہوئی ہو تو خواتین کو بہترین طبی سہولیات مہیا کی جائیں اور بچے کی ولادت کے بعد بھی۔ لیکن ان ہدایات پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔

وینہم سابقہ وباؤں سے جانتے ہیں کہ وسائل کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ تمام کے تمام وباؤ سے بچاؤ پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ ‘اس کا مطلب ہے کہ معمول کی تمام سہولیات منقطع ہو جاتی ہے اور ان میں سب سے پہلے جس شعبے کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہ زچہ اور بچہ کو دی جانے والی سہولیات ہیں۔’

خواتین سے متعلق دوسری سہولیات کا بھی یہ ہی حال ہوتا ہے تا وقت کہ حکومت انہیں انتہائی اہم سروسز قرار نہ دے دے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی تنظیم ‘میرا سٹوپس’ کے اندازے کے مطابق 95 لاکھ خواتین دنیا بھر میں اس کی مانع حمل اور حمل تلف کرنے کی سہولیات تک کورونا وائرس کی وجہ سے رسائی حاصل نہیں کر سکیں گی۔

اس وباء کی وجہ سے گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ فرانس میں ‘لاک ڈاؤن’ کے پہلے ہی ہفتے میں گھریلو تشدد کے واقعات میں ایک تہائی اضافہ ہو گیا تھا جب کہ اطلاعات کے مطابق آسٹریلیا میں 75 فیصد اضافہ ہوا اور لبنان میں اس نوعیت کے واقعات دگنے ہو گئے۔ گھریلو تشدد کے واقعات میں مرد اور خواتین دونوں ہی مظلوم ہو سکتے ہیں لیکن ان واقعات میں خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ امریکہ میں اپنے شریک یا شریک حیات کے ہاتھوں عورت کے زیادتی کا نشانہ بننے کے امکانات مرد کے مقابلے میں دو گنا ہوتے ہیں اور اس کے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے امکان 14 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

وینہم کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ گھریلو تشدد گھروں پر ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ لوگوں کو گھروں میں بند کر دیں اور صورت حال اتنی سنگین ہو کہ جس سے لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، وہ اپنے کاموں پر بھی نہ جا سکیں اور انھیں مالی پریشانیوں کا بھی سامنا ہو۔ ایسی صورت حال میں آپ کو یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ گھریلو تشدد کے واقعات میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے، سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ منظر مرد اور خواتین دونوں کے لیے مختلف اعتبار سے بڑا تاریک ہے۔ مردوں کے لیے خاص طور پر ان مردوں کے لیے جن کو صحت کے دیگر مسائل در پیش ہیں اور ان کی عمر بھی زیادہ ہے موجودہ صورت حال بڑی سنگین ہے۔ باوجود اس امر کے کہ خواتین کے کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے زیادہ امکانات ہیں لیکن اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے دیگر معاشرتی اور معاشی مسائل عورتوں کے لیے بڑے گھمبیر ہیں۔

وینہم کی رائے میں حکومتوں کے لیے ابھی اتنی دیر نہیں ہوئی ہے کہ وہ معاشی طور پر بری طرح متاثرہ ہونے والے لوگوں کی مدد کے لیے کچھ نہ کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا ابھی بھی اس بحران سے بری طرح متاثر ہونے والوں کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس بحران سے نکل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ خواتین کے لیے وبا کے دوران اور اس کے ختم ہو جانے کے بعد امداد میسر ہو تک اور وہ اپنے کاموں پر واپس جا سکیں۔’ ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا اس وقت بچوں کی نگہداشت کے لیے سہولیات میسر ہوں جب خواتین ایسا کرنے کی کوششیں کر رہی ہوں۔

اس سارے تاریک منظر میں ٹرٹلٹ کے ساتھیوں کو صنفی مساوات کے ضمن میں کچھ خوش آئند چیزیں نظر آ رہی ہیں۔ اول کام کی جگہوں پر زیادہ لچک دار اوقات کار۔ ٹرٹلٹ کہتے ہیں کہ لاکھوں تجارتی ادارے اب گھروں سے کام کرنے کے تصور کو اپنا رہے ہیں۔ امریکہ کے کچھ حصوں میں مارچ کے مہینے میں ٹیلی کانفرنسنگ کے ذریعے کام کرنے میں گزشتہ مہینے فروری کے مقابلے میں دو سو فیصد اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ اس بات کا امکان موجود ہے کہ کام کرنے کے انداز میں اس تبدیلی سے پیشہ وارانہ زندگیوں اور گھریلو زندگی میں توازن قائم کرنے میں مدد مل سکے۔ ان کے خیال میں اس سے خواتین کو کاروباری طریقوں اور کام کرنے کی جگہوں پر لچک دار اوقات کار سے زیادہ فائدہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ عموماً انھیں ہی گھروں اور بچوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔

ایک دوسری چیز جس کا مثبت اثر بہت بڑی تعداد میں کارکنوں پر پڑ سکتا ہے۔ ٹرٹلٹ کی تحقیق میں مرد اور خواتین کے ان جوڑوں پر نظر ڈالی ہے جن میں سے آٹھ سے بارہ فیصد لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک دوسرے کی جگہ لے لیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ایک ایسے جوڑے کے بارے میں سوچیں جس میں بیوی ڈاکٹر ہو اور اس وباء کے خلاف صف اول میں کام کر رہی ہوں جبکہ شوہر کوئی ایسا دفتری کام کر رہے ہوں جو ٹیلی کمیوٹنگ کے ذریعے کیا جا سکتا ہو۔’ ایسے جوڑوں کی زندگی میں یہ بہت ممکن ہے کہ شوہر اچانک بچوں کا بڑا نگہبان بن جائے۔ بیوی ہسپتال میں کام کر رہی اور شوہر گھر پر کام کے دوران بچوں کی دیکھ بحال بھی کرے۔ امریکہ میں ساٹھ فیصد گھروں میں خواتین بچوں کی دیکھ بحال کرتی ہیں اور ٹرٹلٹ کے خیال میں اس میں اب بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔

بچوں کی دیکھ بحال میں یہ تبدیلی آنے والے دنوں میں بڑی دیرپہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ جرمنی اور سویڈن میں پالیسیاں تبدیل کرنے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بچے کی پیدائش پر باپ کو زیادہ چھٹیاں دئیے جانے سے مردوں کی گھروں اور بچوں میں دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔

ٹرٹلٹ کی رائے میں اس مشاہدے کے بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر لاک ڈاؤن ایک سے دو ماہ چلتا ہے تو اس کے بہت دو رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر لاک ڈاؤن طول پکڑتا ہے تو اس کے زیادہ گہرے اثرات ہوں گے۔

صحت عامہ کا اس طرح کا بحران، جو کورونا وائرس سے پیدا ہوا ہے اس سے معاشرے میں ہر قسم کی ناہمواریاں جن میں صنفی بنیادوں پر بھی ہوتی ہے وہ زیادہ گہری اور سنگین ہو جاتی ہیں۔

وینہم کا کہنا ہے کہ یہ سب ناہمواریاں ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر امریکہ میں کورونا وائرس سے وہ شہر زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں افریقی نژاد امریکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن اس سے ایک مسئلہ اجاگر ہوا ہے جو کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے موجود تھا۔ اس سے لوگوں کو حاصل صحت کی سہولیات میں بھی فرق سامنے آیا ہے۔ امریکی شہر شکاگو کے صحت عامہ کے کمشنر ایلیسن اروادی کے مطابق شکاگو شہر میں بسنے والے سیام فام لوگوں کی اوسط عمر سفید فام شہریوں کے مقابلے میں نو سال کم ہوتی ہے۔

کووڈ 19 سے ہونے والی ہلاکتوں سے بھی اب تک یہ ہی ظاہر ہوا ہے کہ جن لوگوں کو صحت کے دیگر مسائل در پیش ہیں ان کے اس وباء سے بچنے کے امکانات کم ہیں۔ امریکہ میں زیابیطس اور امراض قلب افریقی نژاد امریکی شہروں کو زیادہ لاحق ہیں۔

کورونا وائرس اگر چہ سب کو یکساں طور پر متاتر کر رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشرے کے تمام طبقات کو اس سے ایک جیسا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بالکل برعکس ہو رہا ہے اور وائرس کی وجہ سے معاشرے کی ناہمواریاں اور زیادہ بھیانک شکل میں سامنے آشکار ہو رہی ہیں۔

Exit mobile version