بچوں کو سکول لیجانے والی گاڑی کا ڈرائیور چھٹی پہ تھا دوسرا کوئی انتظام نہ ہو سکا تو میں نے بچوں سے ”درخواست“ کی کہ وہ آج ایک دن چھٹی کر لیں۔ بچوں نے سکول نہ جانے پر شدید احتجاج کیا۔ایک بچہ کہہ رہا تھا کہ آج اُ س کا کوئی ضروری ٹیسٹ ہے جس میں Appearہونا لازمی ہے۔دوسرے بچے کو آج کوئی بڑی اہم اسائنمنٹ جمع کروانی تھی۔جبکہ تیسرے بچے نے آج کسی Debate Competition میں حصہ لینا تھا۔ تینوں بچے چھٹی کا سُن کر تقریباً سکتے کے عالم میں تھے۔اور میں خود ایک کونے میں کھڑا شدید حیرت کا شکار تھا کہ یہ کیسے بچے ہیں جنہیں چھٹی کا موقع مل رہا ہے اور وہ اس پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ یاخدا !! یہ کونسا زمانہ آگیا ہے۔بچوں کے اس حیران کُن رویے نے مجھے اپنے سکول کے زمانے میں پہنچا دیا۔ کیسا زبردست فطری دور تھا جب چھٹی کا لفظ ہمارے کانوں میں رَس گھول دیتا تھا۔ کیسا زمانہ تھا جب طلباء اور اساتذہ دونوں چھٹیوں کے خواہاں رہتے۔ جب ہم گرمیوں کی چھٹیوں کا انتظارستمبر سے ہی شروع کردیتے تھے۔ جب بچے چھٹی کے حصول کے لیے اساتذہ کو ایسے چقمے دیتے کہ شیطان بھی اُن سے مشورے مانگے۔ جب سکول ہمیں ”کالا پانی“ لگتا تھا۔
ہمارے زمانے میں (یعنی کوئی پچیس تیس سال پہلے) سکو ل کسی حد تک خوف کی ایک علامت تھا۔ سکول کے بارے میں ہمارے ان احساسات کی بنیادی وجہ ہمارے وہ عظیم المرتبت اساتذہ کرام تھے جن کا تعلق غالباً خاندانِ امیر تیموریہ سے تھا۔ وہ بوجوہ سروں کے مینار تو نہ بنا سکے لیکن حتی المقدور کوشش ضرور کرتے رہے۔وہ اساتذہ بچوں کو سزا دینے کے ایسے بہانے اور جواز ڈھونڈتے کہ لُطف آ جاتا۔ بخدا ذاتی طور پر ہمیں کئی دفعہ صرف اس وجہ سے مار پڑی کہ کافی دن ہو گئے تھے ہمیں مار نہیں پڑی تھی۔ اُن اساتذہ کی سوچ اُن پرانے تھانیداروں سے ملتی تھی جو آتے جاتے ہیں حکم دیتے کہ حوالات میں موجود تمام قیدیوں کو الزام، جُرم یا عمر کی تفریق کے بغیر پانچ پانچ جوتے لگا ئے جا ئیں۔۔ دوسری طرف بچوں کو بھی مار کھانے کی اتنی عادت ہو گئی تھی کہ دو چار دن مار نہ پڑتی تو پڑھائی بے مزا سی ہو جاتی۔۔ کچھ دن مار کے بغیر گزرتے تو تعلیم کا عمل روکھا پھیکا اور بے رونق سا لگنے لگتا۔ہاں اگر ’مولا بخش‘ کا استعمال ہوتا رہتا۔۔مارپیٹ جاری رہتی اور اس بنا پر بچوں کے رونے چیخنے کی آوازیں آتی رہتیں تو ایک رونق سی لگی رہتی اورغالب ؔکے بقول یہ منظر تازہ رہتا :
ؔ ”ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہء غم ہی سہی نغمہء شادی نہ سہی“
اُن دنوں سکول میں مار پڑنے والے ”حمام“ میں سب طلباء ننگے تھے۔۔بلکہ کئی ایک تو بالکل ”ننگ دھڑنگ“ تھے ۔ ننگ دھڑنگوں کی اس فہرست میں سب سے آگے ساجد عرف ساجھو تھا۔ساجھو نے مار کھانے کے ایسے ایسے ریکارڈ بنائے جو برسوں گزرنے کے باوجود آج بھی قائم ہیں۔ تب سکول سے بھاگنے اور غیر حاضر ہونے کا رواج عام تھا۔ لیکن ایک بڑی زبردست بات یہ تھی کہ سکول سے بھاگنے والے اور غیر حاضر بچوں کو ایسے نہیں چھوڑ دیا جاتا تھا بلکہ صبح صبح دو تین ”ٹیمیں“ تیار کی جاتیں جن کے ذمّے ایسے بچوں کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر اور پکڑ کر واپس لانا ہو تا تھا۔ ساجھو بھی ایسے chronic Absent بچوں میں شامل تھا جسے تقریباً روزانہ ہی تلاش کر کے اور اُٹھا کر سکول لایا جاتا۔صبح ہی صبح ”Raiding Team“ تیار ہو جاتی اور ساجھو صاحب کے مختلف خُفیہ ٹھکانوں پر چھاپے مارے جاتے۔ اور پھر کسی ایک جگہ سے ساجھو صاحب برآمد ہوجاتے۔ مجھے ایک عرصہ تک ساجھو کو پکڑنے کے لیے جانے والی ٹیم کا حصہ رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اور یہ ”شرف“ مجھے بخشے جانے کی وجہ یہ تھی کہ میں ساجھو کا ایک رازدار دوست تھا۔۔وہ میرا جگری یار تھا۔ اور ظاہر ہے ایسے موقعوں پر یار ہی یار کے ”کام“ آتے ہیں۔اس پارٹی کے باقی افراد بھی ساجھو کے دوست تھے۔ چنانچہ جب ہم ساجھو کے ٹھکانے تک پہنچ کر اس کو پکڑنے لگتے اور وہ ہمیں دیکھتا تو گویا ”اپنے ہی دوستوں سے ملاقات“ کر رہا ہوتا۔ لیکن ساجھو ایک کشادہ دل انسان تھا اور وہ ہماری اس ”غداری“ کے باوجود شام کو پھر ہمارے ساتھ کھیل رہا ہو تا۔
ساجھو کو ”گرفتار“ کر کے سکول لانا ایک فن تھا۔ یاد رہے ساجھو کو پکڑنے والی اس ٹیم کے تقریباً تمام بچے بڑے ہو کر پولیس میں چلے گئے تھے۔گاؤں میں چھپنے کے لیے اس کے پاس کئی ٹھکانے تھے۔وہ کسی مشّاق’ اشتہاری‘ کی طرح اپنی جگہ بدلتا رہتا لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ تمام تر احتیاطوں کے باوجود وہ دھر لیا جاتا۔ اور ہم اپنے ’وسیع تجربے‘ کی بنیاد پر اس تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ۔ وہ عام طور قریبی کھیتوں، گھروں کی چھتوں یا پھر بستروں والی بڑی بڑی پیٹیوں کے نیچے کونے میں چھپتا۔ہم جب کسی بڑی پیٹی کے نیچے اسے دیکھتے تو یہ منظر بڑا دیدنی ہوتا۔ وہ پیٹ کے بل کمرے کے کچے فرش پر پنجے گاڑے کسی آبی جانور کا منظر پیش کررہاہوتا۔ ہم پانچ چھ بچے جب اسے وہاں سے کھینچ کر نکالتے تو وہ اپنے پنجے مذید گاڑ دیتا۔ کھینچنے کی پہلی کوشش میں عام طور پر ساجھوصاحب کی شلوار اُتر کر ہمارے ہاتھ میں آ جاتی اور وہ خود کہیں دوسری تیسری کوشش میں باہر تشریف لاتے۔ باہر نکلتے ہی ہم اسے ”ڈنڈا ڈولی“ کے انداز میں اُٹھا لیتے۔اس دوران وہ بالکل پُرسکون رہتا۔ ہم سکول پہنچتے تو ہم نے ساجھو کوبازوؤں پر اٹھایا ہوتا۔ اپنے تعلیمی کیریئر کے دوران بہت کم ایسا ہوا ہوگا کہ ساجھو صاحب اپنے پاؤں پر چل کر سکول آئے ہوں۔ وہ اکثر نوابوں کی طرح ”قہاروں“ کے کاندھوں پر سکول تشریف لاتے۔سکول پہنچ کر ہم ساجھو کو ماسٹر جی کے سامنے زمین پر”رکھ“ دیتے۔ماسٹر جی اس دن ساجھو کے لیے تجویز کردہ سزا پر عمل کرتے۔ ساجھو بڑے تحمّل سے یہ سب برداشت کرتا اور پھر اگلے دن زیادہ محفوظ جگہ چھپنے کا پلان بناتا۔ ساجھو ہر کلاس میں دو تین سال لگاتا میٹرک میں پہنچا لیکن میٹرک کا امتحان وہ تین چاربار کوشش کے باوجود بھی پاس نہ کر سکا۔
میٹرک کے بعد میں شہر آ گیا۔ ساجھو سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ برسوں اس سے کوئی ملاقات نہ ہو سکی۔بیس پچیس سال گزر گئے۔ پچھلے ہفتے میں سڑک کنارے ایک دکان سے پھل خرید رہا تھا کہ میرے سامنے نئے ماڈل کی Fortuner آکر رکی۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ سے انتہائی نفیس لباس میں ملبوس ایک شخص اُتر کر میرے پاس آیا۔ ایک لمحے کو میں اسے پہچان نہ سکالیکن اگلے لمحے میں خوشگوار حیرت میں ڈوب گیا۔ وہ ساجھو تھا اور مجھے دور سے پہچان کر میرے پاس آیا تھا۔ ہم ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اس کا گھر زیادہ دور نہیں تھا وہ مجھے وہاں لے گیا۔ کیا شاندار گھر تھا تین چار کینال پر مشتمل انتہائی خوبصورت فارم ہاؤس۔ تھوڑی دیر بعد میں ایک وسیع ڈرائنگ روم میں بیٹھا کافی پیتے سوچ رہا تھا کہ میٹرک میں فیل ہونے والا ساجھو زندگی میں فیل ہوا ہے یا پاس!!