نمبر گیم
آجکل امتحانات میں جس طرح بچوں کے نمبرز آ رہے ہیں اس پر بطور والدین ہمیں خوشی کے ساتھ ساتھ شدید حیرت بھی ہو رہی ہے۔ وہ اس لیے کہ والدین اور آجکل کے بچوں کے نمبروں میں مشرقین کا فاصلہ ہے۔۔ یعنی حد ہو گئی کوئی سو دو سو نمبروں کا فرق ہو تو سمجھ آتا ہے غضب خدا کا یہاں تو پانچ پانچ سو نمبروں کا فرق آ رہاہے۔ اور بخدا اپنے زمانے میں ہم خود کوئی نالائق طالب علم ہر گز نہیں تھے بلکہ اچھے خاصے فرسٹ ڈویژنر رہے ۔اور وہ بھی اس زمانے میں جب فرسٹ ڈویژن لینے کے لیے ارسطو کا دماغ چاہیے تھا اس کے باوجود بھی موجودہ دور میں بچے جو نمبر حاصل کر رہے ہیں ان میں اور ہمارے نمبروں میں میلوں کافاصلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرصہ ہوا ہم شرمندگی کے باعث اپنے نمبروں کا تذکرہ کسی سے نہیں کرتے۔ جب کبھی بچوں نے ہمارے نمبروں کی تفصیل پوچھی تو ہم بات کو گھماتے ہوئے کہیں اور لے گئے اور بچوں کو یاد کروایا کہ کافی دنوں سے میگڈانلڈ وغیرہ نہیں گئے چلو برگر کھا کر آتے ہیں ۔۔یوں حاضر دماغ بن کر ہم اپنا ” ضعفِ دماغ“ تو چھپا لیتے ہیں اور وقتی طور پر عزت بھی بچ جاتی ہے لیکن یہ نسخہ ہمیں تین چارہزار میں پڑتا ہے۔
ہمارے زمانے میں میں (یعنی کوئی بیس پچیس سال پہلے) فرسٹ ڈویژن لینا بھی ایک بڑا معرکہ تھا اور خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں فرسٹ ڈویژن ایک بڑا اعزاز تھا۔ ان دنوں اکثرطلبا ء کا پہلا ( او ر آخری) ٹارگٹ صرف پاس ہو نا ہوتا تھااور یہی حاصل ہو جاتا تو بلّے بلّے۔۔تب ایک دو مضامین میں ”سپلی“ آ جانا بھی معمول تھا۔ بلکہ ایک آدھ مضمون میں فیل ہونے والے کی مثال تو ایسے تھی جیسے کوئی شخص کسی گھمبیر لڑائی میں شامل ہو اور ایک آدھ تھپڑشپڑ کھا کر بچ نکلے اور شکر ادا کرے کہ شدید زخمی نہیں ہوا۔کئی پاس ہونے والے لڑکوں پر لوگ حیران ہوتے تھے کہ یہ کیسے پاس ہو گیا اور حیران ہونے والوں میں پاس ہونے والا لڑکا خود بھی شامل ہوتا تھا۔ یعنی اسے خود بھی حیرت ہوتی تھی کہ کیسے بچ نکلا۔ اور وہ ”ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں“ والی کیفیت میں مبتلا رہتا تھا۔۔ ایسے ماحول میں کسی کا پاس ہو جانا اور خاص طور پر فرسٹ ڈویژن مل جانا ایک کمال تھا جس پر سب آس پاس والے کھل کر داد دیتے تھے۔ ہمارے گاؤں میں ایک دفعہ ایک لڑکے کی میٹرک میں فرسٹ ڈویژن آ گئی اس بیچارے کو اس قدر پزیرائی ملی کہ اس نے میٹرک کو ہی منزل سمجھ لیا اور وہیں دھونی دھما کر بیٹھ گیا۔ بعد میں جب وقت گزر گیا تو بیچارہ چنگ چی چلاتا تھا جس کے پیچھے لکھوا رکھا تھا ”فلاں ولد فلاں میٹرک فرسٹ ڈویژن“
اب زمانہ مختلف ہے اب تو فیل ہی کوئی نہیں ہوتا۔آجکل کسی فیل شُدہ طالب علم کو تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی صاحب ِ حکمت کو تلاش کرنا۔۔ اور امتحان میں نمبر یوں آرہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔۔ ایک طالب علم کے بارے میں سنا ہے کہ اس نے پانچ سو پانچ (۵۰۵) میں سے پانچ سو دو (۰۰۵) نمبر حاصل کیے ہیں۔ہمیں فیض احمد فیض ؔ یاد آگئے۔ گورنمنٹ کالج میں ایک دفعہ ایک استاد نے فیض ؔ صاحب کے انگریزی کے پرچے میں پچھتر میں سے پچھتر نمبر لگا دئیے۔ اس پر پرنسپل حیران ہوئے انہیں بلایا اور پوچھا کہ اتنے نمبر کیوں دئیے؟ پروفیسر نے برجستہ کہا، ”اس لیے کہ میں اس سے زیادہ نمبر دے نہیں سکتا تھا۔ لیکن وہ تو خیر فیض ؔ تھے اور آجکل نمبروں کے حوالے سے ہر کوئی تقریباًفیض ؔ ہی بنا پھرتا ہے۔ دوسری طرف ان دنوں فرسٹ ڈویژن ہولڈر بیچارے تو منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ پچھلے دنوں گھر آئے تو پتہ چلا کہ ہمارے ایک قریبی عزیز کی بیٹی کے میٹرک میں پچانوے فیصد نمبر آئے ہیں۔ہمیں خوشی کے ساتھ ایک شاک لگا یعنی تعلیمی میدان میں ہماری اپنی فیملی کی ایسی شاندار پر فامینس اور وہ بھی ایک لڑکی کی۔ تو گویا ”ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی“۔۔ فوراً بیگم سے کہا کہ ان کے گھر جا کر مبارک باد دے کے آتے ہیں۔ اُن کے گھر پہنچے تو ہم نے سب کو کھلے چہرے کے ساتھ مبارک دی لیکن ہم نے دیکھا کہ ان سب کے منہ اترے ہوئے تھے پوچھا تو پتہ چلا کہ بچی نے جو توقع کی تھی اتنے نمبر نہیں آئے۔۔ پوچھا بچی کدھر ہے کہنے لگے ” جب سے رزلٹ آیا ہے اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا ہے اور شرمندگی کے باعث باہر نہیں آ رہی تھی۔ ہمیں تو ڈر ہے کہیں کچھ کر ہی نہ لے“۔ ہمیں ایک مرتبہ پھر شاک لگا۔ یعنی اگر پچانوے فیصد نمبر لے کر بھی خود کُشی کی جا رہی ہے تو اس معیا پر ہم جیسے ستر فیصد نمبر لینے والوں کی تو پوری کلاس کو اپنے استاد سمیت کسی تو پ وغیرہ کے آگے باندھ کر اڑا دینا چاہئے۔
تعلیم کے قدرے عام ہونے اور ”نمبر گیم“ کے اس عروج کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب چوتھے پانچویں سکیل کی جاب کے لیے آنے والے امیدواروں کی بڑی تعداد ایم اے اور ڈبل ایم اے ہوتی ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ہمیں بچپن میں بتایا گیا تھا کہ بڑا آدمی بننے کے لیے بہت زیادہ پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے ہمارے بچپن میں والد صاحب کے ایک دوست پولیس میں ڈی ایس پی تھے اور وہ والد صاحب سے ملنے آیا کرتے تھے اُن کے ساتھ چار پانچ گن میں اور گاڑی شاڑی دیکھ کر ہم انہیں بڑا آدمی سمجھتے تھے اور ہمارا خیال تھا کہ یقیناً یہ بہت پڑھے لکھے ہوں گے۔ ایک دن والد صاحب کے ذریعے ہم نے ڈ ی ایس پی صاحب سے پوچھا کہ اُن کی تعلیم کیا ہے۔ تو انہوں نے بتایا ”انڈر میٹرک“ ۔ یہ تب کی بات تھی لیکن دوسری طرف چند دن پہلے کہیں جاتے ہوئے راستے میں کھڑے ایک باوردی کانسٹیبل کو لٖفٹ دی اور پھر دوران سفر حسبِ عادت اسے اخلاقیات اور رزقِ حلال پر کوئی پینتیس منٹ کا مختصر سا لیکچر دیا اور پھر غلطی سے پوچھ بیٹھے، ”برخوردار!! آپ کی تعلیم وغیرہ کیا ہے۔ کچھ تھوڑا بہت پڑھے لکھے بھی ہیں یا ایسے ہی بھرتی شرتی ہو گئے ہیں۔ ۔۔ اس پر کانسٹیبل نے بڑی سنجیدگی سے بتایا کہ اس نے اسلامیات میں ایم فل کیا ہے۔ ہم سکتے میں آگئے۔ ہم نے اپنے لیکچر پر معذرت کی اور اس کے کمالِ صبر اور اعلیٰ ظرفی پر داد دی پھر اسے منزل مقصود تک پہنچایا اور نیچے اتر کر اس کے لیے دروازہ کھولا۔۔موصوف نے ہم سے دو جماعتیں زیادہ پڑھ رکھی تھیں
دوسری طرف جب سے تعلیمی ڈگریاں قدرے عام ہوئی ہیں اور امتحانی نمبر گیم کی منڈی میں تیزی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے ہماری اخلاقیات اور تہذیبی روایات کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ چند دن پہلے میں اپنے گاؤں میں تھا۔شام کے وقت باہر نکلا تو گلی میں گزرتے ہوئے ایک گھر میں سے اونچی اونچی آوازیں آرہی تھیں۔ گھر کا بڑا لڑکا نوید اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ انتہائی تلخ انداز سے مخاطب تھا اور اُسے تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ وہ چُپ کر جائے۔۔ اسے کسی بات کا پتہ ہوتا نہیں اور وہ فضول بولتا رہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ مجھے شدید دھچکا لگا۔نوید نے ایک بڑے تعلیمی ادارے سے Environmental Sciences میں اعلیٰ نمبروں سے ماسٹرز ڈگری لی تھی اس کے علاوہ متعلقہ مضمون میں ایک دو اچھے کورسز بھی کیے تھے۔ اور حال ہی میں اسے کسی پرائیویٹ ادارے میں اچھی جاب ملی تھی۔مجھے یاد ہے چند سال پہلے میں ایم ایے انگلش کے امتحان سے فارغ ہوا تونوید میٹرک میں تھااور اس کا والد اسے میرے پاس لے کر آیا تھاکہ اس کا فائنل امتحان نزدیک ہے ازراہِ کرم اس کی انگلش وغیرہ کی تیاری کروادیں یہ میرا بڑا بیٹا ہے اور مجھے اس سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔۔ وہ باربرداری کا کام کرتا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ وہ بیٹے کی تعلیم کے لیے سخت محنت کررہا ہے۔اس کی ملتجی نظریں اور پُراُمید چہرہ ایک دم میرے سامنے اُبھرا۔ نوید نے میٹرک سمیت تمام امتحانات میں شاندار کارکردگی دکھائی۔ اور اعلیٰ پائے کی ملازمت اختیار کی۔ لیکن دوسری طرف غالباً نوید کی بھاری ڈگریوں اور کورسز نے اُس کے باپ کی اُمیدوں بھری جھولی میں چھید کر دئیے تھے جن سے اُس کی امیدیں نیچے گر کر ادھر اُدھر بکھر گئی تھیں۔ تعلیم کی فراوانی میں تربیت کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔۔۔
علموں بس کریں او یار