ہم کہ ٹھہرے اجنبی۔۔۔
اپنی 88 ماڈل ایف ایکس کار کی فروخت کے لیے میں نے ایک دن پہلے اشتہار دیا تھا۔ آج اتوار کا روز تھا۔ چھٹی تھی چنانچہ صبح صبح میں نے گاڑی کو نہلا دھلا کر گیراج میں کھڑا کر دیا او ر کسی مناسب خریدار کا انتظار کرنے لگا۔ گاڑی پر نظر پڑی تو میری طبیعت اداس ہو گئی۔ گاڑی کے ساتھ ایک طویل رفاقت ختم ہونے کو تھی۔
اگرچہ یہ کار میرے لیے کسی آرام و سکون اور سُکھ کا باعث کبھی بھی نہیں رہی بلکہ دورانِ سفر اکثر و بیشتر یہ بھاگ بھری کوئی نہ کوئی پریشانی ہی کھڑی کرتی رہی۔۔ چلتے چلتے سرِ راہ رُک کر تماشہ کھڑا کر دینا اس کی عام روٹین تھی۔ اس کا چلن ہمیشہ سے کسی اڑیل اور ضدّی گھوڑے سا رہا جو اپنے سوار کی منشاء کے خلاف بیچ چوراہے میں کھڑا ہو جائے اور آگے بڑھنے سے انکار کردے۔ لیکن پھر بھی اس موقع پر ایک عرصہ قربت نے اک عجیب سی جذباتی کیفیت پیدا کر دی تھی۔
کار برائے فروخت کا اشتہار دیتے وقت میرا خیال تھا کہ میں اسے کسی دوست نُما دائمی دُشمن کے ہاتھ بیچوں گا تاکہ ”دوستی“ کا صحیح حق ادا کرتے ہوئے خاموش انتقام لیاجائے۔ خود میرے ساتھ بھی ایک دوست نے ہی یہ ”مہربانی“ فرمائی تھی۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا میرے تمام احباب اس کار کے احوال سے واقف تھے اور کئی ایک جنہیں میرے ساتھ کبھی سفر کرنے کا اتفاق ہوا وہ تو باقاعدہ اس کے متاثرین میں بھی شامل تھے۔ بطور سواری یہ کار کسی عذاب سے کم نہیں تھی۔ اس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں تھی۔ اس کا کچھ بھی اوریجنل نہیں تھا۔۔ اس کے مالک سمیت اس کی ہر شے کئی کئی دفعہ تبدیل ہو چکی تھی۔کئی کار مکینک تو اب باقاعدہ ”جواب“ دے چکے تھے کہ کہ یہ ’مریض‘ ٹھیک ہونے کا نہیں۔ شہر کے سارے مکینکس میرے واقف تھے۔ میرے موبائل میں اگر سب سے زیادہ نمبر موٹر مکینکس کے تھے تو اس کا سبب یہی کار تھی اور میں خود بھی اگر اب ایک اچھا مکینک بن چکا ہوں تو یہ بھی اسی کی عنایت ہے۔چار پانچ کلومیٹر سے زیادہ سفر اس کے لیے Long Drive کے زُمرے میں آتا تھا۔ اور ایسا سفر اس کی طبع نازک پر ہمیشہ گراں گزرتا۔ شہر بھر کی کوئی سڑک ایسی نہیں جہاں ’ موصوفہ‘ نے ہم سے دھکّے نہ لگوائے ہوں اسی لیے میں اسے ’فیملی کار‘ کہتا تھا کہ کسی اکیلے آدمی کا اسے رکھنا اور استعمال کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اسے کسی دن ہم غلطی سے واش کر دیتے تو کئی روز تک اس کی طبیعت ناساز رہتی۔ ’سروس اسٹیشن‘ پر لے جاتا تو وہ اسے واش یا سروس کرنے سے انکار کر دیتے۔ میرے اصرار پر کہتے کہ پہلے لکھ کر دیں کہ اگر اسے کچھ ہو گیا تو ہم ذمہ دار نہیں ہو ں گے۔ اس کرم بھری گاڑی میں کبھی ہارن لگوانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی !! الحمد للہ! اس کا ہر پُرزہ بذاتِ خود ہارن کا کام دیتا تھا ۔یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ڈرائیور سمیت اس کار کی ہر چیز چیخیں مارتی تھی۔ چلتی تھی تو سڑک پر گویا ایک طوفان سا بپا ہو جاتا تھا۔ کئی دفعہ ہم نے اسے ٹھیک کروانے کی بڑی مُخلص سعی کی۔۔ ایک دو دفعہ تو اس کی مکمل”Renovation “ بھی کر کے دیکھی ۔۔ اسے خوب سجانے سنوارنے کی بھی کوشش کی لیکن وہ جو فیض ؔ نے کہا تھا کہ
کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ء ویرانی نہیں جاتی
کے مصداق اس کار کی ویرانی اور ہماری پریشانی کا کبھی علاج نہ ہو سکا۔ مختصر یہ کہ ایسی ” پراگندہ طبع “ کار کہیں دیکھی نہ سُنی۔
لیکن اب ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ کار بالکل ہی بے کار تھی۔ ہم اس سے کئی فائدے لے رہے تھے۔ روڈ پر چلنے اور سفر ی معاملات کو اگر ایک طرف رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمیں کئی سہولتیں فراہم کر رہی تھی۔ مثلاً یہ ہماری پالتو و غیر پالتو بلّیوں کے لیے ایک مستقل اور محفوظ مسکن کے طور پر استعمال ہو رہی تھی۔ وہ اس میں آرام کرتی تھیں۔ بلکہ محلے کی کچھ دیگر بلّیاں اپنی کوئی چھوٹی موٹی ”تقریب“ وغیرہ بھی اسی میں منعقد کر لیتی تھیں۔مذید برآں گھر میں اگر مہمان زیادہ آ جاتے تو بچوں کو احتیاطاً اسی میں سُلا دیا جاتا۔اور یہ صرف بچوں پر ہی کیا موقوف تھا کئی دفعہ خود میرے لیے بھی یہی جائے پناہ بنتی۔ اس کے علاوہ بچوں کے مختلف کھیلوں از قسم ”چھپن چھپائی“ میں یہ بچوں کے لیے Hiding Place کے طور پہ بھی استعمال ہوتی تھی۔ سو! کہا جا سکتا ہے کہ یہ کار اپنا کام چھوڑ کر باقی کئی کام بخوبی انجام دے رہی تھی۔ یوں اس کی مثال وطنِ عزیز کے بعض اداروں سے دی جا سکتی ہے جو اپنا کام کرنے کے علاوہ باقی سب کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اوپربیان کردہ فوائد کے علاوہ کچھ ذیلی فائدے بھی تھے جو یہ گاڑی ”بائی ڈیفالٹ“ ہمیں دے رہی تھی مثلاً دوست احباب رشتے دار وغیرہ نے کبھی یہ گاڑی مانگی نہیں تھی۔ ایک آدھ بار کسی نے مانگی تو ہاتھ باندھ کر واپس کر گئے بعد میں پتہ چلا کہ ان کے اپنے گھر میں لڑائی پڑ گئی تھی۔ دوسرا بڑا فائدہ یہ نظر آیا کہ اسے کسی چور نے چرانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ میں نے جہاں چاہا اسے پارک کر دیا بلکہ کئی دفعہ جان بوجھ کر انتقاماً ایسی جگہوں پر پارک کیا جو کار چوری کے حوالے سے بدنام تھیں لیکن یہ ہمیشہ محفوظ اور ہم غیر محفوظ رہے۔
سو! یوں ان حالات کے پیشِ نظر اس کار کو بیچنے کا مکمل ارادہ کیا گیا۔ اور اخبار میں اشتہار دے کر اب ہم خریدار کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ طویل رفاقت کے ختم ہونے کے علاوہ پریشانی کا سبب یہ بھی تھا کہ جس طرح میں نے اس کا خیال رکھاتھا وہ شاید کوئی اور نہ رکھ سکے اور بقول غالب ؔ یہ غم بھی تھا کہ : ”کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد“۔۔ فروخت کا سوچتے وقت میری ترجیح زیادہ قیمت وصول کرنا قطعاً نہیں تھا (اور یہ خواہش ہو بھی کیسے سکتی تھی) لیکن یہ ضرور تھا کہ کوئی ایسا خریدار آئے جو اس کا قدردان بھی ہو۔اور پھر ایک ایسا مطلوب بندہ مل ہی گیا۔ دراصل سلیم الفطرت اور ضعیف الدماغ انسانوں کی کسی دور میں بھی کمی نہیں رہی۔ اور ایسے سَودوں کے لیے ’ سودائی ‘ آپ کو مل ہی جاتے ہیں۔ بھاؤ تاؤ کے بغیر اس نے جو دیا میں نے وصول کر لیا اور چابی اس کے حوالے کر دی۔ وہ صاحب گاڑی لے کر چلتے بنے۔ جاتی گاڑی پر ایک نظر ڈال کر میں پیچھے پلٹا تو دیکھا کہ پالتو بلّیاں گیراج میں پریشان گھوم رہی تھیں۔شاید اُن کے آرام کا وقت ہو گیا تھا۔