کالم

” ترکی میں پاشا “

Share

آجکل ہمارے ہاں کسی بھی ملک کا سفر نامہ لکھنے کے لیے دو بنیادی شرائط رائج ہیں۔۔ایک تو آپ انٹر نیٹ کا بھر پور استعمال جانتے ہوں اور دوسری آپ کو لمبی چھوڑنے کا فن بخوبی آتا ہو۔۔بس یہی دو بنیادی شرائط ہیں۔ ہاں! اس کے ساتھ اگر اُس ملک کا سفر بھی کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن بہرطور یہ کوئی ضروری شرط نہیں ہے۔ویسے بھی انٹرنیٹ پر بیٹھ کر جس زبردست انداز سے کوئی سفرنامہ لکھا جا سکتا ہے وہ اس ملک میں جانے اور وہاں دھکے دھوڑے کھا کرلکھنے سے کہیں بہتر ہے۔۔۔یعنی نہ ہنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا۔
سفرنامہ نگاری کے حوالے سے طاہر انوار پاشا صاحب نے دوسری روش اختیار کی ہے۔ یہ جس ملک کا سفر نامہ لکھتے ہیں وہاں ناصرف خود جاتے ہیں بلکہ اس ملک کا حال احوال اتنے دلچسپ اور مفصّل انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ان کا قاری سمجھتا ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ پھررہا ہے۔ ان کی سفر نامہ نگاری کی خوبی یہ ہے کہ یہ اس ملک کے ایسے عصری اور تاریخی گوشوں سے پردہ اُٹھاتے ہیں جن کے بارے میں شاید وہاں کے باسی بھی کچھ نہ جانتے ہوں۔ معروف اداکار اور کمپیئر ضیاء محی الدین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس قدر شاندار لہجے اور تلفظ کے ساتھ انگلش بولتے کہ کئی انگریز اپنا تلفّظ درست کرنے کے لیے اُن سے رجوع کیا کرتے تھے۔ جناب پاشا صاحب کے سفر ناموں کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اُن ملکوں کے باشندے اپنے ملک کے بارے میں اپنی معلومات درست کرنے کے لیے ان کے سفر ناموں سے رجوع کر سکتے ہیں۔
حال ہی میں طاہر انوار پاشا صاحب کا دوسرا سفر نامہ ”ترکی میں پاشا“ کے نام سے سامنے آیا ہے۔ یہ ترکی کے بارے قریب پونے تین سو صفحات پر مشتمل ایک مستند دستاویز ہے۔ان کے اسلوب کی خاص بات ان کا بے حد عمیق مشاہدہ اور پھر اس کا انتہائی خوبصورت، مختلف اور مفصّل بیان ہے ۔ انداز ایسا دلچسپ اور دلنشین ہے کہ دل سے تحسین نکلتی ہے۔ تحریر میں کوئی جھول یا سُقم ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ دوسری طرف پُختگی اور ہنر مندی اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔جزیات نگاری اور ضروری تفصیلات سے آراستہ تحریر صاحبِ مطالعہ قاری کے لیے بے حد دلچسپ ہے۔ ”ترکی میں پاشا“ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ترکی کو ایسا متجسّس، اعلیٰ قدردان اور انتہائی باذوق سیّاح کم نصیب ہوا ہو گا۔
پاشا صاحب کا تاریخی و تہذیبی ذوق بے حد قابل تعریف ہے۔ ان کے اس سفر نامہ میں بھی، حسبِ معمول، علاقوں، منظروں اور عمارتوں کو ان کے تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاریخ، جغرافیہ اور ریاستی امور کو اس باریک بینی سے سمجھنے اور پھر اس کو اس قدر تفصیلی اور دلچسپ انداز میں بیان کرنے سے ہمیں ان کی کمال ذہانت اور تاریخی و ثقافتی شعور کا پتہ چلتا ہے۔قاری کے ذہن میں کسی بھی سوال کے اُٹھنے سے پہلے ہی اس کا تسلی بخش جواب دے دیا جاتا ہے ۔”ہائپر لنکس“ کی، گویا، ایک سیریز ہے جو کھُلتی چلی جاتی ہے۔حیرت بس اس بات پہ ہوتی ہے کہ ایسے باکمال مصنّف نے اپنا تخلیقی سفر اتنی تاخیر سے کیوں شروع کیا۔
پاشا صاحب کے سفرناموں کا ایک اور کمال اور امتیازی وصف یہ ہے کہ اُن کی بیگم صاحبہ ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔یہ یقیناً بڑے حوصلے کی بات ہے۔ ہمارے ایک اور ادیب دوست کے ہاں بھی یہ کمال پایا جاتا ہے بس فرق یہ ہے کہ وہ خود بیچارے بیگم کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔چنانچہ زیرِ نظر سفرنامہ ”ترکی میں پاشا“ میں بھی حسبِ معمول بیگم صاحبہ اُن کے ہمراہ موجود تھیں۔لگتا ہے کہ یہ ان کی شریکِ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ شریکِ سیاحت بھی ہیں۔ بعض اوقات تو ان کی تحریر سے یوں لگتا ہے کہ یہ دراصل اُن کا بیگم صاحبہ کے ساتھ کمال انسیت اور دلجوئی کا بیان ہے اور سفر نامہ تو بیچ میں یوں ہی خواہ مخواہ آگیا ہے۔ پاشا صاحب کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی بیگم صاحبہ ذوقِ جہاں بینی اور تجسّس کے حوالے سے پاشا صاحب سے کسی طور بھی کم نہیں بلکہ بعض اوقات تو لگتا ہے کہ سیرو تفریح کا ذوق وشوق بیگم صاحبہ میں ذیادہ ہے۔ دورانِ سفر کئی ایک جگہوں پہ پاشا صاحب تھکاوٹ وغیرہ کی بنا پر آگے نہیں جا پائے لیکن اُن کی بیگم صاحبہ اُن دوردراز جگہوں تک بھی گئیں۔چنانچہ آج اگر ہمیں ترکی کا ایک مفصّل اور مستند سفر نامہ دستیاب ہے تو اس میں یقیناً بیگم صاحبہ کا کردار بھی ہے۔ اور اس ضمن میں دوسرا بڑا فائدہ یہ نظر آ رہا ہے کہ سفر میں بیگم کی موجودگی میں بندے کی ذیادہ دلچسپی صرف تاریخ و تہذیب اور زمینی مناظر تک ہی محدود رہتی ہے۔ اور پوری توجہ مشاہدے پر ہونے کی وجہ سے درست اور بہترمعلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ بہر طور سفر نامہ پڑھتے ہوئے ہمیں پتہ چلتاہے کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان گہری قُربت اور لاجواب تعلق قابلِ رشک ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے۔
اسے حُسنِ اتفاق کہیے کہ اس خاکسار کو بھی سیروتفریح اور تاریخی حوالے سے مشہور ان علاقوں اور ملکوں میں جانے کا موقع ملا جہاں جناب پاشا صاحب نے اپنی قابلِ قدر سیاحت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ یعنی اُزبکستان، ترکی اور اب مصر۔۔ان میں سے پہلے دو ممالک کے سفر نامے پاشا صاحب کی جانب سے منظرعام پر آ چکے ہیں جبکہ تیسرے یعنی مِصر کا سفر نامہ اُن پر اُن کے قاری کا قرض ہے جو جلد ادا ہونے کی بھر پور توقع ہے ۔راقم نے ان علاقوں میں اپنا ”شوقِ آوارگی“ پورا تو کیا ہے لیکن کوئی سفر نامہ تحریر نہیں کیا۔ سوچتا ہو ں جناب پاشا صاحب کے پیچھے پیچھے اسی طرح دو چار ملک اور گھوم لوں پھر اکٹھا ایک ہی سفر نامہ لکھوں گا جس کا نام ہو گا ”پاشا صاحب کے نقشِ قدم پر“۔