اپریل سنہ 1892 میں سلطنت برطانیہ کے اندر انڈیا کی سب سے امیر شاہی ریاست کے شہر حیدرآباد میں انگریزی زبان میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا۔
اس پمفلٹ میں جو کچھ بیان کیا گیا اس سے ایک جوڑے یعنی مسلمان رئیس مہدی حسن اور انڈیا میں پیدا ہونے والی ان کی برطانوی اہلیہ ایلن گرٹریوڈ ڈونلی کی زندگی برباد ہو کر رہ گئی۔
19ویں صدی کے ہندوستان میں بین النسل محبت نہیں ہوا کرتی تھی اور حکومت کرنے والے محکوم کے ساتھ جنسی رشتہ قائم نہیں کرسکتے تھے، شادی تو دور کی بات تھی جبکہ ایک ہندوستانی کا ایک گوری کے ساتھ رشتہ تو اور بھی زیادہ بعید از قیاس تھا۔
لیکن یہ جوڑا نظام شاہی کے زیر نگیں علاقے حیدرآباد کے شرفا میں شامل تھا۔ ایلن کا برطانوی تعلق اور نظام کی حکومت میں مہدی کے کردار نے 19 ویں صدی کے اواخر میں اس جوڑے کو بہت طاقت ور جوڑا بنا دیا تھا۔ یہاں تک کہ انھیں ملکہ وکٹوریہ سے ملنے کے لیے لندن بھی مدعو کیا گیا تھا۔
مہدی جیسے جیسے نظام کے دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتے جا رہے تھے ان کی کامیابی نے حیدرآباد میں رہنے والے بہت سے شمالی ہند کے باشندوں میں حسد کی چنگاری بھڑکا دی تھی۔
وہ حیدرآباد کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے اور اس کے بعد ریاست کے وزیر داخلہ نامزد کیے گئے۔ ان تمام چیزوں نے جہاں انھیں خطیر تنخواہ فراہم کی وہیں ان کے ہم منصبوں میں حسد بھی پیدا کی۔ اسی زمانے میں ایلن پردے سے باہر آئيں اور حیدرآباد کے امرا کے معاشرتی حلقے میں جانے لگیں۔ اس سے بعض لوگ چین بہ جبیں ہوئے لیکن مہدی اور ایلن اپنی ترقی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
لیکن اس چھوٹے سے پمفلٹ نے ان کی بالکل مختلف کہانی پیش کی جس کی وجہ سے ان کے اقبال کو ڈرمائی زوال کا منہ دیکھنا پڑا۔
مہدی کی کامیابیوں سے جلنے والے اس کے بے نام مصنف نے مہدی اور ان کی کارکردگی میں خرابی تلاش کرنے میں ناکامی کے بعد ایلن کو نشانہ بنایا۔
اس پمفلٹ میں تین مخصوص الزامات لگائے گئے۔
پہلا یہ کہ ایلن مہدی سے شادی کرنے سے قبل ایک عام طوائف تھیں اور اس پمفلٹ کے مصنف نے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنی جنسی تسکین کے لیے خصوصی طور پر ان کی خدمات حاصل کی تھیں۔
دوسرے یہ کہ مہدی اور ایلن نے کبھی شادی کی ہی نہیں۔
اور آخری یہ کہ مہدی نے ایلن کے ذریعے حیدرآباد دربار کی اعلی انتظامیہ کو جنسی سہولیات فراہم کیں تاکہ انھیں حمایت مل سکے۔
اپنے دوستوں کے مشورے کے برخلاف مہدی نے پمفلٹ شائع کرنے والے پرنٹر ایس ایم مترا کے خلاف ریزیڈنسی کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا جہاں ایک برطانوی جج اس کی سماعت کرنے والے تھے۔
طرفین نے معروف برطانوی وکیلوں کی خدمات حاصل کیں تاکہ اپنے مقدمے میں جان ڈال سکیں۔ طرفین نے گواہوں کو رشوت دی اور ایک دوسرے کے گواہان پر جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دینے کے الزامات عائد کیے۔
سماعت کے بعد جج نے مترا کو جنھوں نے پمفلٹ شائع کیا تھا تمام الزامات سے بری کر دیا اور حیرت انگیز طور پر انھوں نے سماعت کے دوران مباشرت، قحبہ گری، زنائے محرم، دھوکے، دروغ حلفی، رشوت کے متعلق جو باتیں سامنے آئیں انھیں نظر انداز کر دیا۔
یہ پمفلٹ سکینڈل بین الاقوامی سطح پر سنسنی پھیلانے کی وجہ بھی بنا۔ نظام کی حکومت، برطانیہ کی حکومت ہند، لندن میں حکومت برطانیہ اور دنیا بھر کے اخبارات نے نو مہینوں تک جاری رہنے والے اس مقدمے پر نظر رکھی۔
فیصلے کے چند ہی روز بعد مہدی اور ایلن نے لکھنؤ کے لیے ٹرین پکڑی جہاں دونوں پلے بڑھے تھے۔
مہدی نے بار بار لکھنؤ کی مقامی حکومت میں عہدے پر دوبارہ مقرر کیے جانے کی کوشش کی جہاں انھوں نے کبھی مقامی کلکٹر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں، انھوں نے پینشن حاصل کرنے اور صرف وظیفہ لینے کی بھی کوشش کی لیکن سب بےکار گئیں۔
مہدی نے کبھی چشم پرنم سے ملکہ وکٹوریہ سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا اور انڈین نیشنل کانگریس کو اس کے ایام طفلی میں ‘خطرناک’ کہا تھا۔ انھیں نوآبادیاتی حکومت ہند نے اسی طرح چھوڑ دیا جیسے نظام نے چھوڑ دیا تھا۔
آخر میں انھیں نظام کی حکومت میں وزارت داخلہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور انھیں کسی پینشن یا ہرجانے سے بھی محروم کر دیا گیا۔
جب ان کا 52 سال کی عمر میں انتقال ہوا تو انھوں نے ایلن کے لیے کوئی مالی تحفظ نہیں چھوڑا تھا۔
عمر کے ساتھ ایلن کی مالی حالت خستہ ہونے لگی۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں انھوں نے نیلی روشنائی میں مومی کاغذ پر حیدرآباد کے وزیر اعظم اور نظام سے تھوڑی بہت مالی مدد کی اپیل کی۔
حیدرآباد کی انتظامیہ جو سکینڈل اور بدعنوانیوں سے نکل کر آئی تھی اس نے ایلن کی اپیل پر ہمدردانہ نظر ڈالی اور انھیں کچھ الاؤنس دینے کی بات کہی لیکن تھوڑے دن تک معمولی امداد پانے کے بعد وہ طاعون کا شکار ہو گئیں اور جانبر نہ ہو سکیں۔
اس کہانی کے ذریعے سلطنت برطانیہ کے نصف النہار میں ثقافتی ملاپ یا دوغلے پن کو دیکھنے کے لیے ایک کھڑکی کھلی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے بعد بہت جلد ہی ہندوستانی قوم پرستوں نے سنجیدگی کے ساتھ اس سماجی سیاسی ڈھانچے کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔
مہدی اور ایلن کی کہانی اس وقت کے ہندوستان کی رائج چیزوں کو چیلنج کرتی ہے۔
ہر چند کہ دونوں ہر طرح کے طلاطم خیز طوفانوں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ رہے لیکن بالآخر ان کی کہانی نے اس زمانے کے اصول کی اس قدر خلاف وزری کی کہ وہ اس کا شکار ہو گئے۔
پمفلٹ سکینڈل ہندوستان کی نوآبادیاتی تاریخ کا وہ نقطۂ آخر ہے جب شاہی ریاست حیدرآباد اس وقت تک ‘مشتشرقی جابر’ حکومت تھی اور اس کے بعد بہت سے لوگ وطن پرست ہو گئے۔
انڈین نیشنل کانگریس کی ابتدا سنہ 1885 میں ہوئی تھی اور جب مہدی اور ایلن کے مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی وہ رفتار پکڑ رہی تھی۔
ایلن کی موت کے تھوڑے ہی دنوں بعد مہاتما گاندھی کی انڈیا واپسی ہوتی ہے جو انڈیا کی تحریک آزادی میں کانگریس کے کردار کو مستحکم کرتے ہیں۔ ایک بڑی تبدیلی جاری تھی جس میں انڈیا کے شہزادے، ان کی ریاستیں اور ان کے سکینڈل سرخیوں سے ہٹتے جا رہے تھے اور قوم پرست مرکزی حیثیت حاصل کرتے جا رہے تھے۔
اور ان تبدیلیوں کے درمیان پمفلٹ والا معاملہ کہیں کھو گیا۔
بنجمن کوہن یونیورسٹی آف یوٹاہ میں تاریخ کے پروفیسر ہیں اور وہ ہارورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع کتاب ‘این اپیل ٹو دی لیڈیز آف حیدرآباد: سکینڈل ان راج’ کے مصنف بھی ہیں۔